وہی کرسی ٔ صدارت اور وہی حالات

اردو ادب میں گدھوں پر کسی شاعر نے کم ہی توجہ دی ہو گی لیکن سودا ـؔنے گدھوں کو اپنی شاعری میں ایک مقام دے کر ان کی افادیت سے نوع انسان کو متعارف کرایا ،گدھے دراصل غیر سیاسی ہوتے ہیں،اور مزاجاً خاک نشین ہوتے ہیں ، اگر غلطی سے گدھوں کو یا گدھوں کی کسی جماعت کو کرسی مل بھی جائے تو وہ اس کا استعمال نہیں جانتے اور دھڑام سے نیچے گر جاتے ہیں ، ان کا کوئی اسپیئر پارٹ بھی مارکیٹ میں نہیں ملتا ، توجہ طلب بات تو یہ ہے کہ ان کا کوڈ ورڈ بھی ہے اور وہ ہے ’’ڈھانچوں ڈھانچوں‘‘ اس کوڈ ورڈ کو آج تک کوئی سمجھ نہیں سکا اور نہ ہی کسی نے اس کوڈورڈ کو کھولنے کی کوشش کی ، لیکن اتنا ضرور ہے کہ یہ کوڈ ورڈ سرائیکی زبان کے لفظ ’’ ڈھاسوں ‘‘ سے متشابہ ہے ، جس کا مطلب ہے ، ’’ گرا دوں گا‘‘ آجکل پاکستان کی سیاست میں بھی یہی کوڈورڈ کثرت سے استعمال ہو رہا ہے ، چاروں طرف سے ایک ہی آواز سنائی دیتی ہے کہ ’’ ڈھانچوں ‘‘ پھر دوسری صدا بلند ہوتی ہے ’’ ڈھاسوں‘‘ اس کے باوجود پاکستان کی عوام یہ دونوں کوڈ ورڈ سمجھنے سے قاصر ہیں۔
محققین کے مطابق جب کوئی معاشر ہ خودغرضی اور مفاد پرستی کو اپنا لیتا ہے تو اس معاشرے کا انجام ترقی سے محرومی اور تباہی و بربادی کے انجام تک پہونچ جاتا ہے ، حالیہ معاشی تنزلی اور ملک میں افراتفری خود غرضی کی منہ بولتی تصویر ہے ، کرسی کا حصول بعض افراد کو جنون کی حد تک لے جاتا ہے اور وہ اسے حاصل کرنے کے لئے ، جھوٹ ،دولت، وطن فروشی کی حد تک جانے سے دریغ نہیں کرتے، تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں ایسے بھی فرماں روا اور سپہ سالار گزرے ہیں جنہوں نے کرسی کے حصول کے لئے سرفروشیوں سے بھی دریغ نہیں کیا ، خون کی نہریں بہائیں میدان کار زار کو کشت و خون سے رنگین کیا ، کرسی کی تمنا ہر خاص و عام میں پائی جاتی ہے ، اس کے لئے کسی عہدے یامقام کی ضرورت نہیں ہوتی،ہاں اتنا ضرور ہے کہ کرسی کی تمنا کچھ افراد ذاتی مفاد کو مدِ نظر رکھ کر کرتے ہیں اور کچھ نیک نیتی اور خلقِ خدا کی فلاح کے لئے، یہ دور جسے ہم گزار رہے ہیں یہ طمع، لالچ، حرص و ہوس، خودغرضی اور ناء پرستی کا دور ہے، انسان سمجھنے سے قاصر ہے کہ کیا ہو گا ، کیسے ہوگا ، کون سچا اور کون جھوٹا ہے ۔
اسلامی تاریخ میں ایسے بھی درویش طبع مسلم سکالر اور عالم دین گزرے ہیں جنہوں نے حکومت میں شامل ہونے کی پیشکش کو ٹھکرایا اورحاکم وقت کے زیر، عتاب رہنے کو ترجیح دی ان میں سنی مسلم سکالر، فقیہ اور عالم دین امام ابوحنیفہ اور بہلول دانا ہیں جنہیں حاکم وقت نے حکومتی پیشکش کو رد کرنے کے جرم میں زندان میں ڈالا ،جبر کیا اذیتیں دیں اور ان کا وصال زندان میں ہی ہوا، حکومتی عہدے پھولوں کی سیج نہیں ہوتے ان کے لئے بردبار ، دوراندیش، پختہ عزم ، برداشت کے حامل ، قابل، فہیم اور اعصاب کے پختہ افراد ہی حکومت کرنے کے اہل ہوتے ہیں ، اس وقت ان صفات پر مشتمل سیاست دان اکا دکا ہی ملکی سطح پرموجود ہے ، اس کے علاوہ تو کم فہم اور لغو باتیں کرنے والے غیر سیاسی افرادکی بہتات ہے۔
حقیقت کو چھپایا نہیں جاسکتا اور سچ کو دبایا نہیں جا سکتا ، خدائے بزرگ وبرتر کا فرمان بھی یہی ہے کہ ’’ اور سچ پر جھوٹ کو مت لپیٹو ، اورجان بوجھ کر حق سچ کو مت چھپائو، وہ سچ جسے تم جانتے ہو‘‘ سورہ البقرہ آیت ۔42 ،2018 ء میں سچ چھپایا گیا اور جھوٹ کا زہرنوجوان نسل کے ذہنوں میں گھول کر اپنے مفادات حاصل کئے گئے ، لیکن وقت ایک سا نہیں رہتا ، جو باہر تھے اندر ہیں اور جو اندر تھے اب وہ باہر ہیں ، لاہور میں مسلم لیگ (ن) کی جنرل کونسل کا اجلاس ہوا جس میں نواز شریف کے پارٹی صدارت کی تو ثیق کی گئی سابق وزیر اعظم نواز شریف چھ برس بعد اپنی پارٹی کے دوبارہ بلا مقابلہ صدر منتخب ہو گئے ۔
مسلم لیگ (ن ) کے صدر اور تین بار کے وزیر اعظم کے سامنے وہی کرسیء صدارت اور وہی حالات ہیں ملکی معیشت ، دہشت گردی، مہنگائی اور بجلی کے بحران کی للکار ،جس کا مقابلہ کرنا مشکل نہیں تو آسان بھی نہیں ، خیر اس وقت یہ مسائل موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کو درپیش ہیں ، جو کہ حتی الامکان بحرانوں کو حل کرنے میں تگ و دو کر رہے ہیں ، گزشتہ دن جاتی امراء رائیونڈ میں نواز شریف اور وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اجلاس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومتی معاملات نواز شریف کی مشاورت سے ہی طے ہوں گے ، نواز شریف موجودہ سیٹ اپ میں تجربہ کار ، اور معاشی حالات کو سمجھنے والے واحد لیڈر ہیں ، اب انہیں یہ طے کرنا ہے کہ وہ بحیثیت صدر مسلم لیگ (ن) اپنی سیاست گزشتہ طرز پرہی کریں گے یا مفاہمت کی پالیسی اپنائیں گے ، مبصرین کی متضاد تبصروں پر مشتمل آراء منقسم ہیں چند کا خیال ہے کہ نواز شریف عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ سے جارحانہ رویہ رکھیں گے جب کہ متعدد مبصرین اس کے بر عکس آراء رکھتے ہیں ،نواز شریف جارحانہ رویہ رکھ کر مرکز میں اپنے بھائی وزیر اعظم شہبا ز شریف اور پنجاب میں اپنی بیٹی وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کے لئے مشکلات نہیں بڑھائیں گے 
 اگر ہم خوشحالی کے خواہاں ہیں اور ملک کو مستحکم کرنے اور ترقی کی راہ پر چلانا ہے تو ہمیں اجتمائی مفاد کو انفرادی مفاد پر ترجیح دینا ہوگی ،سیاست میں تنگ نظر افرادکے آ جانے سے دوسروں کی عیب جوئی اور الزام تراشیوںسے نوجوان نسل کے اخلاق کو باقاعدہ منصوبہ بندی سے بگاڑا گیا ہے ، دوسروں کے احتساب کی بات کی جاتی ہے اپنا احتساب گوارہ نہیں۔ 
 
 


 
 

ای پیپر دی نیشن