خواص و عوام الناس‘ ستیاناس

اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی میری طرح دانشور کہلوانے والے خبریں سن کر اور کالم پڑھ کر بھی تاحال ان سوچو ںمیں غلطاں ہیں کہ سیاستدان ہمیشہ خواص اور باقی عوام الناس کیوں سمجھے جاتے ہیں۔ کیونکہ دین کی رغبت تو ہر مومن کے دل میں ہوتی ہے جبکہ تجربہ اور عملی مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ علمائے کرام، شیوخ اور شیخ الاسلام، پیر فقیر، گدی نشین اور ہر مسند نشین پیدائشی خواص اور باقی عوام الناس سمجھے جاتے ہیں اور خواص کی بات عوام الناس سے پوشیدہ و مخفی رکھی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ یورپ کی تاریخ کو بھی مشتری و مریخ بنا کے دبانے کی کوشش کی گئی کہ تحریک احیائے العلوم سے تو پہلے یورپی تاریخ کے تاریک دور میں ہنر کاروں اور فنکاروں کے کام کا تعین بھی چرچ کے مذہبی پیشوا یعنی خواص کرتے تھے۔ بھارت میں بھی رامائین کی کتھائیں اور بدھ ازم میں مہاتما بدھ کی تصویر دیوہیکل جبکہ عوام کو چند انچ کا دکھایا جاتا تھا۔ عوام نے تنگ آکر لائبریریوں اور کتابوں کو جلا ڈالا، بعد میں مسلمانوں کے عوام الناس نے اٹلی میں ریشم کی تجارت کے ساتھ الجبرا، جیومیٹری، ریاضی، طب اور علوم کا ذخیرہ لے کر پورے یورپ میں نشاة ثانیہ کی ابتدا کرکے خواص تک پہنچا دی۔
عوام و خواص کے گورکھ دھندے سے تنگ آکر تعلیم یافتہ شخص موسیقی کو روح کی غذا سمجھ کر جب کسی بائی کے کوٹھے پر پہنچا تو طوائف نے شام چوراسی کا کلاسیکل راگ چھیڑ دیا۔ سمجھ نہ سکنے پر وہ پوچھ بیٹھا کہ یہ کیا ہے تو مغنیہ بولی یہ خواص کا میوزک ہے جو عوام نہیں سمجھ سکتے۔ حقیقت میں بھی یہی ہوتا ہے، اس ملک کے سیاستدان، علمائے سو اور طوائف کے راگ رنگ میں بھی عوام و خواص کا فرق صاف ظاہر ہے اور نکاح کا خطبہ دینے والے مذہبی پیشوا اور ان کے ہم نواﺅں کو خاص اور عوام الناس میں تفریق کر کے دعوت ولیمہ دی جاتی ہے۔ کوٹھے سے جب وہ نیچے اترا تو اس کی آنکھوں سے اشک رواں تھے۔ آنسو اس کے رخسار پر ساون بھادوں کی برسات بن کر برس رہے تھے کیونکہ اس کے چشم تصور میں آیا کہ ایماں کی حرارت والے برسوں بعد بھی البقرہ کی آیت (اور ہر فرقے کیلئے ایک قبلہ مقرر ہے جدھر وہ عبادت کے وقت منہ کیا کرتے ہیں) تاحال عمل نہ کرسکے اور لگتا ہے وہ ایسا کرنا ہی نہیں چاہتے۔ مگر شاید وہ دین و دھرم جس کا معنی بخشش و عطا ہے، عطا کرنے والے سے اکٹھے ہوکر قبلہ رُو ہونے کا وعدہ کرکے کہ جہاں وہ اپنی تہذیب و تمدن کے مطابق اپنی اور اپنی نسلوں کی آبیاری کرسکیں، بخشش و عطا کے طور پر علیحدہ وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور اس طرح سے اللہ اور اس کے حبیب کے نام پر ہمارا ملک وجود میں آگیا۔ مگر ہم اس کے حبیب کے ناموس کی حفاظت کرنے والے کی حفاظت نہیں کرسکے۔ تہذیب کا معنی اخلاق کی اصلاح کرنا اور درخت کی کانٹ چھانٹ کرنا اور سنوارنا اور تمدن کامعنی رہن سہن ہے۔ یہ لفظ کسی قوم کے علوم و فنون، آرٹ، ادب،لٹریچر، باہمی معاشرت، فن تعمیر حتیٰ کہ قوم کی سیاست اور تاریخ اور طرز معاشرت کانام ہے۔
اسلامی تہذیب و تاریخ منفرد ہے، یہ اسلام کے عقائد اور اصول و نظریات و روایات کی ترجمان ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے کہ انسان خالق کائنات کا خلیفہ اور نمائندہ بنا کربھیجا گیا ہے۔ لہٰذا اسے چاہئے کہ وہ خالق کی منشا پر عمل کرکے اور روزالست خدا سے کئے گئے وعدے پر عمل کرکے خوشنودی و رضا حاصل کرے مگر ہم وعدہ بھول گئے اور اللہ کے نام پر خیرات اورحبیب کے نام پر لئے گئے ملک میں اپنی تہذیب و تمدن بھول کر فرنگی کی ننگی تہذیب کو لاگو کرنے کے مجرم ہیں اور یہ خواص کاعوام کے لئے تحفہ ہے۔ اللہ کے نزدیک عوام کا یہ مقام ہے کہ حضور کے دربار میں ایک نابینا شخص بار بار سوال دہرا رہا تھا۔ آپ نے جب توجہ دوسری طرف کی تو اللہ کو آپ کی یہ ادا پسند نہ آئی اور حضور کو اللہ سے معافی مانگنی پڑی۔ حضرت بلالؓ فرماتے ہیں اگر دین کا تصور خواص کے لئے ہوتا تو ہم حبشہ والوں کی طرف کوئی منہ نہ کرتا۔ ہماری دینی جماعتیں سیاست و وزارت میں شریک اقتدار رہتی ہیں، وہ نظام بدلنے کی بھی بات کرتی ہیں مگر نظام مصطفی کیلئے ان کی زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں۔
مقصد تحریر یہ ہے کہ موجودہ دور کی فتنہ سازی، افراتفری، انارکی، دہشت گردی اور عوام و خواص کی تفریق کے خاتمے کے لئے خصوصاً دینی جماعتوں کے قائدین کے کاندھے پہ یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اگر ملک میں اسلام نافذ نہیں کرا سکتیں تو کم از کم عدالتوں میں انصاف کے فوری حصول کیلئے عوام کی خاطر اللہ کا قانون نافذ کرانے کی سعی کریں اور دین سے دغابازی کے مرتکب نہ ہوں۔ عوام نے منتخب کر کے دینی و سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو خواص بنایا ہے۔ جماعة الدعوة تبلیغی جماعت، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں کے اماموں کو روزِ حساب خدا کے سامنے حساب بے باک کرنا ہوگا۔ بقول حضر ت اقبال ....
قوم کیا چیز ہے، قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...