یکم مارچ 2018ء نظریہ پاکستان کیلئے اس لحاظ سے ایک خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ اس روز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر محترم نے بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح اور تصور پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے ویژن اور تصور کو عملی شکل دینے میں جس ادارے نے سب سے بڑا اور اہم کردار ادا کیا یعنی نظریہ پاکستان ٹرسٹ لاہور اس کے مال روڈ لاہور پر واقع مرکزی دفتر میں خصوصی تقریب پر تشریف لا کر نظریہ پاکستان کے ادارہ اور اس عظیم ادارہ کے عظیم بانی مجاہد پاکستان مجید نظامی کو ان کی تاریخ پاکستان کے ایام کے جذبہ کو زندہ و تابندہ رکھنے کیلئے اپنی پوری زندگی وقف کر رکھی تھی اس کا اعتراف اور پوری قوم کی طرف سے شکریہ ادا کریں چنانچہ یکم مارچ بروز جمعرات ایوان کارکنان تحریک پاکستان اور پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے کارکنان کے علاوہ تمام گولڈ میڈلسٹ اپنے سینوں پر یہ عظیم میڈل سجائے ہوئے صدر نظریہ پاکستان ٹرسٹ محترمی جسٹس رفیق احمد تارڑ اور صدر تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ صدر مملکت کو پنجاب پولیس بینڈ کی خوبصورت قومی ترانوں کی دھنوں کے درمیان خوش آمدید کہا۔ پاکستان کے موجودہ درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجز اور دیگر اندرونی حالات جن میں عدالتوں میں زیر سماعت اعلیٰ ترین سطح کے مقدمات کی بھرمار اور مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان رسہ کشی چوٹی پر ہے۔ عزت مآب نہایت انتہائی قابل تحسین و تعریف ان کی خوش آمدید کا لمحہ اور تحریک پاکستان کے سینئر گولڈ میڈلسٹ کا اجتماع جنہوں نے 1940ء کی ابتدائی دہائی میں 23مارچ 1940 کے آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخی اجتماع میں شرکت کی تھی اور پاکستان کو بنتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا ایک عجیب سے کیفیت کا سماں دلوں کے اندر محسوس ہوتا تھا اور صدر مملکت کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے ان سب بزرگوں کی آنکھوں سے ایک عظیم حسرت اور امید جھلکتی تھی کہ آج 71 برس کے بعد ہمارا پیارا وطن جو آدھا ہم سے کٹ چکا ہے اسکا باقی ماندہ آدھا حصہ اس ویژن کی عملی صورت کیوں دکھائی نہیں دیتا۔ کیوں اسی صورت دکھائی نہیں دیتا جس کا تصور قائد اعظم محمد علی جناح اور حکیم الامت شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے دیکھا تھا۔
عین اس لمحہ نہ جانے کیوں غیب سے مجھے اچانک یکم مارچ 1940ء یاد آیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح اسلامیہ کالج لاہور مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن جس کے بانی صدر میرے دوست اور مرشد حمید نظامی کالج ریلوے روڈ لاہور کے طالب علموں کو خطاب کرنے کیلئے تشریف لائے تھے میں اس وقت گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتا تھا اور مجید نظامی کے ساتھ اس جلسہ میں ایک سائیڈ پر کھڑا سٹیج کی سیکورٹی پر مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی طرف سے گارڈ ڈیوٹی پر مامور تھا۔ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور کا وسیع سبزہ زار ہزاروں طلبہ کے علاوہ اردگرد کے مکانوں کی چھتوں اور جھروکوں سے بھرا ہوا تھا یکایک قائد اعظم کی آواز جلسہ کا آغاز ہوتے ہی گونجی۔ "LADIES & GENTLEMEN" ان کا یہ دو لفظ فرمانا تھا کہ چاروں طرف سے درجنوں عورتوں اور مردوں کی آوازیں آئیں۔ ’’اردو - اردو‘‘ قائد اعظم ایک لمحہ کے لئے رکے اور پھر بولے۔ "LADIES & GENTLEMEN" اس پر مجمع خاموش ہو گیا صرف آوازیں آئیں ’’اردو- اردو‘‘ جس پر قائد اعظم گرج کر بولے۔ "LADIES & GENTLEMEN" ان کی آواز میں اس قدر جلال تھا کہ چاروں طرف اچانک سکوت کا عالم چھا گیا۔ اس سکوت میں قائداعظم محمد علی جناح شیر کی گرج کی طرح یہ تاریخ ساز الفاظ بولے۔
"LADIES & GENTLEMEN" TODAY IS THE FIRST MARCH پھر اپنا دایاں بازو اٹھایا اور گرجے LET US MARCH ON میں نے ایوان نظریہ پاکستان میں موجود صدر مملکت کی موجودگی میں مختصراً یکم مارچ 1940ء کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اپنے دل کی گہرائیوں سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ کاش آج یکم مارچ 2018ء کے روز سعید پر پوری قوم ایمان اتحاد اور ڈسپلن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک روشن مستقبل کی طرف قدم آگے بڑھائے۔
صدر مملکت نے میری دعا پر آمین فرمایا اور راقم کے جذبات کو سراہا۔ میری جناب ممنون حسین سے یہ پہلی ملاقات نہ تھی بلکہ اس سے قبل وہ مجھے یہ اعزاز دے چکے تھے کہ دو بار پاکستان نیشنل فورم کے ہمراہ جس کا میں صدر ہوں ہمیں ایوان صدر میں ملاقات اور ظہرانے کا اعزاز عطا فرمایا جس کیلئے فورم کے تمام ممبران ان سے یہ دو ملاقاتیں کرنے کے بعد انہیں نہایت ہی شفیق اور مہربان شخصیت تصور کرتے ہیں جو اپنے عہدہ جلیلہ کے فرائض ادا کرتے ہوئے ملکی معاملات میں اپنے فرائض نہایت عمدگی اور تن دہی سے نہایت مثبت قائدانہ انداز میں ادا کر رہے ہیں جس کی نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی ان کے دوروں کے بعد عالمی قیادت اور بیرونی میڈیا نے ان کی خدمات اور کردار کو سراہا ہے۔
اپنے خطاب میں صدر مملکت نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور کارکنان تحریک پاکستان کی عظیم خدمات کو سراہا اور ہر دو کی قیادت یعنی جناب مجید نظامی اور موجودہ صدر جسٹس محمد رفیق تارڑ و جسٹس میاں محبوب احمد کی خدمات کو سراہتے ہوئے یہ عظیم مشن جاری رکھنے پر مبارکباد دی۔ انہوں نے اس سلسلہ میں خاص طور پر ایوان قائداعظم کی نئی بلڈنگ کو نظریہ پاکستان کے بارے میں تحقیق کی ایک یونیورسٹی قرار دیتے ہوئے گورنمنٹ کی طرف سے ماضی کی طرح ہر قسم کی مدد کو جاری رکھنے کا بھی وعدہ کیا۔ موجودہ حالات کے بارے میں انہوں نے قوم کو یاد دلایا کہ قائداعظم نے 1948ء میں پنجاب یونیورسٹی گرائونڈ میں قوم کو خطاب کرتے ہوئے یاد دلایا تھا کہ مسلمان کسی بھی مصیبت سے گھبرایا نہیں کرتے اگر ہم قائداعظم کے واضح فرمودات اور نئی ریاست کو کامیابی سے اپنی منزل کی طرف لے جانا چاہتے ہیں تو ہمیں صبر اور تحمل کے ساتھ انصاف کا دامن پکڑے ہوئے ایک روشن مستقبل کی طرف آگے بڑھنا ہے۔ ہم نے ریاست کے تمام ستونوں کی باہمی یکجہتی سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کی ہے اور انشاء اللہ دیگر مشکلات پر بھی ہم عوام کی خواہشات کے مطابق انتخابات کی طرف آگے بڑھتے ہوئے ایک جدید اسلامی جمہوری اور فلاحی مملکت کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے اقوام عالم میں جلد ایک اعلیٰ اور باعزت مقام حاصل کرینگے۔ اس تقریر کی دیگر تفصیلات قارئین کو اخبارات اور مختلف چینلز سے مل جائیں گی۔ اس کالم کی محدود جگہ کی قلت کے باعث مزید کچھ کہنا ممکن نہیں ہے۔ مختصراً عرض یہ ہے کہ صدر مملکت نے اپنی لاہور آمد میں قوم کو فکری اتحاد کا درس دیا جس سے مایوسی اور خوف ختم ہو جانا چاہئے اور قوم کو اپنی منزل کی طرف گامزن ہونے میں مکمل یقین محکم پیدا کرنا لازم اور ضروری ہے۔
پاکستان زندہ باد!