کوئی بھی عالمی فورم ہو‘ بھارتی وزیراعظم کو مدعو کیا جائے یا وہ کسی ملک کے دورے پر ہو اسکی زبان سے ادا ہونیوالا ہر جملہ پاکستان کیخلاف ہوتا ہے۔ ہر بھارتی وزیراعظم پاکستان مخالف بیانات فرائض منصبی سمجھ کر اداکرتا ہے اور یہ سلسلہ تشکیل پاکستان سے جاری ہے جس میں پاک فوج خصوصاً بھارتی پروپیگنڈے کا ہدف تھی اور رہے گی ابتداء میں بھارت پاک فوج پر مقبوضہ کشمیر میں مداخلت اور گھس بیٹھے بھیجنے کا الزام لگاتا رہا لیکن 1979 میں سوویت افواج کی افغانستان میں آمد اور وہاں اسکے خلاف مزاحمتی جنگ کے آغاز اور پاکستان کی طرف سے افغان مزاحمت کاروں (مجاہدین کی شناخت انہیں بعد میں ملی) کی حمایت کے بعد بھارت نے پاکستان پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگا دیا تاہم اس وقت مغربی میڈیا ا ور امریکی حکومت نے بھارتی شور پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ سوویت افواج کی شکست کے بعد افغانستان بدترین خانہ جنگی کا شکار ہوا تو بھارت نے اس کا الزام بھی پاکستان پر لگا دیا۔ بعدازاں 2001 میں ’’نائن الیون‘‘ کا بدلہ بے گناہ افغان عوام سے لینے کیلئے امریکہ افغانستان پر حملے کا اعلان کیا تو بھارت واحد ملک تھا جس نے بھرپور سفارت کاری کا مظاہرہ کیا کہ ’’امریکہ افغانستان کی بجائے پاکستان پر حملہ کرے جو نہ صرف دہشتگردوں کا گڑھ ہے بلکہ پاکستان میں تیار کردہ دہشتگردوں کو ہمسایہ ممالک کیخلاف بھی استعمال کیا جا رہا ہے‘‘ بھارت نے امریکہ کو پاکستان پر حملے کیلئے اپنے ہوائی اڈے اور ائرفورس تک فراہم کرنے کی پیشکش کی جسے امریکہ نے مسترد کر دیا لیکن بھارت کا پاکستان مخالف پروپیگنڈے کا راگ جاری رہا بلکہ SOUTH ASIA ANALYSIS GROUP کے نام سے ایک تھنک ٹینک قائم کر کے اسے خطیر رقم فراہم کر دی گئی کہ وہ عالمی میڈیا میں پاکستان کو دہشت گرد ملک اور دہشتگردی کی عالمی سطح پر فروغ کی مرتکب ریاست ثابت کرے‘ دنیا کو دھوکا دینے کیلئے اسے جنوبی ایشیاء سے متعلق سٹڈی گروپ کا نام دیا گیا جبکہ اس کا اصل مشن صرف اور صرف پاکستان اور پاک فوج کو بدنام کرنا تھا ’’را‘‘ کے سابق سربراہ بی رامن کو اس گروپ کا سربراہ بنایا گیا اور ’’را‘‘ ہی سے ریٹائر ہونے والے چند ڈائریکٹر کی سطح کے افسران کو تجزیہ نگاری کیلئے اس میں شامل کر لیا گیا جن میں ایس گوپال‘ ڈاکٹر ایس چندر شیکرن‘ سی ایس کیپو سورمے‘ ڈاکٹر سبہاش گپیلا‘ ڈاکٹر راجیش تمباری‘ کرنل آریری ہرن‘ برگیڈئر بکثر رامے اور بریگیڈئر اوپادھئیے سر فہرست تھے۔ انکے پاکستان مخالف تحریروں و تجزیوں کو مغربی پرنٹ میڈیا کیلئے قابل قبول بنانے میں اسرائیل نے بھارت کی بھرپور مدد کی۔ امریکی حکومت کو بھی پاکستان مخالف اقدامات نہ اٹھانے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا صرف اتنا ہی نہیں مارچ 2004 میں جب سپین کے شہر میڈرڈ میں ریلوے اسٹیشن کے قریب مسافر ریل گاڑی میں بم دھماکہ کے نتیجے میں 191 مسافر جاں بحق ہو گئے تو 12 مارچ 2004 کے مغربی اخبارات اٹھا کر دیکھ لیجئے کہ بھرپور دلائل کے ساتھ پاکستان کو اس دہشتگردی میں ملوث قرار دینے والے ابتدائی تجزیہ کاروں کا تعلق بھارتی تھنک ٹینکSAAG ہی سے تھا حالانکہ سپین کی حکومت اس لغو مؤقف کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھی کہ حملے میں القاعدہ کے وہ لوگ ملوث ہیں جن کا پاکستان کے قبائلی علاقوں میں قیام رہا ہے۔اسی ہی طرز کا ا یک حملہ 7 جولائی2005 کو برطانوی زیر زمین ریلوے ٹیوب ٹرین میں ہوا‘ تین مختلف ریل گاڑیوں میں ہونے والے دھماکوں میں 52 افراد جاں بحق اور 700 سے زائد زخمی ہو گئے۔ برطانوی7/7 کہلائے جانیوالی دہشتگردی کی اس واردات کو بھی مغربی میڈیا نے پاکستان میں محفوظ ٹھکانے رکھنے والے دہشتگردوں کی کارروائی قرار دے کر پاکستان کو پروپیگنڈے کا ہدف بنانے کی کوشش کی۔ مندرجہ بالا دو مثالیں دینے کا مقصد یہی تھا کہ بھارت کے پاکستان مخالف اس کردار کو سامنے لایا جا سکے جسکے مختلف روپ ہیں-1 دنیا میں کہیں بھی ہونیوالی دہشت گردی کو پاکستان سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔ عالمی سطح پر ہی نہیں پاکستان کے اندر سے بھی بعض فوج مختلف دانشوروں کو ساتھ ملا کر کر پاکستان مخالف ایک مضبوط بیانیہ تیار کیا گیا کہ افغانستان میں جاری مزاحمتی جنگ ہو بھارتی فوج کے زیرقبضہ کشمیریوں کی جنگ آزادی یا دنیا بھر میں کہیں بھی موجود اسلامی انتہا پسندی اور اسکی بدولت رونما ہونیوالی کارروائیاں‘ اس کا ذمہ دار پاکستان کے عسکری اداروں کو قرار دیا گیا۔2 بھارت نے پاکستان کے قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے جرائم پیشہ افرادکو ساتھ ملا کر پاکستان میں دہشتگردی کا ایک منظم جال ترتیب دیا اور انہیں اسلامی شناخت دیکر پاکستان میں خودکشی دھماکوں پر لگا کر اپنے زیر اثر میڈیا کے ذریعے2 طرح کے تاثر کو پھیلایا گیا اولاً پاکستان میں ایٹمی اسلحہ غیر محفوظ ہے جو کسی بھی وقت انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ کر عالمی امن کیلئے تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔ دوم:پاکستان میں خود کش دھماکے کرنے والے ماضی میں پاک فوج کے اپنے تیار کردہ ہیں جو اب خود پاکستان کی سلامتی کیلئے خطرہ بن چکے ہیں۔ اس منفی تاثر کا بھارت کو یہ فائدہ ہوا کہ پاکستان میں خودکش دھماکوں کی بدولت ہونے والی ہزاروں شہادتوں کے باوجود کسی بھی بھارت کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا۔ دنیا کو تو چھوڑیئے پاکستان کے حکمرانوں نے بھی بھارت کو ملوث قرار دینے کی بجائے بھارت سے دوستانہ مراسم کو پاکستان کیلئے ناگزیر قرار دینے کی پالیسی اپنائے رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں دہشتگردی کا معمولی سا واقعہ بھی پوری دنیا کی طرف سے پاکستان پر تنقید کا سبب بن جاتا اسکے برعکس ایک ہی دھماکے میں سینکڑوں پاکستانیوں کی شہادت پر محض اظہار ہمدردی پر مبنی بیانات دے کر پاکستانیوں کو احسان سے نوازا جاتا رہا اور اب بھی صورتحال جوں کی توں ہی ہے۔بھارت آج بھی پاکستان میںخودکش دھماکوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ماضی میں جب 2 برس کیلئے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا تو قوم پر امید تھی کہ ہمارے حکمران اس عرصہ میں قانون سازی کرنے میں کامیاب ہو جائیگی لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں 12 برس قبل فوجی عدالتوں کے قیام سے پہلے موجود تھے۔ اب پھر قوم کی امیدیں فوجی عدالتوں کے قیام پر لگی ہیں لیکن ملک سے دہشتگردی کے مکمل خاتمہ کیلئے صرف فوجی عدالتوں کا قیام ہی نہیں نیشنل ایکشن پلان پر اسکی روح کے مطابق عملدرآمد بھی ضروری ہے۔