امن کی مکمل بحالی میں ہنوز کئی مراحل باقی، فریقین کو امن دشمنوں سے خبردار رہنا ہو گا

امریکہ طالبان کے مابین تاریخی امن معاہدہ، اتحادیوں کیلئے افغان دلدل سے نکلنے کا باعزت راستہ کھل گیا


2001ء میں نیو یارک میں ہونے والے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے بعد شروع ہونے والی 19 سالہ افغان جنگ کے خاتمے کے لیے پاکستان کی کامیاب سفارتی کوششوں کے بعد امریکہ اور طالبان کے درمیان تاریخی معاہدہ طے پا گیا۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے اس امن معاہدے میں طالبان کی جانب سے ملا عبد الغنی برادر جبکہ امریکی نمائندہ خصوصی برائے امن زلمے خلیل زاد نے دستخط کیے۔ تقریب میں پاکستان کی نمائندگی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کی جبکہ دیگر50 ممالک کے نمائندوں نے بھی شرکت کی، طالبان کا 31 رکنی وفد بھی موجود تھا۔ معاہدے سے قبل امریکہ اور افغان حکومت کا مشترکہ بیان جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ طالبان نے معاہدے پر عمل کیا تو امریکہ اور اتحادی 14 ماہ تک افغانستان سے تمام افواج نکال لیں گے۔ امریکہ معاہدہ کے 135 دنوں کے اندر فوجیوں کی تعداد 8600 تک کم کرے گا، فوجیوں کا انخلاء طالبان کے معاہدے پر عمل در آمد سے مشروط ہوگا، امریکہ اور طالبان امن معاہدے کے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ افغان سرزمین امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف کسی کو استعمال نہیں کرنے دی جائے گی، افغان طالبان 10 مارچ سے بین الافغان مذاکرات شروع کریں گے جس میں افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کے انخلاء کے لئے گارنٹی ، میکنزم اور ٹائم لائن کا اعلان شامل ہوگا ، مستقبل اور جامع سیز فائر بین الافغان مذاکرات کا اہم ایجنڈا ہوگا ، 14 ماہ کے اندر غیر سفارتی عملہ نجی سیکیورٹی کنٹریکٹرز اور ٹرینرز بھی نکال لئے جائیں گے ۔ پانچ فوجی اڈوں سے بھی تمام فورس نکال لی جائیںگی ،10 مارچ تک افغان طالبان کے پانچ ہزار قیدی رہا کر دیئے جائیں گے اور افغان طالبان کی طرف سے ایک ہزار قیدی رہا کر دیئے جائینگے ۔ متعلقہ فریق اگلے تین ماہ میں بقایا رہ جانے والے قیدی بھی رہا کرینگے ۔
افغان جنگ اور امریکہ طالبان امن معاہدے کے بنیادی فریق امریکہ اور طالبان ہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے طالبان کی افغانستان حکومت پر دہشتگردی کا الزام لگاتے ہوئے نیٹو اتحادیوں سے مل کر امریکہ سے ہزاروں میل دور افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ طالبان حکومت چند روز سے زیادہ اپنا تحفظ نہ کر سکی۔ امریکہ اوراس کے اتحادیوں نے جلد افغانستان پر قبضہ کر لیا مگر یہ قبضہ مضبوط نہ ہو سکا۔ طالبان اقتدارسے بے دخل ہوئے تو گوریلا وار شروع کر دی۔ افغانستان میں جدید ترین فوجی اسلحہ، دنیا بھر کی بہترین تربیت یافتہ افواج کی کمی نہیں تھی‘ لاکھوں افغانوں کو بھی جدید خطوط پر تربیت دی گئی۔ کسی بھی شورش زدہ علاقے میں امن کے قیام کے لئے یہی لوازمات درکار ہوتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود افغانستان میں امن کی بحالی تو کجا مقبوضہ علاقے بھی اتحادیوں کے کنٹرول سے نکلتے چلے گئے۔ افغانستان دہشت‘ وحشت اور ہیبت کی سرزمین بن گیا، اسے بھارت جیسے طالع آزماؤں نے اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ افغانستان سے دہشتگردی پاکستان میں بھی در آئی۔ اس کے پس پردہ بھارت کا مائنڈ سیٹ اور سازشیں کارفرما تھیں۔ پاکستان نے انڈیا سپانسرڈٹیررزم سے بڑی قربانیوں کے بعد نجات حاصل کر لی ہے۔
پاکستان میں دہشتگردی کی حامل قوتوں سے مذاکرات کی کوشش کی گئی مگر ان کی فرعونیت اور تکبر کے باعث مذاکرات کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی تو پاک فوج نے پوری قوت‘ عزم و ارادے اور قوم کی حمایت سے آپریشن شروع کر کے پاکستان میں امن کی بحالی ممکن بنائی۔ اُدھر افغانستان میں امریکہ اور طالبان اول تو مذاکرات کے لئے تیار ہی نہیںتھے اگر کبھی تیار ہوتے بھی تو اس کے لئے ایسی شرائط رکھ دیتے جن پر عمل ہی مذاکرات کے بعد ہو سکتا تھا۔ طالبان مذاکرات کے لئے امریکہ سے انخلاء اور امریکہ طالبان سے غیر مسلح ہونے کی شرط عائد کرتا تھا۔ گویا فریقین نے مذاکرات کے دروازے بند کر دیئے تھے۔ وزیراعظم عمران خان کی کوششوں سے امریکہ مذاکرت پر آمادہ ہوا طالبان کو بھی پاکستان نے قائل کیا اور براہ راست مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا اور آج کامیابی سے ہمکنار ہوتا نظر آ رہا ہے۔امریکہ طالبان مذاکرات میں بڑے نشیب و فراز آئے۔ ایک بار تو صدر ٹرمپ نے کابل میں ایک فوجی کے مارے جانے پر مشتعل ہو کر مذاکرات کی میز الٹ دی تاہم پاکستان کی ایک بار پھر کوشش سے مذاکرات کا سلسلہ جہاں سے منقطع ہوا وہیں سے شروع ہو گیا۔
کچھ قوتیں مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لیے شروع سے سرگرم رہی ہیں۔ ان میں بھارت سرفہرست ہے۔ اسی کے ایماپر افغان حکومت نے مذاکرات کی مخالفت کی جس کا اندازہ اس کے خبث باطن کے اظہار سے بھی ہوتا ہے۔ اشرف غنی کی کابینہ کے اہم ارکان زلمے خلیل زاد کو امریکی وائسرائے قرار دینے لگے۔ امریکہ کی طرف سے سختی سے شٹ اپ کال دی گئی مگر اشرف غنی انتظامیہ کے پیچ و تاب کھانے کا سلسلہ جاری رہا۔بھارت کو بارڈر مینجمنٹ کی بھی بڑی تکلیف ہے۔ اسی کے ایماء پر افغان انتظامیہ دہشت گردوں کی سرحد کے آرپار آزادانہ آمدورفت روکنے کے انتظامات کی شدید مخالفت کرتی رہی۔ ٹرمپ کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ منقطع کیا گیا تو مودی اور اشرف غنی نے سکھ کا سانس لیا تھا۔ اب امریکہ اور طالبان کے مابین امن معاہدہ ہوا ہے تو امن کی دشمن قوتوں کے سینے پر سانپ لوٹنا فطری امر ہے۔ بھارت کیلئے پاکستان میں مداخلت کیلئے افغانستان میں بدامنی آئیڈیل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اشرف غنی کو اپنے اقتدار کی بقا بھی شورش زدہ افغانستان میں مضمر نظر آ تی ہے۔ گو اب اشرف غنی نے کہا ہے کہ آج افغانستان کیلئے ایک تاریخی دن اور آج ہونے والے افغان امن معاہدے سے 19 سالہ طویل اور تباہ کن جنگ کا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہو جائے گا جس کیلئے پاکستان سمیت دیگر دوست ممالک کا شکر گزار ہوں۔ اشرف غنی پاکستان کے دورہ کے دوران ہمیشہ ریشہ خطمی نظر آتے رہے مگر افغانستان لوٹتے ہی پاکستان دشمنی عود کر آتی اور وہ زہر اگلنے لگتے۔ ان کے آج کے بیان کی بھی یہی حیثیت ہے۔ ان کے دوبارہ صدر بننے کے حلف کے الفاظ ابھی صدارتی محل میں گونج رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ نے کہہ دیا کہ یہ افغان عوام پر منحصر ہوگا کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کیسے کرتے ہیں۔ ایسے الفاظ نئی افغان حکومت کے غبارے سے ہوا نکالنے کیلئے کافی ہیں۔
حتمی معاہدے کے مراحل ابھی باقی ہیں۔ طالبان کو اقتدار میں کیسے شریک کیا جاتا ہے‘ ان کو اقتدار میں جس طریقے سے جو بھی حصہ ملتا ہے‘ اس سے مقتدر حکمران متاثر ہونگے۔ اگر انتخابات ہوتے ہیں تو آج کے حکمرانوں کے بالکل ہی فارغ ہونے کا بھی امکان موجود ہے۔ اگلے مرحلے میں انٹرا افغان مذاکرات ہونگے۔ ان مذاکرات کو وہ فریق مخدوش کرنے کی کوشش کر سکتا ہے جس کے مفادات زد میں ہیں۔طالبان نے گزشتہ 19 سال میں بہت اونچ نیچ دیکھ لی ہے۔ اسے اپنی قوت اور مخالف فریق کی طاقت کا اندازہ بھی ہو گیا ہے۔ امریکہ کو بھی اس حوالے سے کوئی شبہ نہیں رہا۔ آج جو بھی صورتحال ہے‘ فریقین بندوق اٹھا ئے رکھتے ہیں تو اگلی کئی دہائیوں میں کوئی فرق نہیں پڑ سکے گا۔ انسانیت یونہی سسکتی اور بلکتی رہے گی۔ خون بہتا رہے گا۔ فریقین نے دانشمندی سے کام لیا ہے۔ امن معاہدے کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے اب کسی سازش اور جذباتی پن کا شکار نہ ہوں۔ امن مخالفت قوتوں سے خبردار رہیں۔
پاکستان کے کردار کو فریقین نے سراہتے ہوئے خراج تحسین پیش کیا ہے۔ افغانستان میں امن کی بحالی سے پاکستان میں دہشت گردی کے مکمل خاتمے میں مدد ملے گی۔ افغان مہاجرین واپس اپنے گھروں کو لوٹیں گے تو پاکستان کی معیشت پر بوجھ کم ہوگا۔ افغانستان میں پاکستان سے مفرور دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم ہونگے بھارت بھی پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال نہیں کر سکے گا۔ افغانستان میں امن کی بحالی سے پاکستان اور خطے کے امن پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوگے۔ افغان عمل امن میں پاکستان کا کردار تو تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔ پاکستان کی کوششوں سے امریکہ آج افغان دلدل سے باعزت اور بحفاظت نکل رہا ہے۔ اسے پاکستان کے مفادات کا فوری احساس ہونا چاہئے۔ حکومت بھی ضرور باور کرا دے کہ امریکہ مسئلہ کشمیر حل کرا دے اور پاکستان پر بلاوجہ ایف اے ٹی ایف کی تلوار ہٹانے میں اپنا کردار ادا کرے۔

ای پیپر دی نیشن