نبض مریض پنجہء عیسیٰ میں چاہیے

کورونا وائرس سے سٹاک مارکیٹ میں 436 ارب ڈوب گئے‘سونے کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر فی تولہ قیمت 94 ہزار ہو گئی کبھی لیبر یونین ماہانہ تنخواہ ایک تولہ سونے کی قیمت کی مساوی کرنے کا مطالبہ کرتی تھیں ،اب تو گریڈ 17 کی تنخواہ سے تولہ سونا بھی نہیں خریدار جا سکتا۔ حکومت کا پہلا ٹارگٹ مہنگائی ہے برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافے کی وجہ سے تجارتی خسارہ تیزری سے بڑھ رہا ہے۔ صنعتوں کو ملنے والی مہنگی بجلی اور گیس کی وجہ سے پیداواری لاگت میں اضافہ بھی برآمدات میں کمی کا باعث ہے۔ روپے کی قدر میں واضح کمی کے باوجود برآمدات کیوں نہ بڑھ سکیں۔ عالمی برآمدات میں پاکستان کا مارکیٹ شیئر کم ہو رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں دنیا بھر کی سٹاک مارکیٹوں میںمندا رہا۔ تیل کی قیمتوں میں کمی آئی جبکہ سونے کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوا۔ کرونا وائرس کی خبروں نے سب کے کان کھڑے کر دیئے ہیں۔ امریکہ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں یہ وائرس پہنچ چکا ہے۔ پیداور میں اضافہ کے باوجود 6 کروڑ آبادی بجلی سے محروم ہے۔ ترک صدر طیب اردگان اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتوینو گوتریس کے حالیہ دورے خارجہ محاذ پرپاکستان کی کامیابیاں ہیں۔ ن اور ق لیگ کے درمیان سیاستی قربتوں کی افواہیں دم توڑ گئی ہیں۔ میانوالی میں وزیراعظم نے کہا کندیاں کا جنگل نوکریاں دے گا افریقہ جنگلات سے بھرا پڑا ہے۔ لیکن بہت سے ممالک انتہائی پسماندہ اور غریب ہیں جنگلات سے شیر گیدڑ اور لکڑی تو مل سکتی ہے۔ نوکریاں نہیں۔سیاست کے حوالے سے نئے سے نئے سوالات جنم لیتے رہتے ہیں جیسے وزیراعظم کے مسائل کب ختم ہوں گے؟ کیا مارچ میں حکومت مخالف تحریک چل سکے گی؟ مختلف گروپ بندیاں ن لیگ کے لئے مشکلات پیدا کر رہی ہیں، مشترکہ اپوزیشن کو کوئی نواب زادہ نصر اللہ خان میسر نہیں مولانا فضل الرحمن بھی دوسرے طاہرالقادری ثابت ہوئے۔ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے لئے سیاسی جماعتوں نے کمر کس لی ہے کراچی کے سابق ناظم نعمت اللہ خان کراچی کے لئے واقعی ’’نعمت‘‘ تھے۔ سندھ میں سیاسی کھینچا تانی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سندھ میں کارکردگی کی بنیاد پر قرین قیاس ہے کہ پی پی پی اب اس صوبے سے بھی فارغ ہو جائے گی بھٹو روز روز پیدا نہیں ہوتے بلاول تو ذوالفقار علی بھٹو کی ’’ڈی‘‘ بھی ثابت نہ ہوئے۔ فاطمہ بھٹو کے نزدیک ملک کو ایک بھٹو کی سخت ضرورت ہے۔ خیبرپختونخوا اسمبلی کے اندر اور باہر پاورشو دیکھنے میں آیا ہے۔ وزیراعلیٰ محمود خان بھی فرنٹ فٹ پر کھیلنا شروع ہو گئے ہیں افسر شاہی پر گرجے اور برسے ہیں صوبے میں حکومتی پارٹی کے اراکین بھی ترقیاتی فنڈز سے محروم ہیں اراکین کو شکوہ ہے کہ انہیں نہ تو ان کی مرضی کے مطابق فنڈز دیئے جا رہے ہیں نہ ان کی مرضی کی سکیمیں دی جا رہی ہیں۔ وزیراعظم نے بلوچستان میں ریکوڈک کے ذخائر سے ملک کے قرضے ادا کرنے کی بات کی تو ارکان اسمبلی نے سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ بلوچستان کے معدنی وسائل عوام کی ملکیت ہیں ریکوڈک کسی ملک یا کمپنی کو دیناآئین کی خلاف ورزی ہو گی۔ 18 ویں ترمیم کے تحت معدنی وسائل پر صوبوں کا اختیار ہے۔ کرونا وائرس حکومت بلوچستان کے لئے نیا چیلنج ہے ایران اور افغانستان دونوں میں کرونا وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے حکومت کا دعویٰ ہے کوئی حلقہ ایسا نہیں جہاں 50 سے 60 کروڑ کے ترقیاتی کام نہ ہو رہے ہوں جنوبی پنجاب میں صلح کے باوجود جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی میں سیاسی اختلاف کی خبریں گردش میں ہیں۔ دونوں چاہتے ہیں ملتان کی سیاست پر ان کا سکہ جما رہے سرائیکی تنظیموں نے علیحدہ صوبہ نہ بنانے پر شاہ محمود قریشی کی رہائش گاہ کے باہر مظاہر کیا حالات بتاتے ہیں اس وعدے پر یوٹرن لیا جا چکا ہے جاوید ہاشمی ملتان میں ن لیگ کی آواز کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ امریکا طالبان معاہدہ، فوجی انخلا امن سے مشروط ہے ۔19 سال بے فائدہ طویل جنگ نے نقصان کے سوا کیا دیا؟ اس معاہدہ 9/11 کے بعد تاریخی واقعہ ہے تاہم بھارت سبوتاژ کر سکتا ہے۔ کرونا وائرس مزید ممالک میں پھیل گیا ہے، عالمی مارکیٹوں میں مندی، تیل کی قیمتیں انتہائی نچلی سطح پر آ گئی ہیں، عراق میں غیر ملکی زائرین کی آمد بند ہو گئی ہے، سعودی عرب نے متاثرہ ممالک سے سفر پر پابندی لگا دی ہے عمرہ وزیرے منسوخ ہو گئے ہیں ۔ مختلف ایرانی شہروں میں نماز جمعہ کے اجتماعات منسوخ ہو گئے۔ لمحہ موجود کا اہم ترین سوال ہے کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے سکول بازار کب تک بند رکھے جا سکتے ہیں کورونا سے عالمی معیشت کو کھربوں ڈالر نقصان ہوا ہے۔ سٹاک مارکیٹوں سے 5 ہزار ارب ڈالر نکل گئے‘ سیاحت کو بھی اربوں ڈالر کا خسارہ‘ تیل کی قیمت میں شدید کمی۔ ایران نے پاکستان زائرین پاکستان بھیج دیئے۔ سرکاری اعدادوشمار ہیں۔ مہنگائی کی شرح 14.60 فیصد ہے ایل پی جی سلنڈر، بیف، چاول، دہی دالیں مہنگی ہوئی ہیں حالانکہ اشیاء و خدمات سبھی مہنگی تر ہو گئی ہیں کیا نائی و دھوبی پارلر درزی ڈاکٹر اکیڈمی ٹیوشن کے ریٹ نہیں بڑھے سڑکوں پر جبری چالانوں او رمزاروں پر جوتوں اور لیٹرینوں سائیکل سٹینڈوں کے ٹھیکے حکومت آمدنی کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ معیشت کو غیر یقینی اور بے اعتمادی کی کیفیت سے نکالنے کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط مہنگائی اور بے روزگاری کو مزید بڑھانے کا سبب نہیں اب تک کے اصلاحاتی اقدامات سے ملک کی بھارتی اکثریت کو سنگین دشواریوں سے دوچار ہونا پڑا۔ وزیراعظم کو چار چیزوں پر فوکس کرنے کی ضرورت ہے۔ کرپشن، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، ایکس چینج ریٹ کو چھوڑ کر آٹا، سکول، ہسپتال اور بجلی پر توجہ مرکوز کریں۔ ہر پاکستانی سالانہ 115 کلو آٹا استعمال کرتا ہے۔ ہسپتالوں اور سکولوں کا جال بچھانے کی ضرورت ہے ہر تھانے کی حدود میں ایک معیاری ہسپتال ضروری ہے۔ اسی طرح محلوں میں مسجدوں کے جال کی طرح سرکاری سکولوں کے جال ضرورت ہے۔ بجلی کے بل 11 سے یونٹ سے بڑھ کر 27 روپے یونٹ ہو چکے ہیں۔ گیس کے نرخ 2.5 روپے یونٹ سے بڑھ 6 روپے یونٹ ہیں تعلیم کے بجٹ پر چھری چلا دی گی ہے۔ تعلیم سوتیلی ماں (پرائیویٹ سیکٹر) کی گود میں ڈال دی گئی ہیے۔ سرکاری ہسپتالوں کا رونا رونا بھینس کے آگے ہیں بین بجانا ہے۔ ہر ضلع میں ڈگری یا پوسٹ گریجویٹ کالج کو اپ گریڈ کر کے اسی ضلع کے نام سے یونیورسٹی کا درجہ دے دیا جائے۔ یوں بچے بچیوں کی ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں مائیگریشن رک جائے گی۔ دل کا ہسپتال ہر ضلع میں قائم کیوں نہیں ہو سکتا۔ سیاسی مخالفوں کو مزید ٹارگٹ بنانے کی ضرورت نہیں۔25 اپریل 1996ء کو وجود میں آنے والی پی ٹی آئی کو 2023ء کے الیکشن تک ڈیلیور کرنا پڑے گا 200 یونٹ تک بجلی کے صارفین کے لئے سستی روٹی کی طرح سستی بجلی ضروری ہے۔ بجٹ کا 25 فیصد تعلیم کے لئے مختص کیا جائے۔ تمام سرکاری ہسپتالوں میں ادویات فراہم کی جائیں۔ طالب علموں کے لئے فری بسیں چلائی جائیں۔ اطلاع ہے کہ آئندہ مالی سال میں کم از کم 900 ارب کے اضافی ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر ڈالا جائے گا۔ آئی ایم ایف کے قاعدے کو FBR نے رٹ لیا ہے۔ کامیاب رٹا لگانے پر ہی شاباش ملے گی۔ 30 جون تک کے حکومتی آمدن کا ٹارگٹ آقاؤں نے 5.5 کھرب سے کم کر کے 5.23 کھرب روپے کر دیا ہے۔ ملکی درآمدات میں کمی لانے کے لئے متبادل درآمدات پر خصوصی توجہ ضروری ہو گی ہے۔ ایک حوصلہ افزا خبر ہے کہ بائیو ٹیکنالوجی، کیمیکلز، مشینری، ٹیکسٹائل، پلاسٹک اور دیگر اقسام کی 250 کے قریب مصنوعات کی نشاندہی کی گئی ہے جن کی پیداوار اور معیار کو بہتر بنا کر ملکی ضرورت پوری کرنے کے علاوہ برآمد کر کے زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے وزارت سائنس 3،7 اور 10 سالہ پروگرام مرتب کر رہی ہے۔
٭…٭…٭

پروفیسر خالد محمود ہاشمی

ای پیپر دی نیشن