ٖٓFATF۔ اصل کہانی اور زمینی حقائق

Mar 02, 2018

ڈاکٹر احمد سلیم

پچھلے کچھ دنوں میں گرے لسٹ اور بلیک لسٹ کو لے کر میڈیا میں کافی شور شرابا نظر آیا ہے۔ کبھی خبر آئی کہ پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل ہونے سے بچ گیا ہے تو کبھی بھارتی میڈیا یہ شور مچاتا نظر آیا کہ پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل ہو گیا ہے اور یہ کہ بھارتی سفارتکاری کی بنا پر چین اور سعودی عرب نے بھی پاکستان کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ کبھی خواجہ آصف وقت سے بہت پہلے خوشی مناتے نظر آئے تو یہ بھی حقیقت ہے کہ FATF سے جاری کردہ آفیشل لسٹ میں موجود نو ممالک میں پاکستان کا نام شامل نہیں ہے۔ اس ابہام اور کنفیوژن کو دور کرنے اور اصل کہانی سمجھنے کے لیے سب سے پہلے FATF اور اسکے طریقہ کار کو سمجھنا ضروری ہے۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جس کا قیام 1989میں عمل میں لایا گیا اور اسکا بنیادی مقصد رشوت خوری اور پیسے کی غیر قانونی ترسیل پر نظر رکھنا اور اسے روکنے کے عالمی قوانین بنانا ہے۔ اس طرح اسکے مقاصد میں ایک اہم مقصد دہشت گردی کا سد باب بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ دہشت گرد گروپوں کو زندہ رہنے کے لیے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ پیسا ان کو غیر قانونی ذرائع سے ہی ترسیل کیا جاتا ہے۔ اس وقت اس تنظیم کے 37ارکان ہیں جن میں 35 ممالک اور 2علاقائی تنظیمیں ہیں۔ اسرائیل اور سعودی عرب اس تنظیم سے بطور ’’ مبصر‘‘ منسلک ہیں۔ پاکستان اس تنظیم کا رکن نہیں ہے بلکہ یہ ایک ذیلی تنظیم ’’ ایشیا پیسیفک گروپ‘‘ (APG) کے ذریعے سے اس تنظیم سے وابستہ ہے۔ تنظیم کا طریقہ کار یہ ہے کہ ممبر ممالک کسی بھی ملک یا تنظیم کا نام جاری کیے جانے والی فہرستوں میں ڈالنے کی قرارداد پیش کرتے ہیں۔ اگر رکن ممالک میں سے کم از کم تین ممالک اس قرارداد کی مخالفت کریں تو یہ قرار داد مسترد ہو جاتی ہے۔
یہ تنظیم دنیا کے ممالک اور مالیاتی اداروں کی چار اقسام میں درجہ بندی کرتی ہے۔ ایک فہرست ’’بلیک لسٹ‘‘ کہلاتی ہے۔ اس میں وہ ممالک ہوتے ہیں جو اس تنظیم کے خیال میں مناسب قانون سازی کے لیے دنیا اور عالمی اداروں سے ’’ عدم تعاون‘‘ کر رہے ہوں۔ یعنی دوسرے الفاظ میں جان بوجھ کر پیسوں کی سمگلنگ اور رشوت ستانی میں ملوث ہوتے ہیں۔ ایک ’’ گرے لسٹ‘‘ جس میں ان مالک کے نام شامل ہوتے ہیں جو عدم تعاون تو نہیں کر رہے ہوتے لیکن انہوں نے اس سلسلے میں ناکافی قانون سازی کی ہوتی ہے اور ان پر نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بعد ایک ’’ واچ لسٹ‘‘۔ اس میں وہ ممالک ہوتے ہیں جن کے بارے میں ابھی مکمل طور پر کوئی فیصلہ نہیںکیا گیا ہوتا اور امکان ہوتا ہے کہ ان ممالک کے بارے میں حتمی فیصلہ اس تنظیم کے آنے والے اجلاس میں کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ یہ ’’ واچ لسٹ‘‘ آفیشل طور پر شائع نہیں کی جاتی اور اس کے علاوہ اس تنظیم کے اجلاس کی کاروائی خفیہ رکھی جاتی ہے۔ صرف اجلاس کے بعد جاری کردہ فہرست اور کچھ اعلانیہ ہی پبلک کیے جاتے ہیں۔ ان ہی وجوہات کی بنا پر پچھلے کچھ دنوں میں یہ کنفیوژن نظر آئی کہ پاکستان کا نام اگر کسی لسٹ میں آ رہا ہے تو کس لسٹ میں کیونکہ اصل کاروائی خفیہ رکھی جاتی ہے اور تمام میڈیا رپوٹیں ’’ ذرائع‘‘ کے توسط سے آ رہی تھیں۔ اس سال21 تا 23 فروری کو پیرس میں ہونے والے اجلاس میں امریکہ اور برطانیہ نے یہ تجویز پیش کی کہ پاکستان کا نام ’’گرے لسٹ‘‘ شامل کیا جائے۔ میڈیا رپوٹس کے مطابق پہلے تو ترکی، چین اور سعودی عرب نے اس قرارداد کی مخالفت کی لیکن بعد میں چین اور سعودی عرب نے مبیینہ طور پاکستان کے خلاف ووٹ دے دیا۔ اصل صورتحال ذرا غور طلب ہے۔ جہاں تک سوال سعودی عرب کا ہے ، تو سعودی عرب اس اجلاس میں بطور مبصر شریک تھا اور ابھی تک سعودی عرب اس تنظیم کا ’’رکن ملک‘‘ نہیں ہے۔ اس لیے سعودی عرب کے لیے بطور رکن پاکستان کے حق یا مخالفت میں ووٹ دینے کا سوال ہی غلط ہے۔ اس کے بعد باری آتی ہے چین کی۔ یہ درست ہے کہ چین نے ہمیشہ اس قسم کے معاملات میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے لیکن اب ہمیں اس سلسلے میں اپنے آپ سے یہ سوال بھی کرنا ہو گا کہ ’’آخر کب تک؟‘‘۔ اصل بات تو یہ ہے کہ ہم گزشتہ دس برسوں میں عالمی تقاضوں کے مطابق ، پیسے کی سمگلنگ روکنے کے لیے کافی قانون سازی کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اب چاہتے ہیں کہ ہماری سستی اور نا اہلی پر چین یا کچھ ’’ دوست ممالک‘‘ پردہ ڈال دیں۔ ہمارے دفتر خارجہ کو شاید اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ عالمی تعلقات میں نہ تو دوست ہوتے ہیں اور نہ دشمن۔ صرف اور صرف ممالک کے سیاسی، معاشی تجارتی اور دیگر مفادات ہوتے ہیں۔ کوئی بھی ’’ برادر اسلامی ملک‘‘ یا ’’عظیم دوست ملک‘‘ ہماری خاطر ایک حد تک ہی اپنے مفادات کی قربانی دے سکتا ہے۔ پاکستان کے بارے میں حتمی فیصلہ اب اس تنطیم کے اگلے اجلاس میں کیا جائے گا اور دنیا کو مطمئن کرنے کے لیے ہمارے پاس جون تک کا وقت ہے۔ یا د رہے کہ جولائی 2018سے چین اس تنظیم کا نائب صدر بنے گا اور اسکے بعد جولائی 2019ء سے ایک برس کے لیے اس تنظیم کی صدارت چین کو ملنی ہے۔ ان حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو چین کے لیے یہ ممکن نہیں ہو گا کہ وہ ایک خاص حد سے زیادہ پاکستان کی سائیڈ لے کیونکہ ظاہر ہے کہ چین کبھی نہیں چاہے گا اس تنظیم کے نائب صدر یا صدر کے طور پر اسکی ’’غیر جانبداری‘‘ پر کوئی ملک انگلی اٹھا سکے۔ اسکے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے لمحہ فکریہ یہ بھی ہے کہ اس تنظیم کے 35 رکن ممالک میں سے ہماری سیاست اور خارجہ پالیسی صرف چین اور ترکی تک محدود کیوں ہے؟ کیا ہمارے دفتر خارجہ میں باقی کے ۳۳ ممالک میں سے کسی کو قائل کرنے کی اہلیت نہیں ہے کہ وہ پاکستان کا ساتھ دیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر تو دو تین ممالک کو چھوڑ کر پاکستان واقعی عالمی سطح پر تنہا ہو رہا ہے اور یہ ہمارے لیے شدید تشویش کا باعث ہونا چاہئیے۔
ایک اور نقطہ بھی قابل غور ہے۔ یہ تنظیم بنیادی طور پر دہشت گردوں کی مد د کرنے والے ممالک پر نظر نہیں رکھتی بلکہ اس کا مقصد ’’ منی لانڈرنگ‘‘ یعنی کالے دھن کی غیر قانونی ترسیل کو روکنے کے لیے قانون سازی کو فروغ دینا ہے۔ چاہے یہ پیسہ دہشت گرد تنظیموں کے استعمال میں آتا ہو یا رشوت یا چوری کا ہو۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے ارباب اختیار میں کچھ ایسے لوگ اہم عہدوں پر بیٹھے ہوں جو اپنے ذاتی مفادات کے لیے چاہتے ہوں کہ پاکستان میں ’’ منی لانڈرنگ‘‘ کے خلاف سخت اقدامات نہ کیے جائیں تاکہ وہ لوگ اپنے کالے دھن کی منی لانڈرنگ کرتے رہیں۔ ایسے لوگ حکومتی عہدے دار بھی ہو سکتے ہیں، بڑے بزنس مین اور انڈر ورلڈ سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد بھی جو حکومتی حلقوں میں اثر رسوخ رکھتے ہوں۔ ایسے لوگوں کے لیے ذاتی مفادات اور پیسے کی غیر قانونی ترسیل کا قائم رہنا زیادہ اہم ہے اس کے لیے ریاست پاکستان کو چاہے جو بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔

مزیدخبریں