پٹرولیم نرخوں میں تیسری بار کمی اور  بجلی کے نرخوں میں اضافے کا تسلسل

حکومت نے یکم جون سے شروع ہونیوالے پندھرواڑے کیلئے بھی پٹرولیم نرخوں میں کمی کر دی۔ اس سلسلہ میں رات گئے جو نوٹیفکیشن جاری کیا گیا اسکے مطابق پٹرول کے نرخوں میں فی لٹر 4.75 روپے‘ ڈیزل کے نرخوں میں 3.86 روپے اور مٹی کے تیل کے نرخوں میں 1.87 روپے فی لٹر کمی کی گئی جبکہ ایل پی جی کے نرخ بھی فی کلو 3.87 روپے کم کئے گئے ہیں۔ اس طرح گھریلو سلنڈر 45.62 روپے سستا ہو گیا ہے۔ پٹرول کے نئے نرخ 268.36 روپے‘ ڈیزل کے نرخ 270.22 روپے اور مٹی کے تیل کے نرخ فی لٹر 171.61 روپے مقرر ہوئے ہیں۔ جمعۃ المبارک کی شب 12 بجے حکومت کی جانب سے نئے پٹرولیم نرخوں کا جو نوٹیفکیشن جاری ہوا جو الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر چلتا بھی رہا‘ اس میں پٹرول کے نرخوں میں فی لٹر پندرہ روپے سے زائد کمی ظاہر کی جس سے عوام کو یک گونہ اطمینان حاصل ہوا کہ اس پندھرواڑے بھی پٹرولیم نرخوں میں خاطرخواہ کمی ہو گئی ہے جس سے انہیں مہنگائی میں بھی خاصہ ریلیف مل جائیگا تاہم ہفتہ یکم جون کی علی الصبح حکومت کی جانب سے پٹرولیم نرخوں کا دوبارہ نوٹیفکیشن جاری کیا گیا اور وزیراعظم ہائوس کے میڈیا ونگ کی جانب سے یہ وضاحتی بیان بھی جاری کر دیا گیا کہ پہلے غلطی سے پٹرولیم نرخوں میں زیادہ کمی والا پچھلے پندھرواڑے والا نوٹیفکیشن جاری ہوا تھا۔ اس پر عوام کی خوشیاں بھی ماند پڑ گئیں تاہم پٹرولیم نرخوں میں مسلسل تیسری بار کمی ضرور ہو گئی ہے جبکہ وزیراعظم شہبازشریف کی جانب سے یہ ہدایت بھی جاری کی گئی ہے کہ دو سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کیلئے بجلی مہنگی نہ کی جائے۔ وزیراعظم آفس کے ذرائع کے مطابق بجلی کے پروٹیکٹڈ صارفین کیلئے بجلی کے نرخوں میں اضافے کی حکومتی معاشی ٹیم کی تجویز وزیراعظم نے مسترد کر دی ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کیلئے سبسڈی حکومت برداشت کریگی۔ 
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آج اتحادی حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج عوام کو درپیش مہنگائی کا ہے اور پٹرولیم مصنوعات‘ بجلی‘ گیس کے بڑھتے نرخ ہی روزافزوں مہنگائی کے پس پردہ محرکات میں شامل ہیں۔ اگر ان اشیاء کے نرخ کم ہوتے ہیں تو اس کمی کے تناسب سے ان دوسری اشیاء کے نرخ بھی کم ہونے چاہئیں جن کے نرخ پٹرولیم مصنوعات‘ بجلی اور گیس کے نرخ بڑھنے کے جواز کے تحت بڑھائے جاتے ہیں مگر بالعموم اشیاء کے جو نرخ ایک بار بڑھ جاتے ہیں‘ ان میں کمی لانا صنعت کاروں‘ تاجروں‘ دکانداروں‘ ذخیرہ اندوزوں‘ ناجائز منافع خوری کے ذریعے لوٹ مار کرنے والے مافیاز اور خوانچہ فروشوں تک کیلئے کارِدارد ہوتا ہے جو اپنے بڑھائے ہوئے نرخ برقرار رکھنے کیلئے حکومتی انتظامی مشینری کو چیلنج کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اس طرح حکومتی گورننس کی کمزوری کا تاثر بھی اجاگر ہوتا ہے کیونکہ بالعموم یہ تمام عناصر قانون کی گرفت سے بچے رہتے ہیں جن کے لمبے ہاتھوں کو اقتدار کے ایوانوں اور پارلیمنٹ تک رسائی ہوتی ہے جہاں باہمی مفادات کا تحفظ عوامی مفادات پر ہمیشہ حاوی رہتا ہے جبکہ راندہ درگاہ عوام تک نہ سلطانء جمہور کے ثمرات براہ راست پہنچ پاتے ہیں اور نہ ہی مہنگائی میں ریلیف کے حکومتی اقدامات سے وہ مستفید ہو پاتے ہیں۔ آج انتہاء￿ درجے کی مہنگائی نے عملاً عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے اور ماسوائے حکمران اشرافیہ طبقات کے چند گھرانوں کے‘ تنخواہ دار‘ مزدور‘ کسان اور اپر مڈل کلاس کے طبقات تک کیلئے مہنگائی کا عفریت سوہانِ روح بن چکا ہے چنانچہ آج عوامی طبقات میں اپنے گوناں گوں مسائل کی بنیاد پر تنگ آمد بجنگ آمد والی سوچ تیزی سے ابھر رہی ہے۔ اس کا ٹریلر آزاد کشمیر میں چل چکا ہے جہاں عوامی ایکشن کمیٹی نے مہنگائی سے مضطرب عوام کو احتجاجی ریلے کی شکل دے دی اور پاکستان و آزاد کشمیر کی حکومتیں اس تحریک کے آگے گھٹنے ٹیک کر کشمیریوں کے تمام مطالبات منظور کرنے پر مجبور ہو گئیں۔ اگرچہ ایک مخصوص سیاسی جماعت کے حکومت مخالف عناصر نے اس تحریک میں گھس کر اسے تشدد کے راستے پر لگایا اور بھارتی ایجنڈے کے مطابق یہ تاثر دیا کہ کشمیر کے عوام اب پاکستان کے ساتھ منسلک نہیں رہنا چاہتے جس پر بھارتی وزیراعظم مودی کو بھی پاکستان پر پھبتیاں کسنے کا موقع مل گیا۔ 
پاکستان کو کسی نہ کسی حیلے بہانے سے بدنام اور کمزور کرنا تو یقیناً ہمارے دشمن بھارت کا بنیادی ایجنڈا ہے جس کیلئے وہ پاکستان میں موجود اپنے ایجنٹوں کو استعمال کرتا ہے مگر ایسے حالات تو عوام کے اضطراب کا باعث بننے والی حکومتی پالیسیاں ہی پیدا کرتی  ہیں۔ آج پاکستان کے اندر بھی روٹی روزگار اور غربت مہنگائی کے بڑھتے مسائل پر مضطرب ہوتے عوام سڑکوں پر نکلیں گے تو ہمارے مکار دشمن بھارت کو اس عوامی احتجاج کو بھی پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے بروئے کار لانے کا موقع مل سکتا ہے۔ سانپ کا سر اسی صورت کچلا جا سکتا ہے جب ہر حوالے سے مطمئن عوام حکومت اور افواج پاکستان کے ساتھ یکجہت ہو کر کھڑے ہوں۔ 
اس کے برعکس زمینی حقائق یہ ہیں کہ قومی معیشت اور حکومتی اقتصادی‘ مالیاتی پالیسیاں مکمل طور پر آئی ایم ایف کے شکنجے میں آچکی ہیں جس کے حقیر سے بیل آئوٹ پیکیج کیلئے بھی اہل اقتدار سر جھکا کر آئی ایم ایف کی ہر شرط قبول کرنے کیلئے ہمہ وقت آمادہ نظر آتے ہیں اور ان شرائط پر عملدرآمد کرتے ہوئے ہی عوام پر بجلی‘ گیس‘ پانی‘ پٹرولیم مصنوعات‘ ادویات اور روزمرہ استعمال کی دوسری اشیاء پر ناروا ٹیکس لگا کر اور انکے نرخوں میں بے مہابہ اضافہ کرکے ملک میں مہنگائی کے سونامی لائے جاتے ہیں۔ بجلی کے نرخ اسکی بڑی مثال ہیں جس کے ایک سو یونٹ کے نرخ بھی عام آدمی پر ناقابل برداشت بوجھ بن چکے ہیں۔ آئی ایم ایف کے جاری مذاکرات آئندہ بجٹ سے پہلے پہلے حکومت پر نئی شرائط کا بوجھ ڈال چکے ہونگے جو وفاقی اور صوبائی میزانیوں میں عائد کئے گئے نئے ٹیکسوں‘ لیویز اور جی ایس ٹی کی شکل میں بالآخر راندہ درگاہ عوام کی جانب ہی منتقل ہوگا۔ حد تو یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے تابع پٹرولیم نرخوں میں کمی بھی پٹرولیم کے عالمی نرخوں میں کمی کے تناسب سے نہیں کی جاتی چنانچہ حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کے باعث ملک کی معیشت پر مسلط ہونیوالے آئی ایم ایف کے ساہوکارانہ نظام کا خمیازہ بھی سلطانی جمہور کے ستون عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے اور حکمران اشرافیہ طبقات ایسے بوجھ کے نیچے سے خود کو مکھن سے بال کی طرح نکال لیتے ہیں۔ اس غیرمنصفانہ اور غیرمساویانہ سسٹم کا ناروا بوجھ عوام بھلا کب تک برداشت کر سکتے ہیں چنانچہ ایک دن لاوا پھٹنے کی نوبت ہی آئیگی۔ اس لاوے کا رخ کس جانب ہو سکتا ہے‘ اس کا حکمران طبقات کو بہرصورت ادراک ہونا چاہیے۔ فروری 2024ء کے انتخابات اسکی ہلکی سی جھلک دکھلا چکے ہیں۔ اس تناظر میں آئندہ مالی سال کے بجٹ کو حقیقی عوام دوست بجٹ بنانا اتحادی حکمرانوں کو آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد سے بھی زیادہ اپنی مجبوری بنانا چاہیے کیونکہ ممکنہ عوامی غضب کے آگے بند باندھنے کا یہی ایک راستہ ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...