واشنگٹن (نمائندہ خصوصی) سابق امریکی نائب وزیر خارجہ کارل انڈر فرتھ نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرارداد موجودہ صورتحال میں کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اقوام متحدہ کی پاس کی گئی ایسی قرارداد پر عملدرآمد نہیں ہوسکتا۔ انڈرفرتھ نے کشمیر پر ری پبلکن ارکان پارلیمنٹ کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ جب پرویز مشرف پاکستان کے صدر تھے تو انہوں نے ایک بار کہا تھا کہ ہم اقوام متحدہ کی ان قراردادوں پر عملدرآمد کیلئے اب اصرار نہیں کرتے کیونکہ پاکستان جان چکا ہے کہ موجودہ حالات میں اقوام متحدہ کی پاس کی گئی قراردادوں کی اہمیت نہیں ہے اور نہ ہی اب ان قراردادوں پر عمل ہوسکتا ہے۔ انڈیانہ کے ری پبلکن رکن کانگریس ڈان برٹن نے کہا کہ انکے خیال میں کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرارداد کو منظور کرتے ہوئے 60 سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے اس لئے آزادانہ استصواب رائے کیلئے ایک اور قرارداد منظور ہونی چاہئے تاہم کانگریس کے رکن دوہرا بچر نے ان کے اس موقف پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں بھارت کے ساتھ سچی دوستی کا ثبوت دینا چاہئے اور کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے اسے ختم کرنے کیلئے کوششیں کرنی چاہئیں جبکہ دوسری جانب انڈرفرتھ اور لیزا کرٹس نے دوہرا بچر کے خیالات کی تائید نہیں کی۔ ایشین سٹڈی سنٹر کی لیزا کرٹس نے کہا کہ واشنگٹن کو مسئلہ کشمیر کی براہ راست حل کے کسی بھی کوشش کے جال میں نہیں پھنسنا چاہئے بلکہ واشنگٹن کو چاہئے کہ وہ پاکستان اور بھارت کو باہمی بات چیت کی ترغیب دیں۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں یہ باتیں تیزی سے ابھر کر سامنے آنے لگی ہیں کہ امریکہ کو مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں مدد دینی چاہئے تاکہ پاکستان اپنی تمام تر توجہ افغانستان اور اپنی سرحدوں پر پھیل رہی عسکریت پسندی کو کچلنے کی طرف مرکوز کرسکے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر میں بین الاقوامی مداخلت سے تشدد کو مزید ہوا ملے گی اور عسکریت پسند یہ سوچ کر اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کریں گے کہ انکے مقاصد جلد ہی پورے ہونیوالے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مسئلہ کشمیر پر 2003ء اور 2007ء کے درمیان خفیہ بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ممبئی کے دہشت گرد حملوں نے دونوں ممالک کی ان کوششوں کو سبوتاژ کیا۔
کارل انڈرفرتھ
کارل انڈرفرتھ