اگر نواز شریف نے ہسٹری پڑھی ہوتی تو۔۔۔۔

Mar 02, 2018

سید سردار احمد پیرزادہ

اگر نواز شریف نے ہسٹری پڑھی ہوتی تو وہ یہ نہ پوچھتے کہ انہیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے؟ اگر نواز شریف نے ہسٹری پڑھی ہوتی تو وہ یہ نہ کہتے کہ اُن کے خلاف دیئے جانے والے فیصلے سنہری حروف کی بجائے کالے حروف سے لکھے جائیں گے۔ اگر نواز شریف نے ہسٹری پڑھی ہوتی تو وہ یہ نہ چلاّتے کہ انہیں ایسے فیصلے منظور نہیں ہیں۔ اگر نواز شریف نے ہسٹری پڑھی ہوتی تو انہیں یاد ہوتا کہ گزشتہ 70 برسوں سے نکالے جانے والے وزرائے اعظم کے جذبات بھی یہی تھے جو اَب نواز شریف کے ہیں۔ اگر نواز شریف نے ہسٹری پڑھی ہوتی تو انہیں یاد ہوتا کہ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کی مبینہ خراب ایمبولینس میں موت پر باربار سوالات اٹھنے کے باوجود حکومتیں سات دہائیوں سے خاموش کیوں ہیں۔ اگر نواز شریف نے ہسٹری پڑھی ہوتی تو انہیں یاد ہوتا کہ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے مبینہ پراسرار قتل کے کھوج کے لئے دی جانے والی درخواستیں کن کالے کمروں میں گم ہو گئیں۔ اگر نواز شریف نے ہسٹری پڑھی ہوتی تو انہیں یاد ہوتا کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل کے مخفی محرکات اور مشکوک تحقیقات کے بعد کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ مقتول لیاقت علی خان کو انصاف مل گیا ہے؟ نواز شریف اِن دنوں مولوی تمیز الدین کیس کی مثالیں دے کر کالے فیصلوں کی کالی تاریخ لوگوں کو بتارہے ہیں۔ اگر نواز شریف نے ہسٹری پڑھی ہوتی تو انہیں یاد ہوتا کہ یہ پاکستانی جمہوریت کی ہسٹری میں ایک بڑا کالا فیصلہ تھا لیکن مولوی تمیز الدین کے واویلے اور جج کارنیلیس کے اختلافی نوٹ کے باوجود جسٹس محمد منیر کے کالے فیصلے کو واپس نہیں لیا گیا۔ اگر نواز شریف نے ہسٹری پڑھی ہوتی تو انہیں یاد ہوتا کہ جنرل یحییٰ کے مارشل لاء کے خلاف عاصمہ جہانگیر کے والد ملک غلام جیلانی کے احتجاج پر اُن کی گرفتاری کا فیصلہ ہسٹری کا کالا فیصلہ قرار پانے کے باوجود بھی آئندہ آنے والی غیرجمہوری گرفتاریوں کو روک نہیں سکا۔ اگر نواز شریف نے ہسٹری پڑھی ہوتی تو انہیں یاد ہوتا کہ بیگم نصرت بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا اور سپریم کورٹ نے اُن کی درخواست نظریہ ضرورت کی دلیل پر مسترد کردی تھی۔ نظریہ ضرورت کا لفظ عدالتی فیصلوں میں کالا تسلیم ہونے کے باوجود ،کیا جمہوریت کو ریلیف مل گیا؟ اگر نواز شریف نے ہسٹری پڑھی ہوتی تو انہیں یاد ہوتا کہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی چڑھانے والے عدالتی فیصلے کو تاریخ کے کالے ترین فیصلے کا مقام ملنے کے باوجود بھی پاکستانی جمہوریت کو کالے فیصلوں نے ڈسنا نہیں چھوڑا۔ اگر نواز شریف نے ہسٹری پڑھی ہوتی تو انہیں یاد ہوتا کہ جب جنرل ضیاء الحق نے اپنے ہی نیم جمہوری پودے کو اکھاڑنے کا ارادہ کیا اور محمد خان جونیجو کی حکومت کو برخاست کردیا تو وہ اس کالے فیصلے کی کالک سے خود بھی ڈسٹرب ہوگئے تھے کیونکہ جنرل ضیاء الحق کے قریبی لوگوں نے بتایا کہ اس کے بعد وہ غیرمعمولی ذہنی ٹینشن میں آگئے اور اُس شام وہ معمول سے ہٹ کر دیر تک لان میں چہل قدمی کرتے رہے۔ کیا جنرل ضیاء الحق کے اس پچھتاوے نے مستقبل کی اسمبلیوں کو برخاست کرنے کے کالے فیصلوں کے آگے کوئی بند باندھا؟ اگر نواز شریف نے ہسٹری پڑھی ہوتی تو انہیں یاد ہوتا کہ بینظیر کی حکومت گرانے اور آئی جے آئی کو بھی جمہوری ہسٹری میں کالے فیصلے ہی لکھا جاتا ہے۔ اگر نواز شریف نے ہسٹری پڑھی ہوتی تو انہیں یاد ہوتا کہ پاکستان میں نوے کی دہائی میں کون کون سے صدارتی و عدالتی کالے فیصلے ہوئے، کون کون سے بل پارلیمنٹ میں نیتوں کو کالا کرگئے، کون کون سے ہارس ٹریڈنگ جیسے کالے ہتھکنڈے حکومتیں بچانے کے لئے استعمال کئے گئے اور کون کون سی اخلاقی تذلیل کے کالے راستے اپوزیشن کو مات دینے کے لئے مخالفین کے خلاف اپنا ئے گئے۔ اگر نواز شریف نے ہسٹری پڑھی ہوتی تو انہیں یاد ہوتا کہ مارشل لاء ایک کالا طرزِ حکومت ہونے کے باوجود مستقبل کے مارشل لائوں کا گلا نہ دبا سکا اور 1999ء میں چوتھی مرتبہ پھر مارشل لاء لگا دیا گیا۔ اگر نواز شریف نے ہسٹری پڑھی ہوتی تو انہیں یاد ہوتا کہ اُن کی جمہوریت کا ساتھ دینے والے کئی سیاست دان کالا فیصلہ کرکے جنرل مشرف کے ہم آواز بن گئے اور مارشل لاء کی کالی چھتری کے زیر سایہ جمہوریت کا تانگہ چلانے پر فخر کرتے رہے۔ اگر نواز شریف نے ہسٹری پڑھی ہوتی تو انہیں یاد ہوتا کہ جنرل مشرف کی کالی قید سے اُن کا ایک کالی رات کو اپنے خاندان سمیت جلاوطنی کے لئے سعودی عرب چلے جانے کو بھی لوگ ایک کالے فیصلے سے ہی تعبیر کرتے ہیں۔ اگر نواز شریف نے ہسٹری پڑھی ہوتی تو انہیں یاد ہوتا کہ ن لیگ نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر مارشل لاء ڈکٹیٹر جنرل مشرف سے کالی پٹیاں باندھ کر وزارتوں کا حلف لینے کا کالا فیصلہ کیا تھا۔ اگر نواز شریف نے ہسٹری پڑھی ہوتی تو انہیں یاد ہوتا کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹانے کو بھی پیپلز پارٹی والے کالا فیصلہ ہی کہتے ہیں۔ اگر نواز شریف نے ہسٹری پڑھی ہوتی تو انہیں یاد ہوتا کہ غریب اور ماتحت جمہوریتوں میں انقلابی اقدامات کالے کردیئے جاتے ہیں۔ ان ملکوں کے نظام میں تبدیلیاں گھڑی کی سوئی کی ٹک ٹک کی طرح آہستہ آہستہ سفر طے کرتی ہیں اور ان ملکوں میں حکومتوں کے آنے جانے کا تعلق بیرونی طاقتوں سے بھی ہوتا ہے۔ اگر نواز شریف نے ہسٹری پڑھی ہوتی تو انہیں یاد ہوتا کہ بیرونی طاقتوں میں اُن کے تین بہترین دوستوں سعودی عرب، ترکی اور چین کے ہونے کے باوجود، اب وہ خودحکومت میں نہیں ہیں۔ اگر نواز شریف نے ہسٹری پڑھی ہوتی تو انہیں یاد ہوتا کہ بعض اوقات اقتدار سے نکالنے کا راستہ موت کی راہداری سے ہوکر جاتا ہے مثلا ًجیسا کہ ابراہم لنکن ، جان کینیڈی ، اندراگاندھی ، راجیو گاندھی، صدام حسین، لیاقت علی خان، جنرل ضیاء الحق، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹووغیرہ کے ساتھ ہوالیکن نواز شریف تین مرتبہ اقتدار سے نکل کر خوش قسمتی سے محفوظ راہداری کے ذریعے پبلک تک پہنچ گئے۔ اگر نواز شریف نے ہسٹری پڑھی ہوتی تو انہیں یاد ہوتا کہ غریب اور ماتحت جمہوریتوں میں حکمرانی کے آئینی عرصے کے حق کو دل سے نہیں لگایا جاتا کیونکہ اِن ممالک میں حکمرانی کا آئینی عرصہ وہی ہوتا ہے جتنا عرصہ وہ حکمران حکومت کر جائے۔ اگر نواز شریف نے ہسٹری پڑھی ہوتی تو انہیں یاد ہوتا کہ بیشک ہسٹری ان فیصلوں کو کالا ہی مانتی ہے لیکن ہسٹری کے ماننے سے کچھ نہیںہوتا۔ سات دہائیوں سے سنہری فیصلے نہ سہی لیکن ہر روز ایک سنہرا سورج ضرور نکل رہا ہے۔

مزیدخبریں