کچھ دنوں سے دل کا عجب عالم ہے۔ صبح اُٹھ کر یہ کالم لکھنا ہوتا ہے۔ توقع میرے زیادہ تر قارئین کی یہ ہوتی ہے کہ میں کسی چوندے چوندے سیاسی موضوع پر کچھ لکھوں۔ موضوعات ایسے بے شمار ہیں۔ مثال کے طورپر چودھری نثار علی خان کا معاملہ۔ وہ اس اجلا س میں شریک نہیں تھے جہاں ان کے جگری شہباز شریف صاحب کو نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کا بالآخر صدر بناہی ڈالا گیا۔
چودھری صاحب کی اس اجلاس سے عدم موجودگی کے بارے میں بہت چہ میگوئیاں ہورہی ہیں۔ ان سب میں سے ”ہٹ“ مگر وہ کہانی ہوئی جس نے دعویٰ کیا کہ نواز شریف صاحب کے حکم پر چودھری نثار علی خان صاحب کو اس اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ اس کہانی میں مٹھا ڈالنے اور اسے مزید قابلِ اعتبار بنانے کے لئے دعویٰ یہ بھی ہوا کہ خواجہ سعد رفیق اور سپیکر ایاز صادق نواز شریف کو ٹھنڈا کرنے کی کوششیں کرتے رہے۔ ضدی مشہور ہوئے نواز شریف مگر ٹس سے مس نہ ہوئے۔ مبینہ طورپر اصرار کرتے رہے کہ چودھری صاحب نے ان کے بنائے بیانیے (جو شاید”مجھے کیوں نکالا“پر مبنی تھا) کی برسرِعام مخالفت کرکے انہیں شرمندہ کیا ہے۔
جب یہ کہانی بینڈ باجے کے ساتھ Breaking Newsبناکر ہماری سکرینوں پر مسلسل دہرائی جاچکی تو محترمہ مریم نواز صاحبہ کا ایک ٹویٹ آگیا۔ ”خبر“ کی تردید ہوگئی۔ یہ قصہ دوسرے دن بھی ایک ا ور انداز میں دہرایا گیا۔ اس کا جواب بھی مریم بی بی ہی کے ایک اور ٹویٹ کے ذریعے آیا۔
چودھری نثار علی خان سے میری شناسائی کا آغاز 1985سے ہوا تھا۔ برسوں تک پھیلی کئی ملاقاتوں کے بعد ہم ایک دوسرے کا ذاتی طورپر بہت احترام کرتے ہیں۔ سوچ بہت سے معاملات پر ہم دونوں کی شاذہی ایک جیسی رہی۔ اکثر اس کالم میں ان کی کئی باتوں پر میں نے سخت تنقیدی فقرے بھی لکھے۔ ان میں سے چند ایک نے چودھری صاحب کو ناراض بھی کیا۔ فون کے ذریعے انہوں نے اظہار کردیا۔ رات گئی بات گئی ہوگیا۔
اس کالم کو ”مزے دار“ بنانا ہے۔ Exclusive کا رُعب جھاڑنا ہے تو بہتر یہی تھا کہ میں چودھری نثار علی خان سے رابطے کی کوشش کرتا۔ چودھری صاحب سے رابط کرنا غالب کے ”لانا ہے جوئے شیرکا“ والا معاملہ ہوا کرتا ہے۔ مجھے لیکن کامل یقین ہے کہ میں ان کے ذاتی سٹاف سے رابط کرتا۔ ان سے بات یا ملاقات کی خواہش کا اظہارکرتا تو چند گھنٹوں کے وقفے کے بعد چودھری صاحب کا جوابی فون آجاتا۔ فوری ملاقات کو تیار نہ بھی ہوتے تو چند روز کے وقفے کے بعد ملاقات بھی ہوجاتی۔ اس ملاقات میں صرف وہ اور میں ہوتے۔ دل کھول کر باتیں ہوتیں۔ وہ ان باتوں کو مگر ”آف دی ریکارڈ“ رکھنے کا تقاضہ کر دیتے۔ میرا Exclusive نہ بنتا۔ چودھری صاحب سے لہٰذا رابطہ کرنے کا تردد ہی نہ کیا۔
چودھری صاحب سے ملاقات کئے بغیر بھی لیکن میں نواز شریف اور ان کے درمیان دوریوں کی وجوہات کافی اعتماد سے بیان کرسکتا ہوں۔ دل کا مگر عجب معاملہ ہوچکا ہے۔ ملکی سیاست پر لکھنے کو جی ہی نہیں چاہتا۔ صبح اُٹھتا ہوں۔ اخبار میں چھپے کالم کو اپنے انٹرنیٹ اکاﺅنٹس پر پوسٹ کرتا ہوں۔ اس کے بعد لیپ ٹاپ بند کردیتا ہوں۔ کالم لکھنے کے لئے تین صفحات اپنے سامنے رکھتا ہوں۔ قلم اٹھاتا ہوں مگر کھڑکی کے باہر دیکھنا شروع کردیتا ہوں۔ موسم بدل رہا ہے۔ بہار کے امکانات پیدا ہورہے ہیں۔ میری کھڑکی پر شہتوت کے بور سے لدی ایک شاخ پھیل رہی ہے۔ گزشتہ تین برس سے اس شاخ کے بڑھنے کی وجہ سے میری ہر صبح کا آغاز چھینکوں سے ہوتا ہے۔ ناک بہنا شروع ہوجاتی ہے۔ ٹشو کا ڈبہ دھڑا دھڑ خالی ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
اس کیفیت کو ”الرجی“ کہا جاتا ہے۔ سیانوں کا مشورہ ہے کہ اس کا سبب بننے والا درخت کٹوا دیا جائے۔ میں کسی بھی درخت کے قتل کو لیکن ہرگز تیار نہیں ہو سکتا۔ اس کے علاوہ ایک گولی ہے۔ وہ کھا لوں تو چھنکیں تھوڑی دیر بعد رُک جاتی ہیں۔ خالی پیٹ شاید کوئی دوا نہیں لینا چاہیے۔ لہٰذا ٹال دیتا ہوں۔ ”الرجی“ ویسے بھی مزاج کو ”بلغمی“ بنا دیتی ہے۔ شاعروں کو بلغمی مزاج بہت بھاتا ہے۔ میرے البتہ کسی کام نہیں آتا۔ آنکھوں کی جلن اور سوں سوں کرتی ناک کی تکلیف کے باوجود کیفیت ذہن کی کچھ اس طرح کی ہوتی ہے جس میں فیض احمد فیض ”غم جہاں کا حساب“ کرنا شرع ہوجاتے تھے مگر وہ خوش قسمت تھے۔ غم جہاں کا حساب کرنے بیٹھتے تو ”وہ“ بے حساب یاد آنا شروع ہوجاتا(یا جاتی)۔ اپنا کوئی ”وہ“ بھی نہیں ہے۔ ذہن اِدھر اُدھر بھٹک جاتا ہے۔
غالب کو شکوہ رہا کہ وہ ”فرشتوں“ کے لکھے جانے پر ”ناحق“ پکڑے جاتے ہیں۔ آج کے دور میں کالم نگاروں کی ”گرفت“ مگر ان کی یاوہ گوئی پر ہوتی ہے۔ ہمارے سینئرز خوش نصیب تھے۔ ایو ب خان کا زمانہ دیکھا تھا۔ خوب علم تھا کہ کیا بات نہیں لکھنی۔ میرا ابتدائے صحافت کا زمانہ شاید اس سے بھی زیادہ بہتر تھا۔ جو بھی لکھتا اخبار میں چھپنے سے پہلے پی آئی ڈی کے دفتر جاتا۔وہاں فیصلہ ہوتا کہ ”ایہہ منظور تے ایہہ نامنظور“، جو بھی چھپتا اس کے بارے میں فکر مندی نہ ہوتی کہ سنسر شدہ تھا۔ سرکار کی منظوری سے چھپا تھا۔
آج کے دور کا سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ صحافت ”مکمل آزاد“ ہے۔ آپ کا لکھا مگر کسی کو بھی ناراض کر سکتا ہے۔ ہمارے کئی لوگ اپنے تئیں ہمارے دینِ مبین کی حفاظت پر مامور ہیں۔ سنا ہے ہماری کوئی ثقافت اور تہذیب بھی ہے۔ اسی ”ثقافت“ کی بدولت دوائیاں اور دودھ تک خالص نہیں ملتے۔ اس کی اور دیگر ”اخلاقی قدروں“ کی حفاظت مگر بہت زور شور سے ہورہی ہے۔ان کے علاوہ ہمارے ملک کی ”نظریاتی سرحدیں“ بھی ہیں۔ محافظ ان سرحدوں کے بھی بہت ہیں۔ ان سب ”محافظوں“ سے بچ کر رہنے کا ڈھنگ سیکھ لیا تو عدالتیں متحرک ہو گئیں۔ وہاں جواب طلب کئے جاتے ہیں۔بے ساختگی کہاں سے آئے۔
حافظ شیرازی کے ہاں ”محتسب“ کا اتنا ذکر کیوں رہا اب سمجھ میں آنا شروع ہوگیاہے۔ حافظ جس دور میں زندہ تھا اپنے ملک کے محتسبوں سے تو بچ گیا مگر امیر تیمور اپنی فوجیں لے کر وہاں قابض ہوگیا۔ جان بچانے کو حافظ ایک تندور میں چھپ گیا۔ تیمور کے فوجیوں نے مگر ڈھونڈ کر فاتح کے روبروپیش کردیا۔ سمرقند وبخارا کو اپنے ایک شعر میں حافظ نے محبوب کے تل پر فدا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ امیر تیمور چراغ پا تھا کہ دلاوری کے زور پر جیتے یہ شہر محبوب کے تل کے مقابلے میں ہیچ کیوں ٹھہرائے گئے۔ حافظ نے حاضر دماغی سے جان بچالی۔
میرا دماغ ”حاضر“ مگر کبھی کبھار ہی ہوتا ہے۔ سوالات ہوئے تو جواب نہیں دے پاﺅں گا۔ موسم سرمارخصت ہوا۔ درجہ حرارت بڑھے تو جیل میں کیڑے مکوڑے بھی ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ جاتے ہیں۔ وہاں پھیلی بوبھی جان لیوا ہوتی ہے۔ اپنے بچنے کی لہٰذا فکر ضروری ہے۔ کھڑکی سے باہر نگاہ پڑتے ہی جو خیالات ذہن میں آتے ہیں، انہیں کاغذ پر منتقل کرنے سے اجتناب ضروری ہے کیونکہ یہ دور احتساب کا دور ہے۔ احد چیمہ جیسے ”کرپٹ افسروں“کے احتساب کا دور۔ سنا یہ بھی گیا ہے کہ ”ہماری تاریخ“ میں ایسا پہلی بار ہورہا ہے۔ ”پہلی بار“ کے مگر جب شادیانے بجائے جاتے ہیں تو میرا دماغ بھنا جاتا ہے۔ میری ناقص رائے میں ”پہلی بار“ اس ملک میں 1948ءہی میں ہوگئی تھی۔ ایوب کھوڑو سندھ کا ”مردِ آہن“ کہلاتا تھا۔ کرپشن کے الزام میں جیل بھیجا گیا۔ اسی سال مملکتِ خداداد کو ”چور لٹیرے“ سیاست دانوں سے بچانے کے لئے پروڈا نام کا قانون بھی متعارف ہوا تھا۔ تحریک پاکستان کے ایک بہت ہی معتبر نام حسین شہید سہر وردی کو ”غدار“ بھی اسی سال پکارا گیا تھا۔ احتساب کی ”پہلی بار“ لہٰذا قیامِ پاکستان کے ایک سال بعد ہی شروع ہوگئی تھی۔ جانے کیوں ”بار بار“ کو ہم ”پہلی بار“ ثابت کرنے پر کیوں مصر رہتے ہیں۔
”پہلی بار“ کی اب کوئی اور صورت نکالنا پڑے گی۔اس کے نمو ہونے تک بہار کی آمد کی اطلاع دیتی ہوا کی وجہ سے نازل ہوئی آنکھ کی جلن بھگتو۔ ٹشو کا ڈبہ خالی کرو۔ غالب کی طرح جنون میں ”بک رہا ہوں“ سے کام چلاﺅ مگر اس دُعا کے ساتھ کہ ”کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی“
٭٭٭٭٭