اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے وزارت ہاﺅسنگ اینڈ ورکس کی اسلام آباد کی سرکاری رہائش گاہوں پر غیرقانونی قبضوں کی مکمل فہرست اور ریکارڈ طلب کر لیا جبکہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کی جانب سے معاملے پر دئیے جانے والے حکم امتناہی اور زیرالتوا مقدمات کی تفصیلات 7مارچ تک طلب کر لی ہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سرکاری ملازم کو عدالتی حکم کے باوجود رہائش گاہ کا قبضہ نہ ملنے کے خلاف درخواست کی سماعت کی تو ہاﺅسنگ اینڈ ورکس کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ محمد اقبال نے بتایا کہ غیرقانونی الاٹمنٹوں میں ملوث محکمہ کے جوائنٹ آفیسر نذیر احمد کو معطل کر دیا گیا ہے۔ اس کی چارج شیٹ تیار ہے۔ الاٹمنٹوں کے معاملے پر اس نے اتھارٹیز کو اعتماد میں نہیں لیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سارا قصور نذیر کا ہے؟ وزیر ہاﺅسنگ کا کوئی عمل دخل نہیں؟ نذیر احمد غریب ہے اس لئے ساری بات اس پر ڈال دی گئی۔ دیکھنا ہے کہ نذیر نے ایسا غلط حکم کیوں دیا۔ وزیر نے ہی الاٹمنٹ کا حکم دیا ہو گا جس پر اس نے صرف عمل کیا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ہاﺅسنگ کے کام میں بہت گڑ بڑ ہے۔ عدالت کی جانب سے نذیر کی چارج شیٹ دکھانے کو کہا گیا تو ڈی ایس محمد اقبال نے کہا کہ وہ قائم مقام سیکرٹری آمنہ عمران خان لے کر آ رہی ہیں۔ ٹریفک کی وجہ سے لیٹ ہو گئی ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے ان کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ عقلمند بننے کی ضرورت نہیں یہ آپ کو بہت مہنگا پڑے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہے آپ کی آرگنائزیشن میں سینئرز کا کنٹرول نہیں جو جس کا دل چاہتا ہے کرتا ہے۔ بعد ازاں عدالت کو قائم مقام سیکرٹری ہاﺅسنگ نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ وزارت کے زیرانتظام 130سرکاری رہائش گاہوں پر پی ٹی سی ایل اور 250 پر پولیس کے ملازمین نے قبضہ کر رکھا ہے۔