پی آئی اے کو ڈبونے میں گزشتہ 10 سال کی تمام حکومتیں ذمہ دار ہیں : کمیٹی رپورٹ

اسلام آباد (نوائے و قت رپورٹ+ نیوز ایجنسیاں) پی آئی اے کی کارکردگی کے حوالے سے تشکیل دی جانے والی ایوان بالا کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس کنوینئر کمیٹی سینیٹر مشاہد اللہ خان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاو¿س میں ہوا۔ خصوصی کمیٹی کے اجلا س میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کی کارکردگی کے حوالے سے ذیلی کمیٹی کی رپورٹ پیش کی گئی۔ ذیلی کمیٹی سینیٹر سید مظفر حسین شاہ کی صدارت میں تشکیل دی گئی تھی اور سینیٹر فرحت اللہ بابر اور سینیٹر جنرل( ر) عبدالقیوم ممبران تھے۔ سینٹ کی ذیلی کمیٹی کی رپورٹ میں قومی ائر لائن کو ڈبونے میں گذشتہ 10 سال کی تمام حکومتوں کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پی آئی اے اور دیگر اداروں میں سیاسی بھرتیاں ہوئیں۔ پی آئی اے کیئرنگ اور ٹکٹنگ میں کرپشن کے شواہد ملے۔ سینیٹر طاہر مشہدی نے کہا ہے کہ پی آئی اے ”خان بس سروس“ بن گئی۔ پی آئی اے دعائے سفر کی وجہ سے چل رہی ہے۔ سینٹ کی پی آئی اے کی کارکردگی کے بارے میں خصوصی کمیٹی نے پی آئی اے کے غیرملکی چیف ایگزیکٹو آفیسر برنڈ ہلڈن برینڈز کو اجلاس میں شرکت کا حتمی نوٹس جاری کر دیا، سی ای او کو انتباہ کیا گیا ہے کہ وہ آئندہ اجلاس میں نہ آئے تو انہیں گرفتار کروا کر کمیٹی میں لایا جائے اور ان کے خلاف تحریک استحقاق بھی پیش کردی جائے گی، کمیٹی نے سی ای او کی طرف سے پاکستانی جہاز کو فلسطینیوں کے خلاف فلم بنانے کیلئے استعمال کرنے کی اجازت دینے کا نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری ایوی ایشن کو تحقیقات کی ہدایت کردی۔ کمیٹی کو آگاہ کیا گیا ہے کہ فلم میں استعمال کرنے کیلئے یہ پاکستانی جہاز مالٹا بھجوایا گیا تھا، جس کے عوض 2 لاکھ 10 ہزار یورو ادا کئے گئے۔ خصوصی کمیٹی نے سب کمیٹی کی پی آئی اے کی کارکردگی سے متعلق 14نکات پر مشتمل رپورٹ کی توثیق کردی ہے۔ رپورٹ میں پی آئی اے کے موجودہ بورڈ کو تحلیل کرنے کی سفارش کردی گئی ہے۔ ارکان کو بتایا گیا کہ کمیٹی نے اس مقصد کیلئے کراچی کا دورہ کیا۔ چیف ایگزیکٹو آفیسر سے ملاقات کی سی ای او نے کمیٹی کے استفسار پر بتایا کہ پی آئی اے میں تین ایسے اعلیٰ افسران تعینات ہیں جو تین سے 4 لاکھ کی تنخواہیں گھر بیٹھے وصول کر رہے ہیں اور کوئی کام نہیں کررہے۔اس بارے میں بورڈ اور وزارت ایوی ایشن کو آگاہ کیا گیا تھا مگر ان افسران کیخلاف کارروائی سے روکدیا گیا، سب کمیٹی کے اراکین کا کہنا تھا کہ سی ای او آزاد و خودمختار ہے اسے یا تو خود ان افسران کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے یا بورڈ کے ایجنڈے پر یہ معاملہ لیکر آتے۔ سب کمیٹی کے رکن لیفٹیننٹ جنرل(ر) عبدالقیوم نے بتایا کہ سی ای او سے کہا تھا کہ اگر وہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرسکتے تو یہ عہدہ چھوڑ دیں۔ سب کمیٹی کی رپورٹ پر مزید بریفنگ دیتے ہوئے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے بتایا کہ کمیٹی نے اتفاق رائے سے پی آئی اے کے موجودہ بورڈ کو تحلیل کرنے، سیلز اور مارکیٹنگ کے شعبہ جات کو الگ کرنے، قومی فضائی کمپنی میں ایسوسی ایشنز کی بارگیننگ پوزیشن، پائلٹس کو صرف جہاز اُڑانے تک محدود رکھنے اور انہیں دیگر شعبوں کی ذمہ داریاں نہ دینے کی سفارش کی ہے۔ خصوصی کمیٹی نے سی ای او سمیت پی آئی اے کے اہم افسران کے اجلاس میں نہ آنے پر برہمی کا اظہار کیا۔ کمیٹی نے پی آئی اے کے اثاثوں کے تخمینے تیار کرنے، اسی طرح آئی ٹی سیکشن کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی سفارش کی ہے۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ مارکیٹنگ اور سیلز کے یکجا ہونے کی وجہ سے ان شعبوں میں لیکجز بہت زیادہ ہیں۔ مرکزی کمیٹی نے اتفاق رائے سے سب کمیٹی کی رپورٹ کی توثیق کردی ہے جبکہ پی آئی اے کے چار پرانے جہازوں کی فروخت کے غیرشفاف معاملات کا نوٹس لیتے ہوئے۔ سیکرٹری ایوی ایشن کو تحقیقات کا نوٹس دیدیا ہے۔حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ترکی سے چھ جہاز لیز پر لیے جارہے ہیں۔ سینیٹر مانڈوی والا اور دیگر ارکان کے استفسار پر حکام نے اعتراف کیا کہ ان جہازوں میں نشستوں اور دیگرسہولیات کو دیکھا جارہا ہے اور یہ سہولیات محدود ہیں، نشستوں کی بھی گنجائش انتہائی کم ہے، کمیٹی نے آئندہ کیلئے اس قسم کے جہاز حاصل نہ کرنے کی سفارش کی ہے۔ چیئرمین کمیٹی مشاہد اللہ خان نے سی ای او کے نہ آنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ انہوں نے وارداتیں ڈالنے کیلئے عہدہ قبول کیا ہے، انکے پارلیمنٹ میں نہ آنے سے سسٹم پر حرف آرہا ہے اگر وہ پی آئی اے کو بھی نہ چلا سکیں گے پارلیمنٹ میں بھی نہیں آئیں گے تو وہ کر کیا رہے ہیں۔ میں پی آئی اے کی ایک ایسی اعلیٰ خاتون افسر کو جانتا ہوں جو 13لاکھ ماہانہ تنخواہ لے رہی تھی اور اسے اپنے شعبے کا ادراک بھی نہیں تھا۔ خصوصی کمیٹی میں طلب کرکے اس کی ذمہ داریوں کے بارے میں پوچھا اس سے بہتر جواب تو ائیرہوسٹس دے سکتی تھی۔ کمیٹی میں سرزنش پر یہ خاتون عہدہ چھوڑ کر چلی گئی اور اگر ہم نوٹس نہ لیتے تو یہ اعلیٰ عہدے پر ماہانہ 13 لاکھ کے عوض بیٹھی رہتی، جرمنی سے چیف ایگزیکٹو آفیسر داﺅ لگانے پاکستان آیا ہے، اگر وہ پی آئی اے میں کام نہ کرنے والے افسران کا نوٹس نہیں لے سکتا تو وہ کیا کر رہے ہیں، پی آئی اے کے دیگر افسران بھی نہیں آئے کیا وہ کراچی میں انڈے دے رہے ہیں۔ ہمیں خدشہ ہے کہ یہ سی ای او دو چار ہاتھ اور مارے گا اور چھوڑ کر چلا جائیگا۔ کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ9، ٹرپل سیون جہازوں کی تزئین و آرائش کا فیصلہ کیا گیا ہے، پہلا جہاز نومبر 2017ءتک تیار ہو جائیگا، مزید 5 جہازوں کو اَپ گریڈ کیا جائیگا جس میں نشستوں کے ساتھ انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہوگی۔ کمیٹی نے اتفاق رائے سے فیصلہ کیا ہے کہ اس بار سی ای او کی طلب کیا حتمی نوٹس جاری کیا جارہا ہے اور وہ اگر آئندہ اجلاس میں نہ آئے تو ان کیخلاف تحریک استحقاق پیش کرتے ہوئے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے جائیں گے۔
پی آئی اے/ حکومتی کمیٹی

ای پیپر دی نیشن