صدر ٹرمپ کو ہمارے وزیرِ اعظم نے اپنے دورہ امریکہ کے دوران دعوت دی تھی اور انہوں نے دعوت قبول بھی کی تھی لیکن اس کے باوجود ٹرمپ نے اپنے دورِ اقتدار میں پاکستان کا دورہ نہیں کیا جو کہ ہماری خارجہ پالیسی کی کمزوری ہے۔حالانکہ اس سے پہلے جو بھی امریکی صدر بھارت آتا تھا وہ پاکستان کا بھی دورہ کر کے جاتا تھا ۔بھارت میں پاکستان کو اپنا اچھا دوست کہنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے الیکشن سے پہلے امریکہ نے اپنی فوجیں افغانستان سے نکال کر اپنی الیکشن مہم کو چلانا ہے اور ہیوی مشنری کو نکالنے کے لئے پاکستان کی سرزمین استعمال ہونی ہے ۔ جبکہ ہندوستان میں شہریت بل کے خلاف عوام سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں ۔ نسل پرست ہندوستانی حکومت میں اقلیتیں بالخصوص خوفزدہ زندگی گزار رہی ہیں لیکن امریکی صدر نے ان ظلم و ستم پر اپنی تشویش کا اظہار تک نہیں کیا۔ چنانچہ ٹرمپ اور مودی کے مشترکہ اعلامیہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ مسلمانوں کے خلاف مذموم عزائم کی تکمیل کے لئے مسلسل سر گرم عمل ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ ہندوستان اور وہاں ہندو انتہاء پسندوں کی جانب سے مسلم آبادیوں پر حملے ، مسجدوں کے میناروں پر ہنومان کے جھنڈے لہرائے گئے ۔درگاہوں اور مزاروں کی بے حرمتی کی گئی ۔ مسلمانوں کو زندہ جلا یا گیا۔ دلی سمیت دیگر مقامات پر جس طرح مسجد، مزار اور مسلم آبادیوں پر تباہ و برباد کیا گیا اور مسلمان بچوں، بزرگوں ، نوجوانوں اور خواتین کو اس ہندو انتہاء پسندی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا وہ اقوام متحدہ سمیت ان نام نہاد انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے منہ پر طمانچہ ہے جن کو کسی مسلمان ملک میں اسلامی شرعی قوانین مادر پدر آزادی کی راہ میں رکاوٹ نظرآتے ہیں لیکن انکو فلسطین ، برما ،کشمیر اور بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کا قتل عام دکھائی نہیں دیتا ۔دہلی میں صرف تین دنوں کے اندر سینکڑوں بے بس و لاچار مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا گیا اور اس شہر کو مسلم آبادی کے لئے ’سلاٹر ہائوس ‘ میں تبدیل کردیا گیا۔افسوس عالمی قوتوں کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگی۔جبکہ ٹرمپ کا اپنے دورے کے دوران ہندوستان کی شہریت بل سے اظہار لاتعلقی اور صرف تجارتی و دفاعی ایشوز پر بات کرنے سے یہ عیاں ہو جاتاہے کہ امریکی استعمار کو اپنے اہداف کے علاوہ کسی چیز کی فکر نہیں ۔ اس لئے ہمیںکسی بھی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ اگر ٹرمپ نے پاکستان کی تعریف کی ہے تو امریکی نوازشوں کا رخ ہماری جانب ہو جائے گا ہرگز نہیں بلکہ افغان طالبان اور امریکہ کے مابین امن معاہدہ طے پانے کے بعد پاکستان کی ضرورت باقی نہیں رے گی اور ہمیں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے پھینکنے میں ذرا سی بھی دیر نہیں لگائی جائے گی اور یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ اب کشمیر کے حوالے سے امریکی ثالثی بھی نام نہاد ڈیل آف سینچری کی طرح ہی ہوگی۔ ایک طرف امریکہ مودی سرکار کو کو تھپکی دیتے ہوئے اس کے مقبوضہ کشمیر میں روا رکھے گئے مظالم پر شہ د ے رہا ہے اور انڈیا کے اندر جاری مودی انتہاء پسندانہ کارروائیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے بھارت کا اندرونی معاملہ قرا ر دیتاہے ۔اپنے دورہ کے اختتام پر ہندوستان کو بھاری دفاعی سازو سامان کی یقین دہانیاں جبکہ تو پاکستان کو ڈکٹیشن دینے کی کوشش کی گئی ۔
ہندوستان میں مسلمانوں اور مساجد پر حملے اس بات کی طرف اشارہ ہیں کہ مودی سرکار کی اصل دشمنی مسلمانوں سے ہے۔معلوم نہیں کہ کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں کی آنکھیں کب کھلیں گی۔او آئی سی بھی مسلمانوں کیخلاف ڈھائے جانے والے مظالم پر مکمل خاموش ہے، اگر بھارتی حکومت کو نہ روکا گیا تو ظلم کا یہ سلسلہ مزید بڑھے گا۔ مسلم کش فسادات کے بارے میں ایک مقدمے کی سماعت میں حکمران جماعت بی جے پی نے دہلی ہائی کورٹ کے جج کا انصاف اور قانون کے حق میں بولنے کے جرم میں پنجاب ہریانہ ہائی کورٹ میں تبادلہ کردیا گیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی دہلی میں اپنی شکست فاش کا انتقام یہاں کے مسلمانوں سے لینا چاہتی ہے جنھوں نے حالیہ چنائو میں کھل کر عام آدمی پارٹی کی حمایت کی اور کئی حلقوں میں بی جے پی کو محض مسلم ووٹوں کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا ۔ دہلی کے مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ انہوں نے جس پارٹی کو حالیہ اسمبلی انتخابات میں اپنے ووٹ دیئے ہیں‘ اس کے ہاتھ میں دہلی کا نظم ونسق نہیں ہے بلکہ یہ ذمہ داری مودی سرکار کے ہاتھوں میں ہے جو شہریت ترمیمی قانون کی آڑ میں مسلمانوں کو ٹھکانے لگانے کی حکمت عملی پر گامزن ہے۔
جس وقت وزیراعظم نریندر مودی اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ،دوطرفہ امور پرآپس میں محوگفتگو تھے اور عالمی حالات پر گفت وشنید میں مصروف تھے، ٹھیک اسی وقت دلی شہر،فسادات کی آگ میں جل رہا تھا۔ محض چند کلومیٹر کے فاصلے پر دنگائی توڑ پھوڑ کر رہے تھے، دکانیں جلائی جارہی تھیں، پتھروں کی بارش ہورہی تھی اور دہلی پولیس اہلکار دنگائیوں کو پتھرجمع کرنے میں مدد بھی دے رہے تھے۔ اس فساد میں بے گناہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔متنازع شہریت بل کے خلاف دہلی کی سڑکوں پر پر امن دھرنے والوں پر رائفلیں تانی گئیں، گولیاں چلائی گئیں، ڈنڈے برسائے گئے اور یہ سب امریکی صدر کی موجودگی میں ہوا ۔ تاہم دہلی میں ابھی بھی حالات نارمل نہیں ہیں، فورسز مسلمان مکینوں کو دھمکیاں دیتی ہیں، جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں، آتش گیر مادوں خاص طور سے پٹرول بموں کے ذریعے آر ایس ایس کے غنڈے پھر سے موقع کی تاک میں ہیں ایک رپورٹ کے مطابق جب بھارتی سیکورٹی فورسز نے شہر میںکرفیو لگایا تب نالوں میں بھی لاشیں پڑی ہوئی تھیں پھر نجانے کہاں گئیں۔ اس سے پہلے بھارتی ریاست اترپردیش میں پولیس کی سفاکی نے درجنوں مسلمانوں کو بربریت و درندگی کا نشانہ بنایا تھا۔ کرناٹک میں بھی کئی مسلمان بربریت کا شکار ہوئے ۔ سرکاری جائیداد کو نقصان پہنچانے کے نام پر مسلمانوں سے کروڑوں روپئے اینٹھے گئے۔ یوپی کے ہندو فرقہ پرست اور آر ایس ایس پرچارک مسلم دشمن وزیراعلیٰ یوگی نے اپنی ریاست میں مسلمان خواتین کے خلاف بھی مورچہ کھول رکھاہے۔ بلکہ بے قصور مسلم نوجوانوں کو غداری کے سنگین مقدمات کے تحت دھڑا دھڑ جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے ۔ دہلی میں ہوئے مسلم کش فسادات کی کہانی ایک سے بڑھ کر لرزہ خیز اور ہولناک ہے۔ سچ تو یہ ہے 2002 ء گجرات مسلم کش فسادات دہرانے میں کوئی کمی نہیں کی گئی کہ جہاںپر ہندوبرہمن صحافی کوبھی ہنومان چالیساپڑھ کر اپنا مذہب ثابت کرکے جان بچانا پڑی ۔
٭…٭…٭