ٹیسٹ سیریز کی شکست کا ٹی ٹونٹی اور ون ڈے سیریز میں بدلہ چکایا جا سکے گا؟

چودھری محمد اشرف
پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز اپنے اختتام کو پہنچی، بلند و بانگ دعوے کرنے والی ٹیم مینجمنٹ اور کھلاڑی سیریز میں بری طرح ناکام رہے۔ کھیل کے تینوں شعبوں میں پاکستانی کھلاڑی جس طرح میزبان ٹیم کے خلاف بے بس دکھائی دیئے ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان کی کوئی اے یا بی ٹیم افریقہ کے دورہ پر گئی ہو۔ تین ٹیسٹ میچوں میں وائٹ واش شکست نے کئی کھلاڑیوں کو پول کھول دیا ہے کہ وہ صرف اور صرف گھر کے ”شیر“ ہیں۔ ٹیسٹ سیریز میں ہونے والی شکست پر ہر طرف سے شدید تنقید کی جا رہی ہے یہاں تک کہ ٹیسٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ شاید ان کی آخری سیریز ہو لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہوگا وہ اس لیے ابھی جنوبی افریقہ کے خلاف پاکستان ٹیم کی ون ڈے سیریز باقی ہے جس کے کپتان مصباح الحق خود ہیں۔ تنقید کرنے والوں کو شاید ٹیم میں مصباح الحق کے علاوہ باقی تمام کھلاڑیوں کی کارکردگی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ کرکٹ حلقوں کی جانب سے مصباح الحق پر جتنی تنقید کی جا رہی ہے اگر وہ ایک روزہ میچوں میں پاکستان ٹیم کو فتح دلوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو تنقید کرنے والوں کو اپنی رائے تبدیل کرنی پڑ سکتی ہے۔ دوسری جانب ٹیسٹ اور ون ڈے سکواڈ کی قیادت کے ”مضبوط“ امیدوار محمد حفیظ نے تین ٹیسٹ میچوں میں جو کارکردگی دکھائی اسے بھی ضرور منظر عام پر لانا چاہیے۔ انہوں نے تین ٹیسٹ میچوں کی چھ اننگز میں بیٹنگ کی جس میں وہ صرف 43 رنز ہی جوڑ سکے ہیں ان کا ایک اننگز میں زیادہ سے زیادہ سکور 18 رہا جبکہ باولنگ کے شعبہ پر نظر ڈالی جائے تو پانچ اننگز میں انہوں نے پانچ جنوبی افریقن بلے بازوں کو آوٹ کیا۔ اس طرح ان کی ایوریج انتہائی مایوس کن رہی۔ مصباح الحق جو صرف اور صرف بیٹنگ کے شعبہ میں مشہور ہیں انہوں نے تین ٹیسٹ میچوں میں 135 سکور کیے۔ اسد شفیق اور یونس خان کے بعد وہ تیسرے ٹاپ سکورر تھے۔ کسی حد تک کہا جا سکتا ہے کہ ٹاپ تنیوں کھلاڑیوں نے کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش کی لیکن ابتدائی بلے بازوں کے ناقص کھیل کی بدولت پاکستان ٹیم میزبان ٹیم کے ہاتھوں شرمندہ ہوئی۔ باولنگ کے شعبہ میں پاکستان ٹیم کا زیادہ تر انحصار سعید اجمل پر تھا وہ بھی صرف ایک ٹیسٹ میں توقعات کے عین مطابق باولنگ کرنے میں کامیاب ہوئے جبکہ سیریز کے پہلے اور تیسرے ٹیسٹ میں اس کی کارکردگی بھی سوالیہ نشان بنی رہی ہے۔ ٹیسٹ سیریز میں تین صفر سے ہونے والی شکست کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کی سلیکشن کمیٹی نے دو ٹی ٹونٹی اور پانچ ایک روزہ میچوں کی سیریز کے لیے مزید 9 کھلاڑیوں کو جنوبی افریقہ بھجوایا ہے امید کی جا رہی ہے کہ قومی ٹیم مختصر دورانیے اور ون ڈے میچوں میں قوم کی توقعات کے مطابق کھیل پیش کرئے گی۔ سلیکشن کمیٹی نے شاہد آفریدی کو ایک مرتبہ پھر جنوبی افریقہ کی تیز وکٹوں پر ون ڈے سیریز کے لیے موقع دیا ہے، شاہد آفریدی کی سلو اور بیٹنگ پیراڈائز وکٹوں پر کارکردگی اتنی اچھی نہیں رہی ہے لہذا جنوبی افریقہ کی تیز وکٹوں پر ان سے اچھی کارکردگی کی توقع رکھ کر بھجوایا گیا ہے۔ سلیکشن کمیٹی نے جس طرح شاہد آفریدی کے بارے میں لاہور میں اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ یہ ان کے لیے آخری موقع ہوگا ورنہ مستقبل میں انہیں منتخب کرنے کے لیے زیر غور نہیں لایا جائے گا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور دھواں دھار بیٹنگ کے لیے دنیا بھر میں مشہور شاہد آفریدی کو سلیکشن کمیٹی کی شاید بات ناگوار گزری انہوں نے چیئرمین سلیکشن کمیٹی کے بیان کے 48 گھنٹے بعد ہی اپنے ”مہربانوں“ کے کہنے پر لاہور میں الیکٹرانک میڈیا سے چند دوستوں کا اکٹھا کر کے واضح الفاظ میں کہا کہ کوئی مجھے یہ بتانے کی کوشش نہ کرے کہ میری کرکٹ ختم ہو گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک چاہوں گا کھیلتا رہوں گا اور جب سمجھوں گا کہ پرفارمنس نہیں دے سکتا تو کرکٹ کو خود ہی خیرباد کہہ دوں گا۔ شاید آفریدی کی غصے کے عالم میں سخت باتوں پر حیرانگی ہوئی کہ انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، سلیکشن کمیٹی نے اگر ان کے بارے میں کچھ کہا تھا تو انہیں چاہیے کہ جنوبی افریقہ کے خلاف ٹی ٹونٹی اور ون ڈے سیریز میں ایسی کارکردگی دکھائیں تاکہ سلیکشن کمیٹی کے ارکان کو دوبارہ ایسی جرات نہ ہو کہ وہ کسی بھی سٹار کھلاڑی کے بارے میں اپنی رائے قائم کر سکیں۔ پاکستان اور جنوبی افریقہ کی ٹیموں کے درمیان ٹیسٹ سیریز بے شک یکطرفہ رہی تاہم مختصر دورانئے کی ٹی ٹونٹی اور ون ڈے سیریز میں قومی کھلاڑی میزبان ٹیم کے لیے تر نوالہ ثابت نہیں ہونگے۔ پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان دو ٹی ٹونٹی میچوں کی سیریز کا پہلا میچ جو یکم مارچ کو کھیلنا جانا تھا تادم تحریر شروع نہیں ہوا تھا جس جو بھی نتیجہ آئے گا نیوز پیجز پر دیکھا جا سکے گا۔ دونوں ٹیموں کے درمیان ٹی ٹونٹی فارمیٹ کا ساتواں ٹاکرا یکم مارچ کو ہوگا جو بھی ٹیم اس میچ میں کامیابی حاصل کرئے گی اسے حریف کے خلاف سبقت مل جائے گی۔ اس سے قبل دونوں ٹیموں کے درمیان چھ ٹی ٹونٹی میچز کھیلے جا چکے ہیں جن میں سے تین میں پاکستان اور تین میں جنوبی افریقہ نے کامیابی حاصل کر رکھی ہے۔ دونوں ٹیموں کے درمیان آخری مرتبہ ستمبر 2012ءمیں آمنا سامنا ہوا تھا جس میں پاکستان ٹیم نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد 2 وکٹوں سے کامیابی حاصل کی تھی۔ کرکٹ حلقوں میں ٹی ٹونٹی کے مختصر فارمیٹ میں کسی بھی ایک ٹیم کو فیورٹ قرار نہیں دیا جا رہا ہے جس کی بڑی وجہ سے 120 بال پر مشتمل کھیل میں ایک سے دو اوورز ہی میچ کا پانسہ پلٹ دیتے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل جاوید میانداد جنہوں نے مختصر دورانیے کی یہ کرکٹ بے شک نہیں کھیلی، ان کا بھی کہنا ہے کہ کوئی بھی ٹیم فیورٹ نہیں ہے۔ جاوید میانداد کا کہنا ہے کہ پاکستان ٹیم کو جنوبی افریقہ کے خلاف کامیابی حاصل کرنے کے لیے تینوں شعبوں میں پرفارم کرنا ہوگا۔
ماضی میں کھیلے جانے والے میچز میں پاکستان ٹیم نے حریف ٹیم کے خلاف سب سے زیادہ سکور 149 رنز چار کھلاڑی آوٹ پر بنا رکھا ہے۔ یہ میچ 2009ءکے عالمی ٹی ٹونٹی ٹورنامنٹ میں کھیلا گیا تھا جس میں پاکستان ٹیم نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد 7 رنز سے کامیابی حاصل کی تھی۔ حریف ٹیم کے خلاف ٹی ٹونٹی میچوں میں سب سے زیادہ رنز بنانے کا اعزاز شاہد آفریدی کو حاصل ہے جنہوں نے چھ میچوں میں 116 رنز بنا رکھے ہیں۔ عمر اکمل 113 رنز کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔ جنوبی افریقہ کے جے پی ڈومنی 156 رنز کے ساتھ ٹاپ سکورر ہیں۔ دونوں ممالک کی جانب سے مختصر دورانیے کی کرکٹ میں چھ نصف سنچریاں بھی سکور ہو چکی ہیں جن میں سے چار جنوبی افریقن بلے بازوں نے جبکہ دو پاکستانی کھلاڑی شاہد آفریدی اور عمر اکمل نے یہ اعزاز حاصل کر رکھا ہے۔ باولنگ کے شعبہ میں پاکستان کے سعید اجمل 8 وکٹوں کے ساتھ ٹاپ پر ہیں۔ محمد حفیظ آخری مرتبہ جنوبی افریقہ کے خلاف کھیلے جانے والے میچ میں کامیاب رہے تھے اس مرتبہ بھی ان سے اچھے رزلٹ کی توقع کی جا رہی ہے۔ دونوں ٹیموں کے درمیان دوسرا ٹی ٹونٹی میچ 3 مارچ کو کھیلا جائے گا جس کے بعد پانچ ایک روزہ انٹرنیشنل میچوں کی سیریز 10 مارچ سے شروع ہوگی۔ دوسرا ایک روزہ میچ 15 مارچ کو، تیسرا 17 مارچ کو، چوتھا 21 مارچ کو جبکہ پانچواں اور دورہ جنوبی افریقہ کا آخری میچ 24 مارچ کو کھیلا جائیگا۔ ٹیسٹ سیریز کی شکست پر مایوس ہونے والی قوم نے ایک مرتبہ پھر پاکستانی ٹیم نے توقعات وابستہ کر لی ہیں کہ وہ عمدہ پرفارمنس دیکر کامیابیاں سمیٹے گی۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...