مجھے شرمین عبید چنائے کی دستاویزی فلم پر آسکر ایوارڈ ملنے کی خوشی ہے۔ پاکستان میں کہیں بھی شوہروں کی طرف سے عورتوں پر تشدد کے خلاف ہوں شرمین نے بڑی جرات کی کہ اس موضوع پر فلم بنائی۔ پاکستان کے لوگوں نے اس فلم کی تیاری میں کوئی مشکل پیدا نہیں کی۔ یورپ میں خانگی نظام درہم برہم ہو گیا ہے اور آج بھی وہاں بیویوں کی پٹائی ہوتی ہے۔ ہمیشہ بیوی بیچاری ہی پٹتی ہے مگر پاکستان میں یہ عمل ظالمانہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہ ظالمانہ عمل ہے مگر پاکستان کے علاوہ انگلستان اور امریکہ میں بھی ہے۔ یہ بات صرف پاکستان اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے ہوتی ہے۔
یہ فلم انگریزی میں یورپ والوں کے لئے بنائی گئی ہے۔ عزیزہ شرمین عبید چنائے سے گزارش ہے کہ اب ان کے لئے پاکستان میں کسی مثبت حوالے سے بھی فلم بنائے۔ مجھے منفی باتوں کے نمایاں کرنے پر اعتراض نہیں مگر پاکستان کی نیک نامی کا خیال ہے۔ کیا پاکستان میں کوئی مثبت چیز ہوتی ہی نہیں ہے۔
میں آنر کلنگ کے سخت خلاف ہوں۔ غیرت کے نام پر قتل سب سے بڑی بے غیرتی ہے۔ آنر کے لئے عورتوں کو قتل کیا جاتا ہے تو مردوں کو بھی قتل کرنا چاہئے یہ بے غیرتی اور بزدلی ہے۔ عورت چونکہ کمزور ہے۔ اس پرہر کسی کا زور چلتا ہے۔ ورنہ جس جرم کے لئے اسے قتل کیا گیا ہے مرد بھی اس میں برابر کا شریک ہے۔
آنر کلنگ ٹارگٹ کلنگ سے ہزار درجے ظالمانہ اور جاہلانہ ہے۔ اکثر اوقات صرف شک کی بنیاد پر یہ گھناﺅنا واقعہ ہوتا ہے۔ ”غیور“ مرد اس مرد کو قتل کریں جو اس فعل میں اصل گنہگار ہوتا ہے۔ اکثر اوقات عورت اس مرد کا نام بھی نہیں بتاتی اور موت کو قبول کر لیتی ہے۔ وہ مرد اتنا بے غیرت ہوتا ہے کہ اس کے بعد بھی زندہ رہتا ہے اور کئی دوسری عورتوں کی ذلت اور اذیت کا باعث بنتا ہے۔
اس یکطرفہ عمل میں خاندانی مسائل بھی ہوتے ہیں۔ ساس بہو اور نند اور سالے کا تنازعہ بھی ہو سکتا ہے۔ فطرت نے بھی عورت کو بلکہ ہر مونث کو کمزور بنایا ہے مگر یہ ظلم اور اندھیر جنگل میں بھی نہیں ہے۔
جب تک عورت مرد ایک دوسرے کے لئے اپنے دل میں عزت پیدا نہیں کرتے اس وقت تک انسانی معاشرہ پیدا نہیں ہو سکتا۔ میں تو کہتا ہوں کہ اے جوانمرد و عورت کی عزت کرو۔ عورت محبت کے قابل بھی ہے مگر عزت کی مستحق زیادہ ہے۔ جس معاشرے میں عورت کی عزت نہیں ہوتی وہ انسانی معاشرہ نہیں کہلا سکتا۔ محبت عزت کے بغیر جھوٹ ہے۔ عزت محبت سے بڑی چیز ہے اور رفاقت جو میاں بیوی کے درمیان بہت ضروری ہے دونوں کو ایک دوسرے کا رفیق زندگی کہا جاتا ہے۔ اس کے لئے مجھے تلہ گنگ کے ایک صوفی شاعر شاہ حیدر کا شعر یاد آیا ہے
کہا ہے عارف کامل نے مجھ سے وقت وداع
محبتوں سے ہیں بڑھ کر رفاقتوں کے حقوق
شرمین سے پہلے ملالہ یوسف زئی کو نوبل امن ایوارڈ ملا۔ یہ بھی پاکستان کے لئے اچھی خبر تھی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ ایوارڈ کس کام کا ایوارڈ ہے؟ ملالہ یوسف زئی نے کیا کیا ہے؟ اس نے کچھ نہ کیا ہو گا پھر بھی نوبل ایوارڈ ایک بہت افتخار کی بات ہے۔ ملالہ نے بعد میں اپنی تقریروں اور کارکردگی سے ثابت کیا ہے کہ وہ پاکستان کی قابل فخر بیٹی ہے۔ وہ عمر میں مجھ سے بہت چھوٹی ہے مگر میں اس سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ آئندہ زندگی میں تنقید کرنے والوں کا منہ بند کر دے اور کچھ بن کے دکھائے۔
شرمین سے گزارش ہے کہ وہ اگلی ایسی دستاویزی فلم بنائے جو پاکستان کے لئے نیک نامی کا باعث ہو۔ خواہ اس فلم سے آسکر ایوارڈ نہ ملے۔ یہ بھی بہت بڑے اعزاز کی بات ہے کہ شرمین نے ایوارڈ وصول کرنے کے بعد جو گفتگو کی اس میں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کا ذکر کیا کہ انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ میں آنرکلنگ کے خلاف قانون بنواﺅں گا شہباز شریف بھی اس حوالے سے اقدام کریں گے۔ گھریلو عورت کی عزت کے لئے انہوں نے قانون پنجاب اسمبلی سے منظور کروایا ہے۔
یہ بھی اعتراف کیا ہے شرمین نے کہ یہ فلم کی طاقت ہے۔ فلم کی طاقت ہے تو انسانی تاریخ سرخرو ہوئی ہے۔ فلم کی طاقت بھی سرفراز کرنے لگی ہے۔ وزیراعظم ہاﺅس میں یہ فلم دکھانے کا اہتمام مریم نواز نے کیا تھا اور مجھے یقین ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کے اس اقدام سے اور فلم کی تعریف سے بھی شرمین کو فائدہ ہوا ہو گا۔
شرمین سے گزارش ہے کہ وہ عافیہ صدیقی پر ظلم و ستم قید و بند کی صعوبتوں پر بھی ایک فلم بنائے اور اس کی رہائی کے لئے بھی کوشش کرے اس حوالے سے کراچی میں قربانی کی لازوال کہانی لکھنے والی عافیہ صدیقی کی بہادر اور مستعد مخلص بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی سے ملاقات ضرور کرے۔