پچھلے مہینے چیف آف دی دی آرمی سٹاف جنرل باجوہ نے کوئٹہ کے ایک سیمینار میں دیگر موضوعات کے علاوہ دینی مدارس کے حوالے سے بھی گفتگو کی تھی۔ موصوف نے کہا تھا کہ وہ دینی مدارس کیخلاف نہیں مگر مدارس اصل مقصد فراموش کر چکے ہیں۔ جس پر نظرثانی کی ضرورت ہے تاکہ مدارس کے فارغ التحصیل سماج کیلئے مزید مفید اور مثبت کردار ادا کر سکیں۔ مذہبی تعلیم کی اہمیت اپنی جگہ مگر جدید تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے مدارس کے طلبا زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ فی الوقت کم و بیش 25 لاکھ طلبا دینی مدارس میں پڑھ رہے ہیں۔ ان کا مستقبل کیا ہے۔ یہی نا کہ وہ مولوی بن جائیں اور کوئی مسجد سنبھال لیں۔ مگر اتنی مساجد کہاں سے آئیں گی؟ جنرل باجوہ نے نہایت دلسوزی سے کہا تھا کہ 21 کروڑ کی یہ قوم‘ ناقص تعلیم کی وجہ سے پسماندگی کا شکار ہے۔ اس کیلئے کچھ کرنا ہو گا۔
دین اسلام میں مدرسہ کی روایت بہت قدیم ہے۔ پہلا مدرسہ مسجد نبویؐ سے متصل وہ چبوترہ تھا‘ جہاں جناب رسالتمآبؐ سے براہ راست فیض یاب ہونیوالوں کا ہر وقت ہجوم رہتا اور جنہیں تاریخ میں اصحاب صفہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسلام میں تحصیل علم کی بے پناہ تاکید آئی ہے۔ علم مرد و زن ہر دو کیلئے لازم ٹھہرا۔ حصول علم کو ایک مسلسل عمل قرار دیا گیا‘ مہد سے لیکر لحد تک کی تاکید آئی۔ اور پھر اس گوہر نایاب کی تلاش میں اگر دور دراز مقامات حتیٰ کہ چین تک بھی جانا پڑے تو مضائقہ نہیں۔ یہ اس ترغیب و تاکید کا نتیجہ تھا کہ دنیائے اسلام میں درس و تدریس کے مراکز کا ایک جال سا بچھ گیا۔ جن میں دینی اور دینوی دونوں طرح کی تعلیم دی جاتی تھی۔ دعویٰ تو یہ کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے دینی مدارس میں آج کل وہ نصاب پڑھایا جا رہا ہے‘ جس کی تدوین و ترتیب دسویں صدی عیسوی میں عباسیوں کے وزیر باتدبیر نظام الملک نے کی تھی اور اسے درس نظامیہ کا نام دیا گیا تھا۔ مگر یہ دعویٰ درست نہیں‘ ہمارے ہاں کے مدارس کے نصاب کو زیادہ سے زیادہ درس نظامیہ کی بگڑی ہوئی شکل کہا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اصل درس نظامیہ میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ طبیعات‘ ریاضیات‘ فلکیات‘ فن تعمیر‘ سیاسیات اور زبان و ادب جیسے جدید علوم بھی پڑھائے جاتے تھے۔ جو بتدریج نصاب سے غائب ہوتے چلے گئے اور مدارس کو کلیتہً دینی علوم کیلئے وقف کر دیا گیا اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری و ساری ہے۔ اس دوران زمانہ قیامت کی چال چل گیا اور دنیا کی مکمل کایا کلپ ہو گئی۔ کوئی انسٹی ٹیوشن اگر ساکت و جامد رہا تو وہ دینی مدارس ہیں۔ وہی صدیوں پرانا نصاب‘ وہی طرز تدریس‘ وہی معلم اور وہی متعلم‘ جن کے والدین انہیں دنیا میں لانے کے علاوہ کوئی بھی ذمہ داری اٹھانے کے روادار نہیں۔ سو مدرسوں میں چھوڑ جاتے ہیں۔
درس نظامی کے حوالے سے برصغیر میں پہلی بڑی تبدیلی جہانگیر کے زمانہ میں ہوئی‘ فلسفہ قانون اور طب کے مضامین شامل نصاب ہوئے۔ اورنگ زیب عالمگیر کے آخری دنوں میں نصاب پر پھر سے نظرثانی ہوئی اور فتاویٰ عالمگیری کے علاوہ شیخ احمد سرہندی کی فقہ اور فتویٰ پر لکھی کتب کو بھی شامل نصاب کر لیا گیا اور انکی جگہ بنانے کیلئے تصوف خارج از نصاب قرار پایا۔ مغلوں کی سرکاری درباری زبان فارسی بھی مدارس میں پڑھائی جاتی تھی۔ انگریز نے اسکی جگہ انگریزی کو سرکاری‘ تعلیمی اور ملازمتی زبان بنایا تو مدارس مین سٹریم سے نکل کر کونوں کھدروں میں چلے گئے۔ غرض جوں جوں جدید علوم کا شہرہ ہوتا گیا‘ دینی مدارس نے اپنی اقدار و روایات کو ’’کفر‘‘ کے غلبہ سے بچانے کیلئے خالص مذہبی تعلیم میں پناہ ڈھونڈھی اور اپنے تئیں محفوظ ہو گئے۔ یوں دینی اور دینوی تعلیم کی تفریق روز بروز پختہ ہوتی چلی گئی۔ یہ تصور اس وقت بھی تھا اور آج بھی ہے کہ مدارس کے نصاب میں کسی قسم کی تبدیلی لادینیت کو فروغ دینے کے مترادف ہو گی اور ایک ایسے کلچر کی حوصلہ افزائی کریگی جو اسلامی تہذیب و تمدن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گا۔
ابتدا میں پاکستان میں ریاست کو مدارس سے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ مگر جب حالات نے پلٹا کھایا‘ مدارس میں سیاست در آئی‘ پیسے کی ریل پیل ہوئی پھر انکے جذبہ جہاد کو تزویری اثاثے کے طور پر استعمال کیا گیا تو انگلیاں اٹھنے لگیں کہ ان میں سے بعض تو دہشت گردی میں ملوث ہو گئے ہیں۔ اس پر سرکار کو بھی جھرجھری سی آئی اور اصلاح مدارس کا ڈول ڈالا گیا۔ طے پایا کہ اول انکی رجسٹریشن کی جائے اور پھر نصاب کو جدید دور کے تقاضوں کیمطابق ڈھالا جائے۔ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ انگریزی‘ مطالعہ پاکستان‘ ریاضی‘ معاشیات‘ جنرل سائنس اور کمپیوٹر وغیرہ کو بھی شامل نصاب کریں تاکہ مدارس کے فارغ التحصیل معاشرہ کیلئے اجنبی نہ رہیں بلکہ اس میں پوری طرح سے ضم ہو جائیں اور ان پر اعلیٰ تعلیم اور اچھی ملازمتوں کے دروازے کھلیں۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں تھی مگر بھرپور مزاحمت ہوئی‘ اور سرکار پسپا ہوتی رہی۔ یہی نہیں اس دوران روائتی سکول سسٹم کی تباہی کے سبب دینی مدارس کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ پاکستان میں مدارس کی تعداد جو آزادی کے وقت صرف 189 تھی بڑھ کر 50 ہزار کے لگ بھگ ہو چکی ہے۔ مدارس کی اس غیر معمولی افزائش میں بعض مسلم ریاستوں کا بھی کردار رہا ہے۔ فقہی بنیادوں پر مدارس کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ افق تا افق پھیلی حد درجہ غربت کے تناظر میں اگر کہیں مفت کی روٹی اور رہائش کے ساتھ فری تعلیم بھی مل رہی ہو تو مدارس کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ پر حیرت نہیں ہونا چاہئے۔
مئی 2008ء میں اسلام آباد کے امریکی سفارت خانہ سے بھجوائے گئے ایک سفارتی پیغام میں کہا گیا تھا کہ بعض خلیجی ریاستوں کی مالی مدد کے زیراثر پاکستان کے مدارس کو انتہا پسندی کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔ ان مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والوں کا ایک ہی مصرف ہے کہ نئی دیگر برانچوں میں پڑھائیں یا پھر جہادی بن جائیں۔ اور یہ فیصلہ اساتذہ کرتے ہیں کہ کس کو کدھر جانا ہے۔ بطور اساتذہ محدود کھپت کے سبب زیادہ تر بچوں کو جنگی ایندھن کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
مدارس کو جدید بنانے کی غرض سے حکومت نے کراچی‘ سکھر اور اسلام آباد میں ماڈل مدارس کا اہتمام کیا۔ جن میں دینی علوم کے علاوہ جدید علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں۔ یہ تجربہ بے حد کامیاب رہا اور ان اداروں کے فارغ التحصیل طلبا نے نہ صرف بورڈ اور یونیورسٹی کے پبلک امتحانات میں پوزیشنز لیں‘ مرکزی اور صوبائی کمشنوں کے ذریعے باعزت ملازمتیں بھی حاصل کیں۔ پنجاب پبلک سروس کمشن کے تحت پی سی ایس کا امتحان پاس کرنے والے راولپنڈی کے ایک ایسے ہی نوجوان نے راقم کو بتایا تھا کہ مدرسے نے اسکی اردو‘ عربی اور اسلامیات کو خوب چمکا دیا تھا‘ صرف انگریزی‘ مطالعہ پاکستان اور بعض دیگر مضامین کا مسئلہ تھا۔ جونہی ان کی تدریس کا بندوبست ہو گیا تو یوں لگا کہ گویا پوری دنیا اس کے سامنے کھلی پڑی ہے۔ مگر افسوس کہ یہ روشن مثالیں بھی مدارس کو اصلاح نصاب کے لئے قائل نہ کر سکیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ نصاب میں معمولی ترمیم و اضافہ سے مدارس کو وہ قبول عامہ حاصل ہو گا کہ شاید و باید۔ کیونکہ اس دھرتی کے لوگ دینی روایت کے ساتھ پختگی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور کسی ایسے نظام تعلیم کی تلاش میں ہیں جو ان کے بچوں کی دینی اور دینوی ضروریات کو پورا کرتا ہو۔ روایتی نظام تعلیم دم توڑ چکا۔ سرکاری سکول انحطاط کی آخری حدوں کو چھو چکے اور بتدریج بند ہوتے جا رہے ہیں۔ گلی کوچوں میں کھلنے والے نجی ادارے پنپ رہے ہیں مگر تعلیم کے نام پر جہالت پھیلا رہے ہیں۔ جو برداشت کر سکتے ہیں‘ ہزاروں‘ لاکھوں کے اخراجات والے نامی گرامی اداروں کے پیچھے پڑے ہیں۔ مگر مطمئن کوئی بھی نہیں۔ ایسے میں دینی مدارس معجزہ برپا کر سکتے ہیں۔ دینی و دینوی علوم سے مرصع ان اداروں کے فارغ التحصیل طلبا و طالبات پاکستانیت کی سچی تصویر ثابت ہو سکتے ہیں۔
بلاشبہ پاکستانی ایک باصلاحیت قوم ہیں۔ جس کے بارے میں حضرت قائداعظمؒ نے فرمایا تھا کہ یہ دنیا کی رہنمائی کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مگر شومئی قسمت سے اس عظیم قوم کو شایان شان قیادت میسر نہیں آ سکی۔ قائدؒ نے ایک بکھرے ہجوم کو قوم کی شکل دی تھی‘ جسے نااہل قیادت نے پھر سے منتشر ہجوم میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ دنیا چھوٹے سے چھوٹے کام کے لئے بھی باقاعدہ منصوبہ بندی کرتی ہے اور ہمارے لیڈر بغیر کسی پلاننگ کے اتنا بڑا ملک چلا رہے ہیں جو ایک جوہری طاقت بھی ہے۔ جملہ ریاستی امور کو تقدیر کے حوالے کر رکھا ہے۔ اس مجرمانہ بے عملی کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے‘ اول تا آخر انتشار۔ ایسے میں جنرل باجوہ کی ویک اپ کال برمحل ہے۔ آیئے‘ مل جل کر ایک قوم بن کر اس دلدل سے نکلنے کی سنجیدہ کوشش کریں۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔