آئین کی آرٹیکل 203کے حوالے سے سپریم کورٹ نے فیصلہ صادر کردیا ہے۔ ہم عدالتوں کا بے حد احترام کرتے ہیں ، فیصلے کے تجزئے ، نکتہ چینی یا تنقید کی جسارت ہرگز نہیں کرینگے۔ مگر اب جبکہ فیصلہ آچکا ہے، جو یقینا آئین اور قانون کیمطابق ہو گا، سیاسی تجزیہ نگار کی حیثیت سے ہماری عاجزانہ رائے ہے کہ اس فیصلے سے ناخوشگوار ماحول کو خوشگوار بنانا ممکن تھا۔ لیکن فاضل جج ہی بہتر رائے دے سکتے ہیں، ان کی نظریں تاریخ اور مستقبل پر ہوتی ہیں۔نا اہلی کی مدت کے حوالے سے بھی فیصلہ آنے کا امکان ہے۔ مگر صدارت سے محرومی کے بعد اب صورتحال تبدیل ہو گئی ہے۔ نواز شریف ایک بڑے سیاستدان ہیں۔ انہوں نے جیل بھی دیکھی ہے اور اٹک قلعہ بھی، انہوں نے باتاج حکمرانی بھی دیکھی ہے اور جلا وطنی بھی، انکی شخصیت ہی عجب طرز کی بے نیازی ہے۔وہ خود کو بظاہر نرم مزاج اورکمزور شخصیت ظاہر کرتے ہیں مگر اندر سے چٹان کی طرح مضبوط ہیں۔ نواز شریف کا Sense of humourبلا کا ہے۔ اب جیسی صورتحال ہے وہ اسے بھی Enjoyکرتے ہیں۔چھوٹے دلچسپ جملے بول کر مایوسی کی فضاء کو خوشگوار ماحول میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ان کا سب سے بڑا اثاثہ انکی مقبولیت ہے۔ جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ ان کا بیانیہ جو بھی ہے عوام میں جنون کی کیفیت پیدا کررہا ہے۔ پنجاب میں خاص طورپر اپنے قائد لیڈر رہنما کے حوالے سے پر جوش محبت کی کیفت ہے۔ نواز شریف لوگوں کے دلوں میں آباد ہے۔مسلم لیگ ن ہومسلم لیگ (ش) ہو یا مسلم لیگ (مریم نواز) جس مسلم لیگ کو نواز شریف کی Supportہوگی کامیاب ہوگی۔
میاں نواز شریف ،ہر طرح کی صورتحال میں پر سکون رہتے ہیں۔ وہ افراتفری کی فضاء کو پسند نہیں کرتے۔ اب ٹکرانے والے تو ٹکراناچاہتے ہیں۔ مگر نواز شریف ٹکرانے کیخلاف ہیں۔ٹکرانے کی بجائے وہ ’’ سیاسی جنگ‘‘ لڑنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ایسی جنگ، جس میں جمہوریت کی جیت ہو۔ وہ صبر سے حالات کا مقابلہ کرتے رہیں گے۔ کسی صورت میں مشتعل نہ ہونا انہوں نے طے کرلیا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ وہ عوام سے رابطوںکو انتہا پر لے جائینگے۔
شدید دبائو کے باوجود مخالفین جو حالات سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں ان کوکچھ حاصل نہیں ہو سکا۔ جب سے مجیب الرحمن کے ساتھ واقعات اور کامیابی کے باوجود حکومت نہ دینے کی تاریخ کا ذکر ہوا،محب وطن حلقے اکثریت کو قوت اور چالوں سے دبانے کے سخت خلاف ہیں۔ سوال نواز شریف کا نہیں سوال پاکستان کا ہے۔آصف زرداری، اب ’’ بابائے قوم‘‘ بننے کی کوشش ناکام کر رہے ہیں۔ بعض طاقتور افراد کی مدد سے انہوں نے سینٹ میں مسلم لیگ ن کیلئے حالات خراب کردیئے ہیں۔کوتاہی مسلم لیگ ن کی بھی ہے جو پہلے سے ’’تھینک ٹینک‘‘ کے ذریعے دوسری جماعتوں کے حربوں اور ہتھکنڈوں کا اندازہ نہیں لگا پاتی۔مگر اصل پلیٹ فارم قومی اسمبلی ہے، وزیراعظم کا الیکشن جو حکومت بنا تھا ہے یا بناتی ہے، قومی اسمبلی کرتی ہے۔ یہاں آصف زرداری کی شکست نوشتۂ دیوار بن چکی ہے۔پنجاب میں اصل مقابلہ مسلم لیگ ن اور PTIمیں ہو گا۔ عمران خان شادیوں کے ذریعے قلبی اور ذہنی سکون حاصل کر رہے ہیں، کیونکہ ان کے ستارہ شناسوں نے ان کو بتلا دیا ہے کہ پنجاب میں PTIسخت ہار سے دو چار ہو گی۔ ووٹوں کا فرق نا قابل بیان ہو گا اور اکثر حلقوں میں الیکشن یکطرفہ ہو جائیگا۔ سیاست ایک الگ اور مختلف شعبہ ہے۔ یہ کتابوں اور دانشوروں کی باتوں سے بہت مختلف ہے۔ یہ ہوا کہ لہر کی طرح ہے، جس کی ہوا چل گئی، چل گئی۔آج کے پاکستان میں عام طور پر اور پنجاب میں خاص طور پر مسلم لیگ کی لہرہے۔ آ پ ن ہٹا دینگے تو یہ مسلم لیگ (مریم نواز) ہوجائیگی۔