بعض لوگ بہت ہوشیار ہیں 57 کروڑ لے کر سینٹ ٹکٹ بھی لے گئے: مولانا فضل الرحمان
چالاکی بھی یہی ہے کہ بندہ سانپ بھی مارے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ اکوڑہ خٹک والوں نے جب یہ دیکھا کہ جماعت اسلامی والے اکیلے اکیلے تحریک انصاف جیسی لبرل جماعت کے ساتھ مل کر خیبر پی کے میں حکومت کے مزے لوٹ رہے ہیں‘ اچھے اچھے محکموں کی وزارتوں پر قابض ہیں‘ ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے۔ پھر بھی ان کے اسلامی نظام والے نعروں میں خلل نہیں آ رہا تو وہ کیوں پیچھے رہیں۔ سو اب اسی طرف مولانا فضل الرحمان نے اشارہ کیا ہے کہ ہوشیار لوگ 57 کروڑ بھی ڈکار گئے اور سینٹ کا ٹکٹ بھی ہتھیا لیا۔ ورنہ پہلے طے یہ تھا کہ تحریکی ممبر مولانا سمیع الحق کو سینٹ الیکشن میں ووٹ دیں گے پھر طالبانائزیشن کا شور اٹھا تو تحریک والوں کے غبارے سے ہوا نکل گئی اور وہ دنیا میں اپنا سوفٹ امیج برقرار رکھنے کے لئے مولانا سمیع الحق سے نئی ڈیل کر بیٹھے کہ 57 کروڑ مدرسے کو امداد دیں گے آپ الیکشن نہ لڑیں۔
مولانا نے 57 کروڑ کی امداد بھی لی اور بعد میں آرام سے سینٹ کے امیدوار بھی بن گئے۔ اب مولانا جانیں اور تحریک انصاف والے۔ اس سارے کھیل میں مولانا فضل الرحمان کو کیا پریشانی ہے۔ وہ خود بھی تو اقتدار میں اور اپوزیشن میں بھی یعنی ایک ٹکٹ میں دو مزے لے رہے ہیں۔ حکومت کو ضرورت ہو تو اس کی مدد کرتے ہیں عوام کو مطمئن کرنے کے لئے اپوزیشن کا لیبل سجا لیتے ہیں۔ اب اگر ایک ہوشیار ہے تو دوسرا چالاک۔ دیکھنا ہے آنے والے الیکشن میں کیا ہوتا ہے۔ عوام تو دینی ہو یا سیاسی دونوں جماعتوں کے کردار سے آگاہ ہو چکے ہیں کہ ان سب کا مطمع نظر صرف اور صرف اسلام آباد ہے۔ عوام کے مسائل سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔
٭…٭…٭…٭
بین الاقوامی ریاضی کے مقابلے میں پاکستانی طالبعلم نے گولڈ میڈل جیت لیا۔
بنکاک میں ہونے والے ریاضی کے اس مقابلے میں 17 ممالک نے حصہ لیا۔ مگر میدان ہمارے ہونہار طالب علم جعفررضا کی ٹیم نے مار لیا۔ جس پر پوری قوم انہیں مبارکباد پیش کرتی ہے۔ ریاضی ایک ایسا مضمون ہے جس سے ہر ایک کی جان جاتی ہے۔ میٹرک تک یہ لازمی ہے۔ مگر بچے اس سے یوں بھاگتے ہیں جیسے انگریزی سے بھاگتے ہیں۔ سرکاری سکولوں میں تو اکثر بچے ان دونوں مضامین کی وجہ سے فیل ہوتے ہیں یا سکول چھوڑتے ہیں۔ انور مسعود نے کیا خوب کہا ہے…؎
دوستو انگلش بہت ضروری ہے ہمارے واسطے
فیل ہونے کو بھی ایک مضمون ہونا چاہئے
ذرا سی تبدیلی کے ساتھ اس شعر میں اگر ریاضی کو بھی شامل کیا جائے تو یہ دوآشتہ ہو سکتا ہے۔ لڑکیوں کو پڑھائی کے معاملے میں کائیاں کہا جاتا ہے مگر وہ بھی ریاضی میں 2 جمع2 سے آگے نہیں جاتیں۔ ہمارے بزرگ اس مضمون کو خاص ہندو بنیئے سے جوڑتے تھے کہ وہ حساب کتاب میں ماہر ہوتے ہیں۔ شاید اس لئے بھی بحیثیت مسلمان ہم ریاضی سے محبت نہیں کرتے اور اس مشکل مضمون سے جان چھڑاتے ہیں۔ مگر جب کبھی جعفررضا جیسے بچے ریاضی میں کامیابی کے جھنڈے گاڑتے ہیں تو کچھ امید پیدا ہو جاتی ہے کہ اب ہمیں بھی اس مضمون کی اہمیت کا اندازہ ہو گیا ہے اور ہم اس میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ خدا کرے یہ سلسلہ مزید آگے بڑھے۔
٭…٭…٭…٭
سندھ سیکرٹریٹ میں لگنے والی آگ فائر آفیسر نے مشکوک قرار دے دی۔
جب چھٹی کے دن کسی سرکاری بلڈنگ میں آگ لگے گی وہ بھی اس طرح کے سارے دفتر بند ہوں مگر جہاں آگ لگی ہے اس عمارت کا مرکزی دروازہ کھلا ہو اور عقبی یعنی پچھلا دروازہ بھی کھلا ہو تو شکوک خود بخود پیدا ہوں گے۔ آخر چھٹی والے دن یہ آگ لگی تو لگی کس طرح؟ اس روز تو یہاں نہ کوئی سگریٹ پیتا ہے نہ ماچس جلاتا ہے نہ بجلی کے سوئچ آن آف کرتا ہے تو پھر یہ شعلہ بھڑکا تو بھڑکا کیسے یہ تو…؎
شمع کا شعلہ بھڑک رہا ہے دل پروانہ دھڑک رہا ہے
رنگ برنگی رات بڑی رنگین ہے ہائے بڑی سنگین ہے
والی بات لگ رہی ہے۔ یہ شعلہ ہمیشہ سرکاری دفاتر کے ان حصوں میں ہی کیوں بھڑکتا ہے جہاں ضروری کاغذات پڑے ہوتے ہیں یا ریکارڈ رکھا گیا ہوتا ہے۔ لاہور ہو یا کراچی پشاور ہو یا کوئٹہ جہاں بھی دیکھیں ایک ہی طرز کی بڑی رنگین وسنگین کہانی سامنے آتی ہے۔ صرف ریکارڈ جلتے ہیں۔ آگ لگانے والے ریکارڈ جلانے والے بچ جاتے ہیں۔ یوں بہت آسانی سے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا جاتا ہے۔ ہزاروں قصے کہانیاں راکھ کے ڈھیر تلے دب جاتی ہیں۔ اب کون راکھ کریدے اور حقائق معلوم کرے۔ یہ بڑا اچھا فارمولا ہے جو کرپشن کے تاریخی کارنامے چھپانے کے لئے اختیار کیا گیا ہے۔ اب جن کے یہ کارنامے ہیں تحقیقاتی کمیٹی بھی انہی کی زیر سرپرستی بنے گی کہ سراغ لگائیں کہ ان کے محکمہ کا ریکارڈ کس طرح جلا اس میں کون ملوث ہے تو خود جان لیں کہ یہ عمل لگنے والی آگ کی طرح مشکوک ٹھہرے گا یا نہیں۔
٭…٭…٭…٭
کل پھر جیل بھیج دیں سر نہیں جھکائوں گا:نہال ہاشمی
مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں نے سزا کے بعد اپنے تاحیات قائد کی طرح شاید باغی بننے کی ٹھان لی ہے۔ نہال ہاشمی کو عدالت عظمی کیخلاف دھمکی آمیز بیانات پر ایک ماہ کی سزا ملی اور جرمانہ بھی ہوا۔ مگر لگتا ہے ان پر اثر نہیں ہوا۔ گزشتہ روز وہ رہا کیا ہوئے سونے پر سہاگہ ہو گئے۔ جیل کے باہر استقبال کے لئے آنے والوں سے اسی لہجے سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر بے باک ہو گئے۔ بقول غالب…؎
رونے سے اور عشق میں بے باک ہو گئے
دھوئے گئے ہم ایسے کہ بس پاک ہو گئے
لگتا ہے قید نے ان کا رہا سہا خوف بھی نکال دیا۔ اب وہ مزید بے خوف ہو گئے ہیں۔ ورنہ قید اور سزا کے خوف سے تو اچھے اچھوں کا پِتہ پانی ہو جاتا ہے۔ مگر شاید نہال ہاشمی نے اپنا پِتہ پہلے ہی نکلوا دیا ہے ان کی تقریر سے لگتا ہے وہ تو مکمل طور پر سیاسی دنیا میں فنا فی القائد ہو چکے ہیں۔ جیسے سالک اپنے مرشد کے رنگ میں رنگ جاتا ہے اسی طرح وہ بھی میاں نواز شریف کے رنگ میں رنگ گئے ہیں۔ اب خدا نہ کرے کہ انکے خلاف مزید کوئی عدالتی کارروائی ہو سینٹ کی نشست تو وہ کھو چکے شاید ان کے پاس کچھ بھی نہ بچا ہو کھونے کو۔ تصوف کی راہ میں اکثر سالک تاب نظارہ نہ لاتے ہوئے مجذوب ہو جاتے ہیں خیال رہے کہیں نہال صاحب بھی مجذوب نہ ہو جائیں۔ منصور ملاج اور سرمد کا انجام بھی یاد رکھیں۔