ارکان اسمبلی کو ہر طریقے اور ہر قیمت پر اپنے ساتھ ملانے کی سیاست کو عام طور پر ہارس ٹریڈنگ کہا جاتا ہے۔ حال ہی میں ایک حضرت مولانا نے ”فتویٰ“ دیا ہے کہ ایسے ارکان اسمبلی کو گھوڑا کہنا گھوڑے کی توہین ہے۔ اسی طرح ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کو ہارس ٹریڈنگ کا نام دینا بھی ”تجارت اسپاں“ جیسے حلال پیشے کو حرام کرنے کے مترادف ہے۔ انکے ”فتوے“ میں واضح کیا گیا ہے کہ ایسے ارکان اسمبلی جو ذاتی مفادات کے تحت آئے روز اپنی وفاداریاں بدلتے رہتے ہیں۔ گھوڑے دراصل گدھوں جیسے نہیں لہٰذا اس حوالے سے سیاسی تجارت کو ہارس ٹریڈنگ کے بجائے ڈنکی ٹریڈنگ لکھنا اور پکارنا چاہئے۔ہمیں یقین ہے کہ گدھوں کے ہمدرد اس فتوے کو تسلیم نہیں کرینگے اور استدلال یہ لائیں گے کہ کوئی بھی گھوڑا راتوں رات گدھا نہیں بن سکتا۔ اور پھر انسان اور وہ بھی عاقل بالغ انسان جانتے بوجھتے ہوئے خود کس طرح گھوڑا یا گدھا بن سکتا ہے۔ لیکن اس استدلال میں زیادہ وزن دکھائی نہیں دیتا۔ اس استدلال کا توڑ کرنے کیلئے ہم اپنے بچپن کے ایک دوست کا حوالہ پیش کرتے ہیں۔ جب یہ صاحب بچے تھے تو سکول میں معاشرتی علوم کے استاد انہیں گدھا جبکہ گھر میں والد محترم انہیں گدھے کا بچہ کہا کرتے تھے۔ جب ہمارے یہ دوست جوانی کی دہلیز پر پہنچے تو انکی شادی کر دی گئی۔ میاں بیوی میں بے حد پیار تھا۔ بیوی کا ایثار تو انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔ میاں کی غلطیوں پر بھی وہ زور محبت میں ”آپ تو بالکل گدھے ہیں“ کہہ کر ہنسنے لگتی تھی۔ محبت کا یہ عالم دیکھ کر ہمارے دوست کی والدہ روایتی ساسوں کی طرح جل بھن کر کباب ہو جایا کرتی تھیں اور ناک بھوں چڑھا کر فتویٰ دیا کرتی تھیں کہ یہ لڑکا تو واقعی گدھا ہے گدھا.... اب آپ ہی انصاف کیجئے۔ جب استاد‘ بیوی‘ سگی ماں اور سگا باپ کسی شخص کے بارے میں یہ شہادت دیں کہ وہ گدھا ہے تو اسکے گدھے پن میں کیا کمی رہ جائیگی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اس لنگوٹیئے دوست کو سارے دوست نجیب الطرفین گدھا کہہ کر پکارتے تھے۔
معاشرت کی تو رہی ایک طرف۔ اس مسئلے کا ایک سائنسی جواز بھی موجود ہے۔ ڈارون کی تھیوری کے مطابق انسان پیدائشی طور پر انسان نہیں بندر تھا۔ کروڑوں سال کے ارتقائی عمل نے اسے بندر سے انسان بنایا۔ اگر اس تھیوری کو درست مان لیا جائے تو یہ ماننا پڑےگا کہ بندر سے انسان بننا بہت مشکل کام ہے۔ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے تب کہیں ایک بندر انسان بنتا ہے۔ بندر تو بندر مرزا غالب نے تو اس عمل کی سست رفتاری سے مایوس ہو کر یہ تک فرما دیا تھا کہ
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
ہم شرمندہ ہیں کہ بندر سے انسان بننے کا مرحلہ کروڑوں سالوں میں مکمل ہوا ہے لیکن اشرف المخلوقات یعنی حضرت انسان کا یہ افتخار بھی تو دیکھئے کہ انسان سے گھوڑا اور گھوڑے سے گدھا بننے کی ارتقائی منازل اس نے کس تیزی سے طے کر لی ہیں اور لطف یہ ہے کہ اس کایا کلپ کیلئے کسی سائنس دان یا کسی لیبارٹری کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ بس آپ ایک اسمبلی مہیا کر دیجئے اور اس میں ہوس اقتدار کی بیماری میں مبتلا کچھ ارکان بھجوا دیجئے۔ یہ اجزا باہم آمیز ہوتے ہیں تو قدرت فطری حنا بندی کا عمل شروع کر دیتی ہے۔ اگر کوئی بھی رکن اسمبلی اپنے ماتھے پر کی لکیروں کو برائے فروخت کے الفاظ میں تبدیل کر دے تو اس میں یہ انمول صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے کہ چاہے تو راتوں رات انسان سے گھوڑا بن جائے اور مزید چاہے تو گھوڑے سے ارتقا کرکے دن چڑھے گدھا بن جائے۔ یہ گدھے کا لفظ ہم نے ایک مذہبی رہنما کے فتوے کی روشنی میں استعمال کیا ہے جس کا ذکر ہم نے تحریر کے آغاز میں کیا ہے۔ ورنہ ہماری ناقص معلومات تو محض گھوڑوں تک محدود تھیں۔ انسان کی تازہ ترین ارتقائی کامیابیوں کا علم تو ہمیں مذکورہ فتوے سے حاصل ہوا ہے جو ایک حضرت مولانا نے جاری فرمایا ہے۔ ہمیں ایک ماہر حیوانات نے بتایا تھا کہ حیوانات بھی حواس خمسہ کے مالک ہوتے ہیں۔ اگر یہ فتوی کسی گدھے کے علم میں آگیا تو ہمیں اندیشہ ہے کہ ....
یہ لگتا ہے کہیں ایسا نہ کوئی حادثہ ہو
گدھا کوئی دولتی جھاڑ دے نہ مولوی کو
فتویٰ پر غور کرنے والے ایک دانش ور کا کہنا ہے کہ فتوے میں ارکان اسمبلی کی تجارت کاری کو ڈنکی ٹریڈنگ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کا بالواسطہ مطلب یہ ہے کہ پہلے والی صورت حال تو بلاشبہ ہارس ٹریڈنگ کی تعریف میں آتی ہے لیکن اب صورتحال زیادہ ترقی کر گئی ہے۔ اب ڈنکی ٹریڈنگ کا کاروبار جدید رنگوں میں رنگا جا چکا ہے۔ میرا تجزیہ ہے کہ ڈنکی ٹریڈنگ اب ارتقائی مراحل میں داخل ہو گئی ہے۔ اس نقطہ نظر سے ارتقائی ترقی کا جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ جب کوئی معزز رکن ایک مرتبہ اپنی وفاداری تبدیل کرے تو اس عمل کو ہارس ٹریڈنگ کہا جائے گا لیکن جب یہی رکن اپنی سیاسی وفاداریاں ہر روز کپڑوں کی طرح تبدیل کرنے لگے تو پھر اس طرز عمل کو ہارس ٹریڈنگ کے بجائے ڈنگی ٹریڈنگ کا نام دیا جائیگا۔ فتویٰ کے بارے میں اپنی تشریع کو دانشور موصوف بہت جذباتی انداز میں لے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس فتویٰ سے کوئی گدھا ہی انکار کر سکتا ہے۔ ویسے اس فتویٰ کا ایک روشن پہلو بھی ہے جو اسمبلیوں میں ہونے والی ڈنکی ٹریڈنگ کو تاریخی اہمیت عطا کرتا ہے۔ اگر ڈنکی ٹریڈنگ کی اصطلاح کو پارلیمانی سطح پر تسلیم کر لیا جائے تو تاریخ کی جو کڑیاں صدیوں سے ٹوٹی ہوئی ہیں وہ دوبارہ جڑ جائینگی اور خر عیسیٰ سے خران اسمبلی تک تاریخ کا تسلسل بحال ہو جائیگا۔