ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے برطانوی ہائی کمشنر کو لکھے خط پر دفتر خارجہ کوئی رائے نہیں دے گا، سپریم کورٹ ملک کا سب سے بڑا آئینی ادارہ ہے، بیرونی سفارتکاروں کو پاکستان کے اندرونی معاملات پر تبصرہ کرنے میں مختاط رہنا چاہیے۔
8 فروری کو ہونے والے انتخابات میں امریکہ سمیت کئی ممالک کی طرف سے نقطہ چینی کی گئی جس پر پاکستان کی طرف سے شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ یہ خالصتا پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ جس طرح پاکستان دوسرے ممالک کی سیاست میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کرتا، کسی اور ملک کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں جھانکنے کی بھی ضرورت نہیں۔گزشتہ دنوں ایک سیمینار کے دوران برطانوی ہائی کمشنر جین میرٹ کی طرف سے آٹھ فروری کے انتخابات کو موضوع بحث بناتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلوں کو ہدف تنقید بنایا گیا تھا۔جس کی وضاحت کے لیے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کی طرف سے برطانوی ہائی کمشنر کو خط لکھا گیا۔ آٹھ فروری کے انتخابات اور اس کے بعد یا پہلے عدالتوں میں کیسز کی سماعتیں ہوتی رہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔بیرونی سفارت کاروں کی جس ملک میں تعیناتی ہوتی ہے اس کے ساتھ تعلقات میں استحکام کے لیے انہوں نے اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔جب بڑے بڑے مقامی ایشوز میں سفارت کار اپنی یکطرفہ رائے دینے لگیں تو ان کی حیثیت ایک فریق کی بن جاتی ہے۔جس کی سفارتی پروٹوکول میں گنجائش موجود نہیں۔ وزارت خارجہ کی طرف سے بجا مشورہ دیا گیا ہے کہ سفارت کار پاکستان کے اندرونی معاملات پر تبصروں میں محتاط رہیں۔