EATING HUMBLE PIE

PIE، گوشت، فروٹ اور میدے سے بنا ہوا ملغوبہ ہے۔ یہ سویٹ ڈش مزیدار ہے اور لذت جاں بھی۔ لوگ اسے بڑے شوق سے کھاتے ہیں لیکن جب اس کے ساتھ HUMBLEکی اضافت لگتی ہے تو پھر اس کا ذائقہ بدل جاتا ہے۔ یہ شیریں نہیں رہتی بلکہ تلخ اور ترش ہو جاتی ہے۔ لگتا ہے ہماری حکومت نے یہ ڈش کچھ زیادہ ہی کھا لی ہے کیونکہ اب نوبت HUMBLE سےHUMILIATIONتک جا پہنچی ہے۔ رینٹل پاور پلانٹ سے لے کر اسٹیل ملز تک، پی آئی اے، ریلوے، ریکوڈک، تھرکول، CDA، سوئیس اکائونٹ سے لیکر، تھوک کے حساب سے ترقیوں اور تعیناتیوں تک کوئی بھی ایسا شعبہ زندگی نہیں ہے جہاں حکومت کو منہ کی نہ کھانی پڑی ہو اور اس کی رسوائی میں اضافہ نہ ہوا ہو۔ اعلیٰ عدالتیں ہر قدم پر اس کے لئے سدِ سکندری ثابت ہو رہی ہیں۔ معاہدوں، ترقیوں اور تعیناتیوں کو کالعدم قرار دیا جا رہا ہے۔ جوڈیشنل ایکٹو ازم، کی وجہ سے گھپلوں پر تو ایک حد تک قابو پا لیا گیا ہے لیکن اس کے SIDE EFFECTS نے ملکی معیشت کو بُری طرح رگید ڈالا ہے۔ دوائیں ایک بیماری کو ٹھیک کرتی ہیں تو کئی دوسرے عوارض کا موجب بھی بن جاتی ہیں۔ اب اسٹیل ملز کی مثال ہی لے لیں۔ شوکت عزیز حکومت نے اسے نہایت سستے داموں 22 ارب روپے میں بیچ ڈالا تھا۔ عدالت نے اس ڈیل کو کالعدم قرار دیا۔ اس وقت سے لیکر اب تک نااہلی اور اقربا پروری کی وجہ سے اس کا خسارہ80 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ اس LIABILITYکو مد نظر رکھا جائے تو کوئی شخص شاید اسے مفت میں خریدنے کو بھی تیار نہ ہو گا کیونکہ 80 ارب روپے تو اس کو بہرحال ادا کرنے ہوں گے۔ ’’عوامی‘‘ حکومت کے آنے سے پہلے لوڈ شیڈنگ کا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ بجلی کے خرچ اور جنریشن میں توازن قائم تھا۔ ہمارے حکمرانوں نے آتے ہی شور مچانا شروع کر دیا کہ سابقہ حکومت بجلی کی کمی کی ذمہ دار تھی۔ اس ہائو۔ ہو میں وہ یہ بھول گئے کہ کیا جاتے جاتے شوکت عزیز بجلی کا سوئچ آف کر گیا تھا یا کارخانے سوٹ کیس میں ڈال کر یورپ لے گیا تھا۔ اس سارے ڈرامے کا اصل مقصد لگے ہوئے پلانٹس کو بند کرکے نئے رینٹل پاور پلانٹ لگانا تھا۔ ظاہر ہے کمیشن نئے معاہدوں میں ملتی ہے۔ جب فیصل صالح حیات نے عدالت میں ناقابل تردید ثبوت پیش کئے تو سپریم کورٹ نے یہ دکان بھی بڑھا دی جن لوگوں نے راجہ پرویز اشرف کو مشرف دور میں ٹی وی پر بحث کرتے ہوئے سنا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ اس سے زیادہ ذی فہیم، سنجیدہ اور ایماندار شخص اور کوئی نہیں ہے لیکن جب راجہ صاحب ایوان اقتدار میں داخل ہوئے تو عوام کے اعتماد کو بہت بڑا دھچکا لگا۔ شاخ بنات برگ حشیش نکلی۔ راجہ صاحب اپنا کوئی وعدہ بھی پورا نہ کر سکے۔ وزیر اعظم صاحب نے تھوک کے حساب سے افسروں کو ترقیاں دیں۔ چار سوارب کی کارپوریشن کا چارج ایک میٹرک پاس ملتان کے خواجے کو دے دیا۔ ایک راندہ درگاہ اور سپریم کورٹ کے معتوب شخص کو چیف سیکرٹری سندھ لگا دیا اور زمام حکومت ایک ایسی عورت کے سپرد کر دیئے جس کی واحد خوبی وہ زرد مسکراہٹ تھی جو ہر وقت اس کے ہونٹوں پر رقصاں رہتی۔ انہوں نے نرگس سیٹھی کو پاکستان کی کونڈی (کونڈا لیزا رائیس) کہا۔ شاید ہی اس سے زیادہ بھونڈی تشبیہ کسی حکمران نے دی ہو۔ جب ٹی وی اینکرز نے ایک تسلسل کے ساتھ اس پر تبصرہ کرنا شروع کیا تو وہ اپنا بوریاں بستر اور گریڈ 22سمیٹ کر وزیر اعظم سیکرٹریٹ سے چلتی بنی۔
تین سال کے قلیل عرصے میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں تین گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ شاید ہی کسی دور میں قیمتیں اس قدر تیزی، تسلسل اور تواتر سے بڑھی ہوں۔ ٹرانسپورٹر از خود کرایہ بڑھا دیتے ہیں۔ ٹیکسیوں اور رکشہ ڈرائیوروں نے میٹر منہ پر لگا رکھے ہیں۔ بجلی بچانے کے لئے مارکیٹیں شام کو بند رکھنے کا حکم صدا بصحرا ثابت ہوتا ہے۔ دہشت گردی لاقانونیت، چوری، ڈاکہ زنی، اپنے عروج پر ہیں۔ پنجاب حکومت اور مرکز میں ایک عجیب قسم کی TUG OF WAR چل رہی ہے۔ گرگ آشتی کے اس کھیل میں یہ ایک دوسرے کی تاک میں نہیں کہ پہلے آنکھ کس کی جھپکتی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کیس کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ (جاری ہے)

ای پیپر دی نیشن