آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کو ایشو نہیں بنانا چاہئے

چند روز پیشتر لاہور کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں انسانی حقوق کے 35ویں ایوارڈ کی تقریب حقوق انسانی کے چیئرمین سینیٹر ایس ایم ظفر کی زیر صدارت منعقد کی گئی۔ اس تقریب میں سامعین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اس تقریب میں محترمہ مہناز رفیع، جسٹس منیر اے شیخ، بیرسٹر ڈاکٹر افضل جاوید، سید علی ظفر، سلمان غنی، رﺅف طاہر، جسٹس فاروق سعید خواجہ، خالد نیاز، شاہدہ طاہر، ڈاکٹر اجمل نیازی، چوہدری بشیر احمد ایڈووکیٹ، ڈاکٹر بلال اسلم صوفی، پروفیسر ہمایوں احسان، اے ایم شکوری، تنویر عباس تابش اور ملک کی نامور شخصیات نے شرکت کی۔ سینیٹر ایس ایم ظفر نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم عرصہ 35 سال سے انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والوں کو ایوارڈ دے رہے ہیں اور یہ سلسلہ انشاءاللہ تعالیٰ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری تنظیم نے کبھی بھی پاکستان حکومت اور غیر ممالک سے کوئی فنڈز وصول نہیں کیا۔ اس لحاظ سے ہمارا دامن بالکل صاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ ہمارے پاکستان میں آئے دن دہشت گرد عوام کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں اور فرقہ واریت کی بناءپر لوگوں کو قتل کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ و جدل دہشتگردی اور وسائل کی لوٹ مار بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی آواز اٹھانے والوں پر بھی کڑا وقت ہے کیونکہ پاکستان سمیت تیسری دنیا کے کئی ممالک میں صدائے حق بلند کرنیوالے افراد اور ادارے ایک طرف حکمرانوں کے غیض و غضب کا نشانہ بنتے ہیں تو دوسری طرف مختلف مذہبی، سیاسی اور سماج دشمن گروہوں کی انتقامی کارروائیاں بھی ان کا مقدر ہیں۔ ہمارے ہاں ملک کے کئی دور دراز علاقوں کے ساتھ کئی بڑے شہروں میں بھی سول سوسائٹی اور میڈیا کے ادارے اور افراد بے پناہ دباﺅ میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قائداعظم ے پاکستان اس لئے بنایا تھا کہ ہندوستان میں ہندوﺅں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ وہ مسلمانوں کو انکے حقوق دینے کے حق میں نہیں تھے۔ قائداعظم کا پاکستان کو بنانے کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان میں مسلمانوں کو ان کے حقوق مل سکیں لیکن 68 سال گزر جانے کے باوجود ابھی تک قائداعظم کی یہ تمنا پوری نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ قومی خزانہ لوٹنے کے سبب تعلیم، صحت، خواتین اور دیگر میدانوں میں ہماری سماجی ترقی شروع ہی نہیں ہوسکی اور غربت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پاکستان اس وقت 70 ارب ڈالر کا مقروض ہے۔ ہم اس تحریک کے دوران کرپشن کیخلاف گلوبل آپریشن بھی شروع کرینگے۔ قومی خزانے سے لوٹی ہوئی دولت کا بڑا حصہ سوئٹزرلینڈ، برطانیہ اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں موجود ہے۔ اس لوٹی ہوئی دولت کو اپنے ملک میں لانا چاہئے۔ حقوق انسانی سوسائٹی اف پاکستان کے سیکرٹری جنرل اے ایم شکوری نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان کے عوام اور سکیورٹی ادارے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں بہت قربانیاں دے رہے ہیں۔ پارلیمان نے سول رائٹس کی قربانی دے کر فوجی عدالتوں میں قیام کیلئے آئینی ترامیم کی ہیں۔ امید قائم رہنی چاہئے کہ یہ سلسلہ دہشت گردوں کی بیخ کنی تک محدود رہے گا اور عوام کے بنیادی حقوق اس سے متاثر نہیں ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ ہم آج 35ویں حقوق انسانی ایوارڈ کی تقریب میں پانچ افراد ڈاکٹر امجد ثاقب چیف ایگزیکٹو اخوت فاﺅنڈیشن، طاہرہ قاضی شہید پرنسپل آرمی پبلک سکول پشاور، سلیم شہزاد شہید سینئر صحافی، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان کو ایوارڈ دے رہے ہیں۔ حال ہی میں امریکہ نے پاکستان کی ایک معروف خاتون شرمین عبید چنائے کو آسکر ایوارڈ دیا گیا، گزشتہ سال ہم نے بھی اس خاتون کو ایوارڈ دیا تھا۔
شعلہ بیان مقرر سید تنویر عباس طابش نے قومی اور ملکی امور پر بہت اچھے خیالات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی قیادت بے خوف اور مدبرانہ ہے۔ کھانے کے موقع پر سینئر صحافیوں نے آرمی چیف کی مدت ملازمت کی توسیع کے سلسلے میں آپس میں بڑی بات چیت کی۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ اس سلسلے میں کیا کہیںگے۔ راقم نے کہا کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے عہدے میں مزید توسیع نہ لینے کے واضح اعلان کے باوجود سیاستدانوں اور دیگرعناصر کی طرف سے اس کو ایشو بنانا کسی طور پر بھی مناسب نہیں۔ میڈیا پر گزشتہ روز سابق صدر آصف علی زرداری کا بیان اور بعدازاں اسکی تردید و وضاحت اور پنجاب اسمبلی میں اس ضمن میں قرارداد جمع کرانا جیسے معاملات مدعی سست گواہ چست کے زمرے میں آتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاک فوج ایک منظم ادارہ ہے جو نظم پر مبنی فیصلہ کرنے اور اس پر عمل درآمد کرنے کے ہر معیار پر پورا اترتا ہے۔ پاک فوج کے سپہ سالار کے بیان کے بعد اسے باقاعدہ ایک موضوع بنانا کسی طور پر بھی پسندیدہ امر نہیں۔عجیب بات یہ ہے کہ آصف زرداری کے تازہ بیان کی حقیقت پر خود پیپلز پارٹی کے رہنماﺅں میں بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا واقعی یہ پورا بیان آصف زرداری ہی کا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس بیان پر خود پیپلز پارٹی کے اندر بھی بے چینی تو پائی جاتی ہے اور سوالوں کا جواب دینا مشکل ہورہا ہے۔ ان قباحتوں سے بچنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ لاعلمی کا اظہار کردیا جائے۔ یہ بیان کس نے جاری کیا اور حقیقت کیا ہے۔
اس موقع پر اس امر کا اظہار بھی مناسب ہوگا کہ ہر سال ہی سینکڑوں سرکاری ملازم مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائر ہو جاتے ہیں اور کہیں کچھ شعور، ہنگامہ ہوتا ہے نہ صرف یہ مطالبہ کہ فلاں شخص کو توسیع دی جائے ورنہ عوام کی امیدیں مایوسی میں بدل جائیں گی۔ جنرل راحیل شریف بھی تو ایک سرکاری ملازم ہی ہیں۔ کیا واقعی عوام کی امیدیں کسی جرنیل کی ملازمت میں توسیع سے وابستہ ہیں اور کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ فوج میں کوئی اور جرنیل اس قابل نہیں کہ راحیل شریف کی جگہ لے سکے۔ پاک فوج میں تو اہل اور تجربہ کار جرنیلوں کی ایک طویل قطار ہے۔ فوج کی شاندار کامیابیوں پر کوئی شک نہیں لیکن یہ کامیابیاں کسی فرد واحد کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ پورے ادارے کی کامیابی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنگ کے دوران گھوڑے نہیں بدلے جاتے یا سالار کو تبدیل نہیں کیا جاتا۔ عسکری تاریخ سے ناواقف لوگ ہی ایسی بات کرسکتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...