اسلام آباد (نیوز رپورٹر) پارلیمنٹ نے بھارتی جارحیت کے خلاف مذمتی قرارداد کی اتفاق رائے سے منظوری دے دی۔ قرارداد میں 26 اور 27 فروری کو پاکستان کے خلاف بھارتی جارحیت کی شدید مذمت کرتے ہوئے پلوامہ واقعہ پر بھارتی الزامات کو مکمل طور پر مسترد کیا گیا ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ پوری پاکستانی قوم اپنی مسلح افواج کے ساتھ متحد کھڑی ہے، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی طرف سے تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت کے بعد پیش کی گئی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ یہ ایوان پاک فضائیہ کی طرف سے بروقت اور موثر اقدام کو سراہتا ہے جس سے بھارتی حملے کو کسی جانی و مالی نقصان کے بغیر ناکام بنایا گیا۔ یہ ایوان نشاندہی کرتا ہے کہ اس حملے کے بعد بھارتی حکومت کے اقدامات انتخابی مقاصد کے حصول کے لئے کئے گئے ہیں۔ یہ ایوان زور دیتا ہے کہ بھارت کی طرف سے 26 اور 27 فروری کو کی گئی کارروائی غیر ذمہ دارانہ ہے جس نے جنوبی ایشیا کے امن اور استحکام کو سنجیدہ خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ قرارداد میں پاکستان کے اس عزم کا اعادہ کیا گیا ہے کہ بھارتی جارحیت کا موثر اور منہ توڑ جواب دیا جائے گا، قرارداد میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سمیت بین الاقوامی برادری پر زور دیا گیا ہے کہ بھارتی حکومت کی طرف سے نہایت غیر ذمہ دارانہ کارروائی کی غیر مبہم اور واضح مذمت کرے جس سے خطے کے امن و استحکام کو سنجیدہ خطرات لاحق ہو گئے ہیں اور کشیدگی ایک نئی سطح پر پہنچائی گئی ہے۔ یہ ایوان او آئی سی کے رابطہ گروپ کی طرف سے جموں و کشمیر میں بھارتی سکیورٹی فورسز کی طرف سے معصوم شہریوں کے بہیمانہ قتل اور حالیہ ظلم و جبر کی لہر کی شدید مذمت کا خیر مقدم کرتا ہے۔ سلامتی کونسل پاک بھارت کشیدگی ختم کرائے، مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے۔یہ ایوان اس امر پر شدید مایوسی اور ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ہے کہ او آئی سی کے بانی ممبر پاکستان پر بھارت کے حملے کے بعد پاکستان اور کشمیری عوام کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرنے والے بھارت کو او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے افتتاحی اجلاس میں مہمان اعزاز کی حیثیت سے مدعو کیا گیا اور مطالبہ کرتا ہے کہ پاکستان احتجاجاً اجلاس کی کارروائی کا بائیکاٹ کرے۔ یہ ایوان بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر اور بھارت کی کئی ریاستوں میں کشمیریوں پر انتقامی حملوں، کشمیریوں اور سینئر حریت قیادت کی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور ظلم و تشدد جس کے نتیجہ میں کئی کشمیری نوجوان شہید ہوئے، حریت رہنمائوں کے گھروں پر چھاپوں اور عوام کو دبانے والے اقدامات کی شدید مذمت کرتا ہے۔یہ ایوان زور دیتا ہے کہ جموں و کشمیر کے تنازعہ کا منصفانہ اور پر امن حل تلاش کیا جائے یہ تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے اور خطے کے پائیدار امن اور استحکام کے لئے اس کا حل ناگزیر ہے۔ قرارداد میں بھارت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی جاری خلاف ورزیوں کا سلسلہ فوری طور پر بند کرے اور جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل کرے ۔قرارداد میں بھارت کی پارلیمان پر زور دیا گیا ہے کہ وہ کشیدگی میں کمی اور پاکستان اور بھارت کے مابین مذاکرات کے لئے پاکستان کی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے پیغام کی حمایت کرے۔وزیر دفاع پرویز خٹک نے کہا ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جنگ نہیں امن کے خواہاں ہیں، آئیں بات چیت سے مسائل حل کریں کیونکہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں، مسئلہ کشمیر کے حل تک خطے میں امن نہیں آسکتا۔بھارت نے دوبارہ حملہ کی غلطی کی تو ایسا منہ توڑ جواب دیں گے کہ تاریخ یاد رکھے گی۔ انہوںنے کہا ہے کہ پاک فوج، پاک فضائیہ اور بالخصوص حسن صدیقی کو مبارکباد دیتا ہوں، ہمیں افواج پاکستان پر فخر ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے او آئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم امہ کے اس اہم فورم پر اب نچلی سطح کے حکام پاکستان کی نمائندگی کریں گے تاکہ اگر اجلاس کے دوران ہندوستان کو مبصر کا درجہ دینے کی کوئی کوشش ہوتی ہے تو اس پر بھرپور احتجاج کیا جائے گا ،ہندوستان او آئی سی کا ممبر ہے اور نہ ہی مبصر، ہندوستان کو ہماری مشاورت کے بغیر مدعو کیا گیا ہے۔جنوبی ایشیاء میں قیام امن کے لئے میں صدر ٹرمپ کے اس جذبے کی قدر کرتے ہیں۔بھارت کی 23 اپوزیشن جماعتوں کا مشترکہ بیان آیا ہے کہ مودی اپنی سیاست کے لئے ہندوستان کی فوج اور فوجی ہلاکتوں کو استعمال میں لانا چاہتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ سے میں رابطے میں تھا، میں نے پاکستان اور خطے کے تناظر میں پاکستان کا موقف پیش کیا ہے جس کو امریکی وزیر خارجہ نے سمجھا ہے اور اسے اہمیت دی ہے، کل صدر ٹرمپ نے ایک بیان دیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ وہ نہیں چاہیں گے کہ برصغیر کا خطہ عدم استحکام کا شکار ہو اور یہاں حالات بگڑیں، میں صدر ٹرمپ کے اس جذبے کی قدر کرتا ہوں اور ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ امن اور خطے کے لئے جو بھی بات کرے گا وہ قابل ستائش ہے۔ بھارت سے کشیدگی میں ترکی نے مکمل یکجہتی کا اظہار کیا ، سعودی عرب نے ہمارے موقف کو اہمیت دی، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے بات ہوئی تو وہ بھی دونوں اطراف کی آمادگی کی صورت میں کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ روس نے بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کرانے کی پیشکش کی ہے۔ پاکستان اس کے لئے تیار ہے، وہ بھارت کو آمادہ کر لیں جو ان کا پرانا دوست ہے۔سابق صدر و رکن قومی اسمبلی آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ جنگیں افواج نہیں اقوام لڑتی ہیں الیکشن کیلئے مودی کی مہم جوئی بیک فائر ہو گئی۔بھارتی پائلٹ کی رہائی کے فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہوں۔پاکستان کو او آئی سی میں جانا چاہئے۔ایوان کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم ہے لیکن میری رائے یہ ہے کہ او آئی سی میں پاکستان کو جانا چاہئے۔ انہوں نے ایٹمی پروگرام کیلئے محترمہ بے نظیر بھٹو کے کردار کو خراج عقیدت پیش کیا۔آصف زرداری تقریر ختم کرکے اپنی نشست پر پہنچے تو شاہ محمود قریشی ان کے پاس ملاقات کے لئے پہنچے اور او آئی سی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے سے آگاہ کیا۔ سابق صدر نے انہیں اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے مشترکہ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا وزیر خارجہ کا شکر گزار ہوں کہ اس ایوان کی رائے کو مقدم جانا اور او آئی سی کونسل آف فارن افیئرز کے اجلاس میں شرکت کیلئے نہیں گئے۔ انہوں نے کہا کہ سشما سوراج کے خطاب کے بعد پاکستان کے دوست ممالک کر پاکستان کے حق کی بات کریں۔ انہوں نے وطن کیلئے خدمات سرانجام دینے اور پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے والوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ مسلم لیگ ن کے رہنماؤں خوجہ آصف اور سینیٹر مشاہد اللہ نے اپنے خطاب کے دوران دبے لفظوں میں حکومت پر تنقید بھی کی۔ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ نواز شریف نے بھی برصغیر میں امن اور اقتصادی ترقی کی بات کی جس پر انہیں نشانہ بنایا گیا۔ آج برصغیر میں امن کے قیام کیلئے پاکستان میں جو اتفاق رائے پیدا ہوا ہے اسے برقرار رہنا چاہئے اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اتحاد کو استعمال کرنا چاہئے۔ ہمیں دنیا کو مطمئن کرنا ہوگا پاکستان کا دہشت گردی سے تعلق نہیں ہے جب نواز شریف نے کہا کہ ہمیں اپنا ہاؤس ان آرڈر کرنا چاہئے تو انہیں غدار اور مودی کا یار کہا گیا کل وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے ان پر تنقید نہیں کی نواز شریف کو نشانہ بنایا گیا ان کا تصور یہ تھا کہ وہ برصغیر میں امن اور اقتصادی ترقی کی بات کر رہے تھے آج وزیراعظم عمران خان بھی وہی کہہ رہے ہیں۔مشاہد اللہ خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ وزیراعظم کو بھارت سے دہشتگردی پر بات چیت کا بیان دیتے ہوئے احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہئے، ہمارا مؤقف کمپوزٹ ڈائیلاگ کا رہا ہے۔ بھارتی ڈائیلاگ بازیاں کرتے ہیں کہتے تھے گھس کر ماریں گے اب وہ گھسے تو سہی لیکن مار نہ سکے بلکہ مار کھائی، گھسا نندن اور مارا حسن نے ہے۔ بعد ازاں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا گیا۔ علاوہ ازیں نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مولانا مسعود اظہر شدید بیمار ہیں اور وہ گھر سے باہر نہیں نکل سکتے، بھارت کے پاس کوئی شواہد ہیں تو دے ہم کارروائی کریں گے۔
پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس: بھارتی جارحیت کیخلاف متفقہ قرارداد، او آئی سی اجلاس کا بائیکاٹ
Mar 02, 2019