یہ وقت بھی آنا تھا کہ ہم ایک پولیس افسر کی تعریفیں کر رہے ہیں۔ ہماری محبت ان سے ہے چیمہ صاحب پولیس والوںکے لئے اعزاز کی علامت ہیں۔ ذوالفقار چیمہ ہماری پولیس میں ایک تاریخی آدمی ہیں اور تاریخ ساز بھی ہیں۔ اب یہ محکمہ ایک ناقابل یقین حقیقت کی طرح یاد رہے گا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کوئی بھی پولیس والوں سے خوش نہیں مگر یہ کیسی حقیقت ہے کہ ہر آدمی اس بات پر خوش ہے کہ ذوالفقار چیمہ پولیس میں ہیں۔ یہ جھوٹ ہے کہ پولیس میں کوئی دیانتدار ہے اور دلیر بھی ہے۔ مگر چیمہ صاحب نے اس جھوٹ کو سچ بنا کے دکھا دیا ہے اور ہم نے یہ مان بھی لیا ہے۔ ماننا آسان ہے مگر اس سے پہلے ہم نے جان بھی لیا ہے۔
برادرم شہباز شیخ نے اولڈ راوینز ایسوسی ایشن کی طرف سے چیمہ صاحب کے لئے ایک محفل سجائی۔ حیرت ہے کہ وہ مان کیسے گئے۔ اولڈ راوینز ایسوسی ایشن کے لئے چیمہ صاحب کا تعاون بھی بے مثال ہے۔ شہباز شیخ سے ان کا واسطہ ایسا ہے کہ اسے کبھی شہباز شریف نہیں کہا۔ ان کو 21 گریڈ ملا ہے۔ اس کی کوئی اہمیت میرے نزدیک نہیں ہے۔ بس یہ کہ وہ اب آئی جی پولیس بن سکتے ہیں۔ وہ آئی جی ہوں گے تو شاید پنجاب پولیس بھی عزت اور محبت کے قابل بن جائے مگر حکمران ایسا نہیں کریں گے کہ پھر ان کے ”کام“ کیسے ہوں گے؟ میرا خیال کالم نگار کے لئے یہ کہ وہ کسی پارٹی کا نہیں ہونا چاہئے۔ ایک جینوئن پولیس افسر بھی صرف پولیس افسر ہونا چاہئے مگر اب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں پولیس افسر فلاں پارٹی کا چہیتا ہے۔ فلاں کالم نگار فلاں سیاسی لیڈر کا بندہ ہے۔ اس دور میں اللہ کا بندہ کم ملتا ہے۔ وہ جو تعلق خدا کے لئے اپنا اپنا ہو۔ مریدکے کے قریب الیکشن میں کسی سیاسی حکمران کا فون بھی سننا چیمہ صاحب نے پسند نہ کیا تھا اور پھر ان کا تبادلہ گوجرانوالہ سے ہو گیا۔ گوجرانوالئے لاوارث ہو گئے۔
وہاں سے ایک بچی فاطین نے مجھے چیمہ صاحب کے لئے دعاﺅں سے بھرا ہوا خط لکھا تھا۔ وہ میں نے نوائے وقت کے ایڈیٹوریل میں بھجوا دیا اور وہ شائع ہو گیا۔ گوجرانوالہ سے نوائے وقت کے کالم نگار فاروق عالم انصاری کی گواہی بھی بڑی سچائی ہے۔ لوگ مانتے ہی نہ تھے کہ کسی پولیس افسر کو دعائیں بھی دی جا سکتی ہیں۔ ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ ہماری تو بددعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں کہ ہم لوگ پولیس والوں کو بددعائیں بہت دیتے ہیں۔
گوجرانوالہ میں اور پھر شیخوپورہ ، قصور میں مجھے چیمہ صاحب نے بلایا کہ ہم چوری شدہ مال ان کے اصل مالکان کو واپس کر رہے ہیں۔ میں اتنا حیران ہوا کہ تقریب میں چلا گیا۔ لاکھوں روپے اور سامان لوگوں کو مل رہا تھا۔ انہیں یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔ ان کی آنکھوں میں غیر معمولی چمک تھی اور یہ چیمہ صاحب کے لئے شکرگزاری کے ہزاروں لفظوں پر بھاری تھی۔ زندگی میں یہ منظر میں نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ میں نے چیمہ صاحب سے عرض کیا کہ جناب میری بھی کچھ چیزیں چوری ہو گئی ہیں۔ مجھ پہ ڈاکہ بھی پڑا ہے۔ میرے خواب اور میری آرزوئیں کب ملیں گی۔ چیمہ صاحب کو ایسے منصب پر لے آﺅ تو وہ یہ معرکہ آرائی بھی کر گزریں گے۔
وہ ایسی مزیدار اور معنی آفریں تقریر کرتے ہیں کہ ہم سوچنے لگتے ہیں۔ اس آدمی کو پولیس افسر کس نے بنا دیا ہے۔ میں ایسے لوگوں کے لئے کہتا ہوں کہ وہ بولتے ہیں تو دلوں کے دروازے کھولتے ہیں جبکہ آج کل دلوں کے دروازے پر دستک بھی کوئی نہیں دیتا۔ صرف تقریر ہی نہیں ان کی تحریر میں خوابوں کی تعبیر چہکتی ہے اور گمشدہ تقدیر تڑپتی ہے۔ نجانے انہیں کالم لکھنے کا مشورہ کس نے دیا۔ وہ کسی پولیس فائل پر دستخط نہیں کرتے تو کالم لکھ دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ماں کی وفات پر کالم لکھا تو میں بلک بلک کے روتا رہا جبکہ میری سوہنی ماں زندہ ہے اور وہ میرے سامنے بیٹھی تھیں۔
میں نے چیمہ صاحب کو وردی میں دیکھا ہے۔ وہ زیادہ اچھے لگے۔ میرا سوہنا ابا انسپکٹر پولیس تھا۔ وہ خان گڑھ میں ایس ایچ او تھے۔ نوابزادہ نصراللہ خان بابائے جمہوریت سے ایس پی نے پوچھا کہ وہ کیسے آدمی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے لوگ بھولے سے اس محکمے میں آ جاتے ہیں۔ وہ اس لئے اچھے ہیں کہ تھانیدار نہیں لگتے۔ یہ بات چیمہ صاحب کے لئے بھی کہی جاتی ہے۔ ایسے لوگ یاد رکھے جانے کے لئے اس محکمے میں آتے ہیں۔ نوابزادہ نے کہا کہ وہ تھانیدار ہیں۔ مگر حیرت ہے کہ وہ کتابیں پڑھتے ہیں۔اس دور میں لوگ کتابی چہرے بھی پڑھنا پسند نہیں کرتے۔ ایک دفعہ وہ ایک مقتول نوجوان کے گھر گئے۔ میں ساتھ تھا۔ مقتول کی بوڑھی ماں زمین پر بیٹھی رو رہی تھی۔ لوگ حیران ہوئے کہ باوردی تھانیدار بھی زمین پر بیٹھ کر اس بدنصیب ماں کے ساتھ مل کے رونے لگا۔ مجھے وردی میں آدمی اچھا لگتا ہے مگر میرا خیال ہے کہ اکثر لوگوں کو وردی نہیں پہننا چاہئے۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ باوردی آدمی کو زیادہ ٹرسٹ وردی ہونا چاہئے۔
چیمہ صاحب طنز و مزاح کے ماہر ہیں۔ ان کے طنز میں رمز ہوتا ہے اور مزاح میں معانی ہوتے ہیں۔ ایک آدمی نے دوسرے آدمی سے کہا کہ تم پولیس میں ہو۔ اس نے کہا نہیں۔ پوچھا کہ تمہارا باپ یا کوئی رشتہ دار تو پولیس میں ہو گا۔ اس نے کہا کہ نہیں۔ پہلے آدمی نے کہا تو پھر جناب میرے پاﺅں سے اپنا پاﺅں تو ہٹاﺅ۔ مجھے درد ہو رہا ہے۔ پولیس والوں نے بہت کچھ بہت لوگوں کے اوپر رکھا ہوا ہے اور خود بھی اوپر بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ یہ تو کریں کہ یا وردی اتار دیں یا یہ بوجھ دوسروں کے اوپر سے ہٹا لیں۔ جینوئن پولیس والا وہی ہوتا ہے جو پولیس والا نہیں لگتا۔ ایس ایم ظفر، بشریٰ متین، مقصود بٹ ڈاکٹر شفیق چودھری تنویر عباس تابش جاوید کے علاوہ بھی کچھ دوستوں نے باتیں کیں۔ بہت اچھی باتیں کیں۔ شہباز شیخ اولڈ راوینز کو اکٹھا کرتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ اس محفل میں جو اولڈ راوینز نہیں ہوتا وہ بھی اولڈ راوینز ہوتا ہے۔ خواتین کو اس حوالے سے اولڈ کہلوانے پر اعتراض نہیں ہوتا۔
جینوئن پولیس افسر جو پولیس افسر نہیں لگتا
Mar 02, 2013