سینٹ الیکشن میں حکومت فضل الرحمٰن کو منانے میں ناکام، سندھ میں ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی میں مک مکا ہو گیا۔ دونوں کے دو، دو امیدوار بلامقابلہ منتخب، مولانا فضل الرحمٰن کا سینٹ الیکشن کیلئے 22 ویں آئینی ترمیم پر تحفظات کا اظہار آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان میں ملاقات۔ انتخابی اتحاد پر بات چیت۔
سینٹ کے الیکشن سے چند روز قبل حکومت ووٹنگ کے طریقہ کار میں تبدیلی کے حوالے سے آئینی ترمیم کی جو کوشش کر رہی ہے۔ اس کی وجہ خواہ کچھ بھی ہو اس کے اثرات حکومت کی اتحادی جماعت پر کافی برے مرتب ہوئے ہیں۔ جے یو آئی کے سربراہ نے 21 ویں ترمیم کے بعد 22 ویں آئینی ترمیم کی بھی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ کام 3 چار ماہ پہلے ہونا چاہئے تھا۔ اب ووٹنگ سے چند روز پہلے اس عمل کو مشکوک بنانا کہاں کی دانشمندی ہے۔ دوسری طرف حکومت اپنے ارکان کے ووٹ اِدھر اُدھر ہونے کے خوف سے خفیہ کی بجائے اوپن ووٹنگ کی حامی ہے اور اس عمل کی تحریک انصاف بھی حمایت کر رہی ہے مگر اس طرح چونکہ جے یو آئی کو کوئی بھی نشست نہ ملنے کا خطرہ ہے اس لئے وہ اب پیپلزپارٹی کے ساتھ اس کی مخالفت پر کمربستہ ہے اور یوں یہ جماعتیں ایک دوسرے کو سہولت فراہم کرنے کی سیاست میں مصروف نظر آ رہی ہیں۔ صرف سینٹ کی چند نشستوں کی خاطر ایک دوسرے کو استعمال کرنے والی ایسی جماعتوں اور رہنمائوں سے عوام اپنے مسائل کے حل کی کیا امید رکھ سکتے ہیں جن کا مطمع نظر صرف اور صرف اقتدار کے ایوانوں تک رسائی ہو۔ خواہ اس کے لئے انہیں اپنے سیاسی اصولوں اور عوامی مسائل کی ہی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ اس وقت ملک کے حالات کسی نئی سیاسی محاذ آرائی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس لئے سینٹ الیکشن کی آڑ میں نئی سیاسی جنگ چھیڑنے سے بہتر ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں یہ مرحلہ بھی خوش اسلوبی سے طے کرنے کی کوشش کریں۔ تاکہ عوام کے مسائل حل کرنے کی نوبت بھی آسکے جو ان سیاسی جماعتوں کی باہمی لڑائی کے باعث حل نہیں ہو رہے۔