ادبی سنگت ناروے اور فیصل نواز چوہدری

فیصل نواز چوہدری گزشتہ چالیس برسوں سے ناروے کے شہر اوسلو میں مقیم ہیں۔ لاہور آمد پر ان سے تفصیلی ملاقات رہی۔ ملاقات میں رانا احتشام ربانی بھی موجود تھے۔ فیصل نواز چوہدری ادبی سنگت ناروے کے جنرل سیکرٹری اور ہنرک ابسین (Henrik Ibsen)ایوارڈ کمیٹی ناروے کے چیئرمین ہیں۔ ان کے سفرنامے، افسانوی مجموعے اور ناول شائع ہو چکے ہیں۔ فیصل نے ان 40برسوں میں ریستوران میں ڈش واشنگ، منیجری، پوسٹ بینک میں ملازمت اور پوسٹ آفس میں ملازمت کی۔ ان تجربات کو انہوں نے اپنے افسانوں میں بیان کیا ہے۔ ناروے میں پہنچ کر انہیں جھوٹے برتن دھونے پر کوئی ملال نہ تھا چونکہ دیس سے پردیس آتے ہوئے انہیں معلوم تھا کہ قسمت میں وقت کی سیاہ لکیروں کو چمکانے کیلئے محنت سے اچھا کوئی ہتھیار نہیں۔ برتنوں کی چمک دیکھ کر فیصل نواز کو اپنی قسمت چمکتی دکھائی دی ہو گی۔ پھر بدلتے وقت اور قسمت کی لکیروں کی چمک کے سندیشے پا کر والدین نے فیصل کی قسمت کو نظر بد سے محفوظ رکھنے کیلئے اسکی بھیجی ہوئی پہلی تنخواہ اللہ کی راہ میں تقسیم کر دی۔ فیصل نواز 1975ءمیں جب ناروے گیا تو وہاں ان کا ماموں محمد فاضل (سابق صدر جماعت اہلسنت ناروے) موجود تھے اس لیے انہیں ابتدا میں مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ان کا کہنا ہے کہ ابتدائی دور میں ناروے جانیوالے پاکستانیوں کو بہت ساری مشکلات سے پالا پڑتا ہے۔ آج تیسری نسل جن آسائشوں سے لطف اندوز ہو رہی ہے، اسکے پیچھے پہلی نسل کے بہت سارے جذبوں کی قربانیاں کارفرما ہیں۔ اگر وہ لوگ دن رات کام کر کے نارویجنوں سے اپنے محنتی ہونے کا اعتراف نہ کرواتے تو آج نئی نسل سینہ تان کر نہ چلتی۔ آج ناروے میں پاکستانیوں کا اعلیٰ معیار زندگی ان کی ان تھک محنت کی وجہ سے ہے۔ فیصل نواز جہاں دیدہ آدمی ہیں۔ دنیا کے حالات پر انکی گہری نظر ہے۔ بات کرتے ہوئے ذمہ دارانہ لہجے میں تاریخ کا حوالہ دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، مسلمان دہشت گرد نہیں۔ اگر کچھ لوگ دہشت گردوں کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں تو اس کا الزام ساری مسلمان کمیونٹی کو دینا کہاں کا انصاف ہے۔ اصل دہشت گرد تو نیٹو ممالک ہیں۔ صدام حسین جب ایران سے لڑ رہا تھا تو پورے یورپ نے اسے ہر طرح کا اسلحہ معاشی اور سفارتی مدد فراہم کی۔ تاریخ گواہ ہے کہ یورپین ممالک نے اسامہ بن لادن کو اسلحہ فراہم کیا تا کہ وہ روس سے لڑے۔ نیٹو کا موجودہ سیٹ اپ اچھی طرح جانتا ہے کہ ایران پر حملہ تیسری عالمی جنگ کا آغاز ہو گا۔ عراق کو مڈل ایسٹ میں شیعہ سٹیٹ بنا دیا گیا۔ اس میں انکے منفی مفادات پوشیدہ ہیں۔ حجاب کے حوالے سے یورپ کے میڈیا کا خواہ مخواہ کا پرپیگنڈہ، اسلام کیخلاف سازش ہے۔ نارویجن باشندوں کے بارے میں فیصل کا کہنا ہے کہ یہ ایک بھیڑ کے بچے کی طرح ہیں لیکن محب وطن ہیں۔ کسی بھی کام سے پہلے سوچتے ہیں کہ اس عمل سے ملک وقوم کا نقصان تو نہیں ہو گا۔ بہادر ہیں، انہوں نے ہٹلر جیسے ظالم کے سامنے جھکنے کے بجائے اس سے جنگ کی۔ ملنسار اور خوش اخلاق ہیں۔ غیر ملکیوں کا خیال رکھتے ہیں۔ پاکستان کے حالات پر پریشان رہتے ہیں۔ انسانیت کی برتری کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہی اسلام کہتا ہے مگر افسوس کی بات ہے کہ میڈیا گروپ یورپ کی تقلید کرتے ہوئے اسلام دشمنی کا زہر اگلتا رہتا ہے۔ اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے پاکستانی، نارویجن سیاست دانوں کو اصل حقاق سے آگاہ کرنے میں ناکام ہیں کیونکہ اسکی توجہ اپنے ذاتی مفادات پر ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آنےوالے وقت میں ہمارے نارویجن بچے بہتر مسلمان ہونگے اور ناروے کے ہر شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کارکردگی کے ساتھ نظر آئیں گے مگر یہ ہوں گے نارویجن۔ البتہ یہاں کے آزاد معاشرے کی وہ باتیں جو بحیثیت مسلمان ہمیں سوٹ نہیں کرتیں، ان سے بچنے کیلئے بچوں کو جدید تقاضوں کے مطابق دینی تعلیم سے آگاہی فراہم کرنی ہو گی۔ ہم نے اپنی ابتدائی نارویجائی زندگی میں برتن دھوئے اور فرش صاف کیے۔ تعلیم کی کمی اور ضرورتوں نے ہمیں ٹیکسی چلانے پر مجبور کیا۔ ہم نے ان مجبوریوں کو چیلنج سمجھ کر مقابلہ کیا۔ آج ہماری ان تھک محنتوں کے صلے میں اللہ تعالیٰ نے ہم کو سہولتیں فراہم کی ہیں جن کو بروئے کار لا کر ہم نارویجن معاشرے کے بہترین انسان بن سکتے ہیں۔
فیصل نواز نے پاکستانیوں کی جن محنتوں کا ذکر کیا، ان کا اعتراف تو نارویجن بھی کرتے ہیں۔ پاکستانیوں نے ہر دور میں محنت کی عظمت کا علم بلند رکھا ہے۔ ڈبل ڈبل شفٹ کام کر کے نہ صرف ناروے کی تعمیر و ترقی میں حصہ لیا بلکہ آنے والی نسلوں کیلئے کامیابیوں کی طرف جانےوالے راستوں کے کانٹے بھی صاف کیے۔ ان کا کہنا تھا، ہم اپنے وطن جا کر بے آسرا ہو جاتے ہیں۔ عدم تحفظ کا فائدہ اٹھا کر تاوان کیلئے ہمارے بچے اغوا کر لیے جاتے ہیں۔ تارکین وطن کی محنت سے بنائی گئی جائیدادوں اور کاروبار پر قبضہ کر لیا جاتا ہے۔ لاقانونیت کا راج اور نا انصافی کا بول بالا ہے۔ انصاف پر دستک دینے کیلئے راشی ہاتھوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ جبکہ ان ہاتھوں تک پہنچنے کیلئے ایک مخصوص مافیا کو رشوت دینا پڑتی ہے جس کے دلال باہر کے ملکوں میں بھی سرگرم ہیں۔ ناجائز کاموں کے یہ متولی پاکستان جائیں تو پروٹوکول کے ساتھ وی آئی پی راستوں سے بغیر چیک ہوئے سب کچھ لے جاتے ہیں جبکہ محب وطن تارکین لائن میں لگے ہوئے اپنے استعمال کے سامان کی چیکنگ کروا رہے ہوتے ہیں۔ ان نا انصافیوں کے باوجود محب وطن تارکین اپنے وطن کیلئے درد رکھتے ہیں۔ صدر کینڈی نے کہا تھا ”یہ نہ سوچو، ملک نے مجھے کیا دیا، یہ سوچو کہ میں نے ملک کو کیا دیا“ سازشوں میں گھرے عالم اسلام کو درپیش مسائل کے حل کا خواب انہوں نے کھلی آنکھوں سے دیکھا۔ وہ اسکی تعبیر چاہتے ہیں۔ وہ تمام عرب ممالک کو اپنے ملک کی سلامتی، ترقی اور اسلام کی بقا کیلئے متحد ہو کر ایک قوم، برادری اور اسلام کی بقا کیلئے متحد دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے خواب کی تعبیر کیلئے پُر امید ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ انہیں خواب کی تعبیر ایک نہ ایک دن ضرور ملے گی۔ کیونکہ یہ خواب صرف فیصل نواز چوہدری کا نہیں۔ پوری امتِ محمدی کا ہے۔ فیصل نوازادبی سنگت ناروے کے تحت پروگرام کراتے رہتے ہیں۔ پروگرام نارویجن زبان میں ہوتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...