کچھ یادیں … کچھ باتیں…(۲)

انگریزی اور اردو کے معروف صحافی میاں محمد شفیع (م ۔ش) فوت ہوئے۔ تو بہت سے دوستوں نے ان پر تعزیتی کالم لکھے اور سبھی نے حمید نظامی صاحب سے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے زمانے سے ان کی دوستی اور عمر بھر کی رفاقت کا ذکر کیا۔ یہ سب درست ہے۔ لیکن کسی نے یہ تذکرہ نہیں کیا کہ مختلف وقتوں میں ان دونوں دوستوں میں اختلافات بھی رونما ہوئے۔ اور وہ ایک عرصے تک ایک دوسرے سے دور بھی رہے۔ یہ کوئی ان ہونی یا بری بات نہیں ہے۔ دولتانہ ممدوٹ آویزش میں نوائے وقت نواب افتخار حسین ممدوٹ کی حمایت کر رہا تھا جبکہ میاں محمد شفیع میاں ممتاز دولتانہ کو سپورٹ کر رہے تھے اور ان کی چیف منسٹری کے زمانے میں مسلم لیگ اسمبلی پارٹی کے سیکرٹری تھے۔ نوائے وقت میں ان کی سرگرمیاں اور بیانات اکثر بلیک آؤٹ ہوتے تھے۔ میاں محمد شفیع نے ایک مقدمہ میں حمید نظامی کو گواہ طلب کرلیا اور نوائے وقت کا ایک تراشہ ان کے ہاتھ میں دیکر سوال کیا کہ یہ آپ نے ہی نوائے وقت میں میرے (میاں محمد شفیع کے ) بارے میں تعریفی کلمات لکھے تھے۔؟
حمید نظامی مسکرائے اور کہا یہ درست ہے میں نے ہی یہ لکھا تھا۔ مگر ایک وقت تھا کہ میں لاہور کو دنیا کا سب سے بڑا شہر تصور کرتا تھا لیکن اب میری معلومات میں اضافہ ہو چکا ہے!۔
میاں محمد شفیع کے علاوہ نظامی صاحب کے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے بعض دوسرے دوست بھی ان سے روٹھے روٹھے اور ناراض سے رہنے لگے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ملک نور الٰہی کے اخبار احسان کے ملک مظفر احسانی (جو سرگودھا سے تھے۔ جن کی شکل ملک خضر حیات ٹوانہ سے ملتی جلتی تھی اور وہ اکثر ان کی طرح کْلّے والی پگڑی اور اچکن شلوار پہنتے تھے) سردار فضلی اور ان کے متعدد ساتھی نظامی صاحب کی مخالفت میں نظمیں گھڑتے۔ ہینڈ بل چھاپتے۔ ہوٹلوں میں بیٹھ کر غیبت کرتے مگر حمید نظامی انہیں ’اگنور‘ کرتے اور کبھی کسی بات کا جواب نہیں دیا تھا۔
میری دانست میں قصور حمید نظامی صاحب کا ہی تھا انہوں نے اتنے تھوڑے عرصے میں اتنی زیادہ اہمیت اور مقبولیت حاصل کرلی کہ ان کے ہم عصروں کے لئے اسے ہضم کرنا آسان نہ رہا۔ ہم اپنے دوستوں کی ابتلا میں ان سے ہمدردی تو کر سکتے ہیں مگر جب ہماری صفوں سے اٹھ کر کوئی اتنی سپاٹ لائٹ میں آ جائے تو ہمارا ردعمل عجیب ہوتا ہے۔ غضب خدا کا فیملی کا کوئی جاگیردارانہ زمیندارانہ پس منظر نہیں سانگلہ ہل ضلع شیخوپورہ کا وہ غیر معروف قصبہ ہے جہاں اس سے پہلے شاید ہی کوئی بڑا آدمی پیدا ہوا ہو۔
… ایک سیاح نے پہاڑوں کی سیر کرتے ایک بستی میں ایک نوجوان سے پوچھا۔
سیاح: کیا یہاں کبھی کوئی بڑا آدمی بھی پیدا ہوا ہے؟‘‘۔
نوجوان (حیرت سے) نہیں جناب یہاں تو ننھے بچے ہی پیدا ہوتے ہیں!‘‘۔
سانگلہ ہل میں بھی اس سے قبل ننھے بچے ہی پیدا ہوتے تھے لیکن اس نوجوان نے کایا پلٹ دی ۔ صحافت میں ان کا مقولہ تھا کہ پریس عوام کے حقوق کا چوکیدار ہوتا ہے اور بے ایمان (خطرناک) چوکیدار سے تو مردہ چوکیدار بہتر ہے۔ حمید نظامی نے پنجاب کے چیف منسٹر میاں دولتانہ سے لڑائی لڑی۔ گورنر پنجاب سر فرانسس موڈی سے ٹکا لگایا۔ وزیراعظم نواب زادہ خان لیاقت علی خان کی پروا نہیں کی۔ خواجہ ناظم الدین کے چھوٹے بھائی خواجہ شہاب الدین وفاقی وزیر اطلاعات کو وہ درس نظامی دیا کہ تاریخ کاحصہ بن گیا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے مارشل لاء سے مرعوب نہیں ہوئے۔ اس آمرانہ نظام کو اپنے سلجھے ہوئے انداز میں مسلسل چیلنج کرتے رہے اور اسی ٹاکرے کے دوران ہی شمع صحافت پر پروانے کی طرح جل کر جان دے دی!۔
جرأت اظہار کی بناء پر حمید نظامی پاک و ہند کے اخبار نویسوں میں ایک مخصوص مقام کے حامل تھے۔ ان کے مداحوں اور دلی دوستوں میں غیر مسلموں کی تعداد بھی کم نہ تھی۔ جب وزیراعظم خاں لیاقت علی خاں کا سرکاری دورے پر امریکہ تشریف لے گئے تو بیگم رعنا لیاقت علی خاں بھی ان کے ہمراہ تھیں۔ وہاں ایک موقع پر پریس فوٹو گرافر کی طرف سے مسکرانے کی فرمائش پر محترمہ بیگم رعنا لیاقت نے مسکراتے ہوئے کہا:
HERE IS HUNDRED MILLION DOLLAR SMILE
آج کے ماحول میں شاید یہ کوئی بات نہیں مگر اس زمانے میں (وزیراعظم کی بیگم) ایک مسلمان خاتون طرف سے اس بے باکانہ اظہار کو اسلامی قدروں کے منافی تصور کیا گیا۔ پریس میں لے دے ہوئی۔ نوائے وقت نے اس پر سخت تنقید کی۔ اور تمسخر اڑایا۔ نوابزادہ لیاقت علی پہلے ہی ناراض تھے۔ جلتی پر تیل پڑ گیا، اخبار بند کردیا گیا۔ اور اس کی بحالی کی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی کہ ایک دن اچانک اخبار کے اجراء کی اجازت موصول ہوگئی۔ خود حمید نظامی صاحب کو بھی حیرت تھی۔ بعد میں پتہ چلا کہ معروف ہفت روزہ ’ریاست‘ دہلی کے شہرہ آفاق ایڈیٹر دیوان سنگھ مفتون نے بیگم رعنا لیاقت کے توسط سے وزیراعظم سے سفارش کی ہے محترمہ مفتون صاحب کی سفارش ٹال نہیں سکتی تھیں مگر دیوان سنگھ مفتون جیسے وضعدار انسان نے ازخود حمید نظامی صاحب سے اس کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
حمید نظامی کی مخالفوں کے ساتھ نرم دلی کا ایک دلچسپ واقعہ بھی یاد آ رہا ہے۔ پنجاب کے یونینسٹ وزیراعظم ملک خضر حیات ٹوانہ کے خلاف ایجی ٹیشن عروج پر تھی اور روزنامہ نوائے وقت اس میں پیش پیش تھا۔ ان دنوں اخبار کے پہلے صفحے پر خضر حیات کا ایک کارٹون (کیری کیچر) روزانہ چھاپا جاتا تھا جس میں وزیراعظم موصوف کی شکل کو خاصہ بگاڑا جاتا بالخصوص گردن کے سامنے ہڈی (Adam,s Apple کو بڑا نمایاں اور بدنما دکھایا جاتا۔ ایک دن اچانک وہ کیری کیچراخبار سے غائب ہوگیا۔ (جاری ہے)
بعد میں پتہ چلا کہ ملک خضر حیات نے نظامی صاحب کو پیغام بھجوایا کہ میری مخالفت شوق سے کریں جتنا مرضی سخت لکھیں لیکن اگر اس کارٹون کے بغیر کام چل سکتا ہو تو اس سے نجات دلائیں مجھے اس کی بھی کوئی تکلیف نہیں۔ بلکہ محظوظ ہوتا ہوں مسئلہ دراصل یہ ہے کہ اخبار میری والدہ کی نظروں سے بھی گزرتا ہے ان کو یہ کارٹون بڑا ناپسند ہے۔ ان کے نزدیک ان کا بیٹا بڑا خوبصورت ہے۔ اس کیری کچر سے انہیں کوفت ہوتی ہے۔ حمید نظامی نے ایک ماں کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے یہ سلسلہ بند کر دیا۔
مجید نظامی ان دنوں خوبصورت نوجوان تھے۔ مگر بڑے بھائی کی طرح وقت سے پہلے ہی خاصے سنجیدہ اور فتین تھے۔ حمید نظامی ان سے بہت محبت کرتے تھے۔ اور ان سے ان کی بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔ مجید صاحب لندن چلے گئے جہاں حصول تعلیم کے ساتھ وہ اخبار کے لئے مکتوب لندن یا برید قرنگ بھی بھجوایا کرتے تھے۔ جو خاصے دلچسپ ہوتے۔ کبھی کبھی (لاحول پڑھ کر) انگریز قوم کے سکینڈل بھی بھجواتے جو چسکیدار ہوتے۔ ان دنوں ہمارے اخبارات اتنے رنگین نہیں تھے۔ آج تو اخبارات کسی تقریب میں شریک کسی اداکارہ ہی نہیں بلکہ کسی بھی خوبصورت خاتون کی تصویر بے دریغ چھاپ کر آنکھوں کی طراوت کا سامان کرتے رہتے ہیں۔ اْس زمانے میں اس کا کوئی تصور نہیں تھا۔ نوائے وقت تصویروں بالخصوص خواتین کی تصویروں سے بڑا ’الرجک‘ تھا۔
بی اے کرنے کے بعد میں نے پنجاب یونیورسٹی میں جرنلزم کلاس میں داخلہ لیا۔ عبدالسلام خورشید مرحوم نئے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ مقرر ہوئے تھے۔ پروفیسر حضرات میں سول اینڈ ملٹری گزٹ کے لوئیس صاحب انگلش کے اور مولانا مرتضیٰ احمد خان میکش اردو شعبہ کے انچارج تھے۔ مجھے یاد ہے۔ حمید نظامی صاحب نے کلاس کو خصوصی لیکچر دیا۔ انہوں نے جمہوری نظام کی اہمیت پر زور دیا۔ فرمانے لگے جس طرح آپ ایک دو سال کا بچہ دیکھیں اور پھر اسے دس سال بعد دوبارہ دیکھنے کا موقع ملے۔ تو ظاہر ہے کہ اس کی شکل و صورت اور قدو قامت میں خاصا فرق آ چکا ہوگا۔ اسی طرح اسلام کے ابتدائی دور میں نظام جمہوری تھا۔ جو بمشکل 30/32 سال قائم رہا اس کے بعد ملوکیت آ گئی ورنہ اگر اسی نظام کو جاری رہنے دیا جاتا تو ارتقائی منازل طے کرنے کے بعد اس کی ظاہری شکل و صورت میں یقیناً تبدیلیاں آتیں۔ اور کون کہہ سکتا ہے کہ وہ آج کے جمہوری نظام سے ملتا جلتا نظام نہ ہوتا۔؟
مرحوم ملائیت کے سخت خلاف تھے وہ اسلام کی روشن خیال تعبیر چاہتے تھے لیکن وہ سوشلزم کمیونزم اور بائیں بازو کے بھی مخالف تھے۔ مرحوم عالمی سیاست میں اشتراکی دھڑے سے اختلاف رکھتے تھے۔ نوائے وقت کے صفحات میں حفیظ جالندھری، فیض احمد فیض سے بڑے شاعر تھے۔
لاء کالج میں داخلے کے بعد اخبار کو تو خیرباد کہنا پڑا مگر استاد محترم سے جو تعلق خاطر پیدا ہوا وہ عمر بھر قائم رہا۔ متعدد واقعات ہیں جن کا یہ کالم متحمل نہیں ہو سکتا۔ تاہم ایک چھوٹا سا واقعہ پیش ہے۔
گجرات میں وکالت کے ساتھ عملی سیاست بزعم خویش جاگیردار وڈیروں کے خلاف بھی مصروف جہاد تھے کہ ایک وڈیرے نے کسی بات پر ناراض ہو کر اپنے ایک مزارع کو پولیس سے پٹوایا۔ مسالہ کچھ زیادہ لگ گیا۔ جان کے لالے پڑ گئے۔ مسئلہ زیادہ نازک ہوگیا تو اسے اسی حالت میں ضلع سے باہر آزاد کشمیر میں لے جا کر کہیں چھپا دیا گیا کہ اگر اسے مرنا ہی ہے تو کہیں دور دفع ہو کر مرے۔ مزارع کے گھر والے سخت پریشانی کی حالت میں میرے پاس آئے۔ انہیں یقین تھا کہ اسے کہیں مروا دیا گیا ہے۔ وڈیرے کے مقابلے میں ان بے چاروں کی پسلی نہ تھی۔ مجھے کہانی سنائی مگر میرے پاس بھی کون سا اختیار تھا۔ مقامی پولیس بلکہ ساری انتظامیہ وڈیروں کی باندی تھی۔ اس پریشانی میں مجھے ایک خیال سوجھا میں نے ساری داستان لکھ کر جناب حمید نظامی کو بھجوا دی۔ کہ اسے شائع نہیں کرنا ہے بندے کی جان بچانی ہے۔ نظامی صاحب نے وہ تفصیل اسی دن پنجاب پولیس کے مشہور و معروف سربراہ خان قربان علی خان کو بھجوا دی۔ تیسرے دن دو انسپکٹر تفتیش کے لئے موقع پر پہنچ گئے۔ جاگیردار حیران پریشان ہوگئے کہ غریب مسکین مزارع کی آہ اتنی جلدی آسمانوں تک کیسے پہنچ گئی۔ اس کی رسائی آئی جی پنجاب تک کیسے ہوگئی۔ مظلوم مزارع آزاد کشمیر کی دور دراز پہاڑیوں سے برآمد کرلیا گیا۔ بڑے لوگ اپنے اثرو رسوخ کے باعث سزا سے تو بچ گئے مگر آئندہ کے لئے سہم گئے۔

ای پیپر دی نیشن