پشاور (نیٹ نیوز+ نوائے وقت رپورٹ+ رائٹر+ اے ایف پی) کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے ایک ماہ کیلئے جنگ بندی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس اعلان کا مقصد حکومت کیساتھ مذاکرات کو بحال کرنا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان نے کہا ہے کہ وہ ملک کے اکابرین، علمائے کرام کی اپیل، طالبان کمیٹی کے احترام، اسلام اور ملک کے بہتر مفاد میں ایک مہینے کیلئے جنگ بندی کا اعلان کرتے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہداللہ شاہد نے ذرائع ابلاغ کو جاری کئے گئے بیان میں کہا ہے کہ طالبان نے نیک مقاصد اور سنجیدگی سے مذاکرات کا آغاز کیا ہے۔ تحریک طالبان کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے اپنے تمام حلقوں اور مجموعہ جات کو ہدایت کی جاتی ہے کہ تحریک طالبان کی طرف سے حکومت کے ساتھ جنگ بندی کے اعلامیے کا احترام کرتے ہوئے اسکی مکمل پاسداری کریں، وہ اس دوران ہر قسم کی جہادی کارروائیوں سے گریز کریں۔ انہوں نے کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے امیر ملا فضل اللہ کی ہدایت پر مذاکراتی عمل میں پیدا شدہ تعطل کے خاتمے اور جنگ بندی کیلئے تنظیم کی طرف سے اپنی مذاکراتی کمیٹی کو دی گئی تجاویز کا حکومت نے مثبت جواب دیا ہے، ان تجاویز پر عملدرآمد کی پراعتماد یقین دہانی کرائی جاچکی ہے۔ اس صورتحال میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے ایک ماہ کیلئے جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔ شاہد اللہ شاہد نے امید ظاہر کی کہ حکومت اس فیصلے پر سنجیدگی سے غور کریگی اور مذاکراتی عمل پر مثبت پیشرفت کریگی۔ ترجمان نے کہا کہ ہر فیصلہ شوریٰ کے فیصلے اور امیر کی تائید سے کرتے ہیں۔ نیک مقاصد کیلئے سنجیدگی سے حکومت کیساتھ مذاکرات کا آغاز کیا۔ ہماری تجاویز پر عملدرآمد کی پراعتماد یقین دہانی کرائی جاچکی ہے۔ ڈیڈ لاک کے خاتمے اور جنگ بندی کیلئے کمیٹی کو دی گئی تجاویز کا حکومت نے مثبت جواب دیا ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق وزیراعظم ڈاکٹر نوازشریف نے حکومتی مذاکراتی کمیٹی کا اجلاس کل طلب کر لیا ہے۔ اجلاس میں طالبان کی طرف سے جنگ بندی کے اعلان کے بعد کی صورتحال پر غور کیا جائیگا۔ آئندہ ڈیڈ لاک سے بچنے کیلئے نئی حکمت عملی بھی زیرغور آئیگی۔ وزےر اعظم نوازشرےف سے وفاقی وزےر داخلہ چودھری نثار علی خان نے رابطہ کیا اور طالبان کی جانب سے جنگ بندی اور دےگر امور پر بات چےت کی۔ طالبان سے مذاکرات کےلئے قائم حکومتی کمےٹی کی وزےراعظم سے ملاقات کا امکان ہے۔ وزےراعظم اور وفاقی وزےر داخلہ طالبان کمےٹی کے ارکان کی مشاورت سے آئندہ کی حکمت عملی طے کر ےنگے۔ ذرائع کے مطابق کالعدم تحر ےک طالبان کی جانب سے جنگ بندی کے فےصلے کے بعد وفاقی وزےر داخلہ نے وزےر اعظم مےاں نوازشرےف سے لاہور مےں رابطہ کر کے انکو طالبان کے اعلان کردہ فےصلے کے بارے مےں آگاہ کےا اور آئندہ کی حکمت عملی کے حوالے سے آگاہ کےا ہے۔ طالبان ترجمان کی طرف سے جنگ بندی کے اعلان کے بعد حکومتی اور طالبان کمیٹیوں کے درمیان تقریباً دو ہفتہ سے منقطع رابطے ایک بار پھر بحال ہوگئے۔ اعلان کے فوری بعد وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان سے طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے چیئرمین جمعیت علمائے اسلام (س) کے امیر مولانا سمیع الحق اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے کو آرڈینیٹر عرفان صدیقی کے ٹیلیفون پر ایکدوسرے سے رابطے ہوئے ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے ایک ماہ کیلئے جنگ بندی کے اعلان پر بات چیت کی گئی۔ حکومت اور طالبان کی مذاکراتی کمیٹیوں کے دو ارکان میجر (ر) عامر اور مولانا یوسف شاہ نے طالبان کو غیر مشروط جنگ بندی پر آمادہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ طالبان نے دونوں ارکان کو آگاہ کردیا تھا کہ وہ ہفتے کو کسی بھی وقت جنگ بندی کا اعلان کر دیں گے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی اور حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ عرفان صدیقی نے طالبان کی جانب سے ایک ماہ کیلئے جنگ بندی کے اعلان کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے اچھی پیشرفت قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ توقع ہے کہ آنیوالے مہینوں میں کوئی پرتشدد واقعہ نہ ہوگا۔ حکومتی کمیٹی کا ایک اجلاس بلائیں گے اور امن مذاکرات وہاں سے دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کریں گے جہاں سے یہ معطل ہوئے تھے، حکومت کی کوشش ہے امن قائم ہو، 13سال میں بڑا خون بہا ہے، قبائلی علاقوں کے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ نہیں چاہتے۔ طالبان سے کوئی تصدیق یا دستاویز وصول نہیں ہوئی تاہم چینلز اور میڈیا سے جو سنا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ اچھی پیشرفت ہے۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ آنے والے مہینوں میں کوئی پرتشدد واقعہ نہیں ہوگا۔ وہ حکومتی کمیٹی کا ایک اجلاس بلائیں گے اور امن مذاکرات وہاں سے دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کریں گے جہاں سے یہ معطل ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی خواہش اور سنجیدہ کوشش ہے کہ ملک میں امن قائم ہو کیونکہ گزشتہ 13 سال کے دوران پاکستان کے عوام کا بڑا خون بہا۔ ہم قبائلی علاقوں کے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ نہیں چاہتے، ہمیں توقع ہے کہ امن عمل دوبارہ ٹریک پر آئیگا۔ جب وزیراعظم نے کمیٹی تشکیل دی تو اسکا مقصد بات چیت کے ذریعے مسئلہ کا حل تلاش کرنا تھا۔ مذاکرات کا بنیادی مقصد اس مسئلہ کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا ہے کیونکہ تشدد کے بعض واقعات کے باعث مذاکراتی عمل رک گیا تھا۔ حکومتی کمیٹی نے طالبان سے کہا تھا کہ مذاکرات صرف اسی وقت دوبارہ شروع ہوں گے جب وہ حملے بند کرنے کا اعلان کریں گے۔ اب مذاکراتی عمل دونوں کمیٹیوں کے ذریعے شروع ہوگا۔ طالبان کے اس اعلان سے مذاکراتی عمل کو کامیاب بنانے مدد ملے گی۔ دونوں کمیٹیوں نے مذاکرات اور امن عمل کے دوران اہم کردار ادا کیا ہے۔انہوں نے تحریک طالبان کی طرف سے جنگ بندی اعلان کا خیرمقدم کیا اور طالبان کی جانب سے جنگ بندی مثبت اور نتیجہ خیز پیشرفت ہے، یہ ایک بریک تھرو ہے، مذاکراتی عمل دوبارہ پٹڑی پر لانے کا موقع ملے گا۔ مذاکراتی عمل جس مرحلے پر ٹوٹا تھا اس میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ طالبان کی طرف سے جنگ بندی اعلان کی تفصیلات کا انتظار ہے۔ طالبان کے جنگ بندی اعلان کا جائزہ لیکر ردعمل جاری کریں گے۔ مجھے ابھی باضابطہ طور پر جنگ بندی کی اطلاع نہیں ملی۔ مذاکرات جہاں ٹوٹے تھے وہیں سے پھر شروع کرینگے۔ مذاکرات کے مستقبل کیلئے یہ مثبت اشارہ ہے۔ ابھی طالبان کمیٹی سے رابطہ نہیں ہوا۔ رابطہ ہونے پر تفصیلات ملنے کی توقع ہے۔ تشدد کی کارروائیاں بند ہونگی تو مذاکرات مثبت انداز میں آگے بڑھیں گے۔ رستم شاہ مہمند نے کہا کہ ہمیں یقین تھا کہ آج شام طالبان جنگ بندی کا اعلان کریں گے۔ اگر بات چیت جاری رہی تو جنگ بندی میں توسیع بھی ہوسکتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ بامقصد ماکرات ہوں۔ رکن حکومتی کمیٹی میجر (ر) عامر نے کہا ہے کہ جنگ بندی کا خیرمقدم کرتے ہیں، اب دونوں مذاکراتی کمیٹیاں ختم کردینی چاہئیں۔ ہمارا جہاں تک کام تھا وہ ہم نے کر دیا۔ ہمارا کام ختم ہوچکا، اب طالبان اور حکومتی کمیٹی کو ختم کردیا جائے۔ اب معاملہ حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست رہ گیا ہے۔ وزیر داخلہ چودھری نثار نے مذاکرات کا تعطل کو ختم کرنے اور جنگ بندی کے اعلان کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ چودھری نثار کو تجویز دی ہے اب مذاکراتی کمیٹیوں کی بجائے براہ راست دونوں فریق بات کریں، فوج ڈرائیونگ سیٹ پر ہونی چاہئے۔ میجر (ر) عامر کا کہنا تھا کہ طالبان کی جانب سے فائر بندی کے بعد حکومت کو براہ راست طالبان اور انکی مذاکراتی کمیٹی کیساتھ مذاکرات کرنے چاہئیں۔ اب فیصلوں کا وقت آ گیا ہے اور فیصلوں کا اختیار حکومت کو ہے۔ اس عمل میں فوج کے علاوہ صوبہ خیبر پی کے کے گورنر، وزیر اعلیٰ اور وفاقی وزیر داخلہ کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کی حیثیت غیر ریاستی عناصر کی ہے اسلئے اس مذاکراتی کمیٹی کی افادیت نہیں رہی۔ حکومت براہ راست طالبان کے ساتھ مذاکرات کرے۔ انکی ذمہ داریوں میں طالبان کو مذاکراتی ٹیبل پر لانا اور جنگ بندی کرانا تھی۔ ان دو ذمہ داریوں کے علاوہ جب پچھلے دنوں طالبان کیساتھ مذاکرات میں رکاوٹیں پیش آ رہی تھیں تو میں نے طالبان کیساتھ بیک ڈور روابط یعنی بلا واسطہ روابط رکھے۔ ان بلا واسطہ روابط میں مولانا سمیع الحق کی جماعت کے یوسف شاہ کے ساتھ ساتھ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان بھی شامل تھے۔ چار مرتبہ میری طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت ہوئی۔ کچھ روز قبل طالبان نے مجھے اپنے فائر بندی کے فیصلے سے آگاہ کیا تھا اور کہا تھا کہ باضابطہ منظوری کیلئے یہ فیصلہ تحریک طالبان کے سربراہ (ملا فضل اللہ) کو بھجوا دیا ہے۔ اب حکومت طالبان سے مذاکرات کرے کیونکہ ان حساس معاملات پر بات چیت ہوگی۔ یہ کمیٹی اگر ختم نہیں کرنی تو یہ کمیٹی مددگار کے طور پر کام کرسکتی ہے لیکن حساس معاملات میں فیصلہ کرنے کا اختیار یا تو حکومت کے پاس ہے یا فوج کے۔ ان حساس معاملات میں قیدیوں کی رہائی، غیر ملکی قیدی وغیرہ جیسے معاملات شامل ہیں۔ بہتر یہ ہوگا کہ اب یہ بات چیت میڈیا سے دور رہ کر کی جائے۔
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کی طالبان کے مختلف گروپوں سے ”پس پردہ رابطوں“ کے نتیجے میں تحریک طالبان کی قیادت نے جنگ بندی کا اعلان کیا۔ حکومتی اور طالبان کمیٹیوں کے درمیان ڈیڈلاک کے بعد وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان طالبان کے مختلف گروپوں کے ساتھ رابطے میں سرگرم عمل ہوگئے۔ پچھلے تین چار روز سے ان کے طالبان کے ان گروپوں سے رابطے قائم تھے جو آئین کو تسلیم کرتے ہیں۔ دونوں کمیٹیوں کے درمیان ڈیڈلاک کے بعد چودھری نثار علی خان نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ خاموشی کے ساتھ طالبان کے ساتھ رابطے کئے جائیں اور اس دوران کوئی بات منظر عام پر نہ لائی جائے۔ طالبان کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کے بعد وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے ”نوائے وقت“ سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ جنگ بندی کا اعلان بڑا بریک تھرو ہے۔ انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ جنگ بندی کے بعد مزید معاملات پر بھی پیشرفت ہوگی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ طالبان سے مذاکرات کی کامیابی کے بارے میں کس حد تک پرامید ہیں تو انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کا مرحلہ آنے کے بعد بہت سے معاملات خوش اسلوبی سے طے ہو سکتے ہیں۔ بنیادی بات خلوص اور کمٹمنٹ کے ساتھ مسئلہ کو حل کرنا ہے۔ ذرائع کے مطابق دونوں کمیٹیوں کے ڈیڈلاک کے بعد حکومتی کمیٹی کے رکن میجر عامر کا بھی طالبان کے مختلف گروپوں سے رابطہ ہوا اور طرفین کے مابین پیغام رسانی کا سلسلہ جاری رہا جس میں حکومت اور طالبان کے مابین رابطوں کو خفیہ رکھنے کا فیصلہ بھی ہوا۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ پاکستان مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت نے وزیر داخلہ کو جنگ بندی کا ہدف حاصل کرنے کی کامیاب کوشش پر ان کے کردار کو سراہا۔ اطلاعات کے مطابق ہفتہ قبل طالبان اور حکومتی مذاکرات یکمیٹی کا خفیہ اجلاس ہوا تھا۔ حکومتی کمیٹی کے میجر (ر) عامر اور طالبان کمیٹی کے مولانا سمیع الحق مذاکرات میں تعطل کے باوجود باہمی رابطے میں تھے، انکے باہمی رابطے کے باعث یہ اجلاس ہوا۔ ان ذرائع کے مطابق تین روز قبل طالبان نے جنگ بندی سے متعلق اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیا تھا۔ وزیر داخلہ چودھری نثار کو جمعرات سے جنگ بندی کے بارے میں علم تھا۔ صرف اس حوالے سے تفصیلات طے کی جا رہی تھیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق مذاکراتی کمیٹیوں کی خفیہ ملاقات کا 24 فروری کو پنجاب ہاﺅس میں اہتمام کیا گیا تھا۔ وزیر داخلہ چودھری نثار نے مذاکراتی کمیٹیوں کیلئے ملاقات کا اہتمام کیا۔ وزیر داخلہ چودھری نثار ڈیڈلاک کے دوران کمیٹیوں سے رابطے میں رہے۔ دونوں کمیٹیوں کو چائے کی دعوت کا مشورہ شاہ عبدالعزیز نے دیا تھا۔ شاہ عبدالعزیز نے 21 فروری کو چودھری نثار سے ملاقات کی۔ شاہ عبدالعزیز نے دونوں کمیٹیوں کے درمیان رابطہ کاری کی خدمات بھی سرانجام دیں۔ آئی این پی کے مطابق جنگ بندی کے بعد طالبان کی مذاکراتی کمیٹی نے مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کا ایجنڈا طے، امن و امان، دہشت گردی کا تدارک ایجنڈے میں شامل ہے۔ دوطرفہ قیدیوں کی رہائی، نقصانات کا ازالہ بھی ایجنڈا میں شامل ہے۔