پاکستان اورعمران خان کے ماتھے کاجھومر۔ افغان امن معاہدہ

اس معاہدے کا کریڈٹ ہر کوئی لیتاہے مگر ایک شخص جو شروع دن سے کہہ رہا تھا کہ افغانستان میںسو سال بھی فوجیں بٹھائے رکھو،اسے فتح کرنا ممکن نہیں،اور وہ ایک ہی بات کر رہا تھا کہ افغان مسئلہ جنگ سے نہیں ، بات چیت سے حل ہو گا، اس کا فوجی نہیں‘ سیاسی حل پائیدار ثابت ہو گا۔ دنیا نے ا س شخص پر طالبان خان کی پھبتی کسی مگر یہ شخص اپنے نظریات سے پیچھے نہیں ہٹا۔ اس کے فکری عزائم لڑکھڑائے نہیں، وہ تین دن پہلے قطر گیا، اس نے اس معاہدے کی جزئیات پر غور کیاا ور پھر اسے گرین سگنل دیا۔ تاریخ میں یہ شخص عمران خان کے نام سے امر رہے گا۔ امن کے نوبل انعام کا اگر اس لمحے کوئی حقدار ہے تو وہ وزیر اعظم عمران خان ہے۔
 افغان امن معاہدہ انتیس فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوا۔ اسے تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔اس کی گھن گرج مستقبل کی نسلوںکو بھی سنائی دے گی اور انسانیت کو  اس معاہدے پر ناز ہو گا کہ ا س نے اٹھارہ سالہ جنگ کے ماحول کو امن کی شاہراہ پر گامزن کیا ہے۔ اس نے دنیا کو ایک ا مید دی ہے کہ لوگ امن کی نیند بھی سو سکتے ہیں اور گھر سے نکلنے والے بچے شام کوزندہ سلامت واپس آ سکتے ہیں۔
 افغان جنگ نے نہ صرف افغانستان کاامن تاراج کیا بلکہ ہمسائے میں پاکستان بھی بری طرح لہولہان ہوا۔ افغانستان پر امریکی یلغار بے سبب تھی کیونکہ نائن الیون میں کوئی ایک افغانی بھی ملوث نہیں تھا ۔ افغانستان کا جرم صرف ایک تھا کہ یہاں اسامہ بن لادن قیام پذیر تھا جس پر امریکہ نے الزام عائد کیا کہ وہ نائن الیون کا منصوبہ ساز ہے۔ ہر ملک کا قانون ہے کہ وہ اپنے ہاںمقیم کسی بھی شخص کا ٹرائل خود کرتا ہے اور جرم ثابت ہونے پر اسے سزابھی خود  دیتا ہے۔ یہی کچھ ا فغانستان بھی کرنا چاہتا تھا مگر امریکہ بپھر اہو اتھا کہ وہ خود اسامہ کو قرار واقعی سزا دے گاا ور افغانیوں کو بھی ساتھ ہی سزا بھگتنا پڑیگی جو اسے امریکہ کے حوالے نہیں کر رہے۔ وہ دن اور آج کا دن، افغانستان کی سرزمین پر امریکہ سمیت نیٹو کی فوجیں اترتی رہیں۔ افغان سرزمین پر میزائل گرتے رہے، پورے ملک کے چپے چپے کو مقتل میں تبدیل کر دیا گیا۔ ہر سو لاشوں کے ڈھیر لگے تھے اور ان لاشوں کے جنازے پڑھے جاتے تو جنازوں پر بھی بمباری ہوتی۔ شادی کی تقریبات پر بمباری ہوتی۔ مزاروں پر بمباری ہوتی اوراسکولوں،کالجوں اور مارکیٹوں پر بمباری ہوتی۔ امریکہ اور اسکی اتحادی افواج کے پاس بموں اور مزائلوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ وہ جرات ا ور دلیری سے محروم تھے۔ ان کے قدم زمین پر نہیں ٹک سکتے تھے اور عالم یہ تھا کہ افغان عوام نے اپنی ٹوٹی پھوٹی بندوقوں سے میزائلوں، توپوں اور ٹینکوں کا  مقابلہ کیا اور غیر ملکی افواج کوایک محدود علاقے میں محصور کر کے رکھ دیا۔ باقی سارا ملک ان مجاہدین کے قبضے اور کنٹرول میں تھا۔
اس جنگ میں پاکستان سے ایک غلطی ہوئی اور یہ غلطی جنرل مشرف سے سرزد ہوئی کہ اس نے پاکستان کی سرزمین امریکہ کے تصرف میں دے دی،جہاں سے امریکہ نے افغانیوں پر بے دریغ ڈرون حملے کئے اورنیٹو افواج کو جنگی سپلائی مہیاکی۔ مگر آفریں ہے افغانیوں پر کہ جنہوں نے پاکستان کی مجبوری کا خیال کیا اور اسے اس گناہ کی سزا تک نہ دی۔ وہ ہمیشہ کی طرح پاکستان کے شیدائی اور فدائی بنے رہے ۔ یہی وہ باہمی اعتماد ہے جس کی و جہ سے امریکہ اور افغانیوں میںمذاکرات کے دور چلے۔ ان مذاکرات میں پاکستان نے ہمیشہ سہولت کاری کی اور افغانیوں کو قیام امن کی طرف مائل کرنے کی کوشش جاری رکھی جو بالآخر ہفتے کے روز ایک تاریخی امن معاہدے پر منتج ہوئی، پاکستان اس معاہدے کا بجا طور پر کریڈٹ لے سکتا ہے ۔ پاکستان کے وزیرا عظم اس پر بجا طور پر کریڈٹ لے سکتے ہیں کہ وہ ہمیشہ جنگ کے بجائے مذاکرات کے اصول پر کاربند رہے ہیں اور پاکستان کی مسلح افواج کو اس معاہدے کا کریڈٹ جاتا ہے جنہوںنے سوویت روس کیخلاف جہاد کی کامیابی میں افغانیوں کیساتھ قربانیاں دی تھیں، افغان قوم کبھی احسان فراموش نہیں ہوتی اور اس نے پاکستان کے ماضی کے احسانات کے بدلے امن معاہدے پر دستخط کئے اور ایک نئی تاریخ رقم ہو گئی۔
آج پاکستان میںجشن کا سماں ہے۔ افغانستان میں جشن منایا جا رہا ہے کہ ان بہادر لوگوںنے ایک بار پھر ثابت کیا کہ کوئی بڑے سے بڑا لشکر بھی اس غیور قوم کو زیر نہیں کر سکتا۔اس امن معاہدے کاجشن امریکہ اور نیٹو ممالک میں بھی منایا جا رہا ہو گا کہ انہیں اب سکون کی نیند میسرآئے گی۔ دنیا بھر کی امن پسند اقوام بھی اس امن معاہدے پر شاداں و فرحاں دکھائی دیتی ہیں مگر ایک ملک ایساہے جہاں صف ماتم بچھی ہے اور یہ صف ماتم اصل میں ایک ہفتہ قبل ہی ٹرمپ کے دورے نے بچھا دی تھی، ٹرمپ کی گفتگو سے ہندواتا کے علم برداروں پر مردنی چھا گئی تھی اور انہوںنے اپنا فوری بدلہ نئی دہلی کے بے چارے اوربیگناہ مسلمانوں سے لیاا ور بہیمانہ طور پر لیا۔ فاشسٹ طریقے سے بدلہ لیا۔ ہزاروں گھر،ہزاروں دکانیں ہزاروںگاڑیاں جلا کر راکھ کر دی گئیں مگر وہ راکھ جو’’ ہندواتا‘‘ کے ماننے والے دلوں میں ڈھیر کی شکل میں پڑی ہے،ا س سے صدیوں تک دھواں نکلتا رہے گا، ٹرمپ نے ہندو انتہا پسندوں کی سوچ کو جو چنگاری دکھائی ہے ،وہ ایک الائو بن کر بھڑکتی رہے گی۔ بھارت نے افغانستان میں پاکستان کیخلاف دہشت گردی کے جو کیمپ لگائے تھے،وہ یکایک سیاہ ہو کررہ گئے۔’’ را ‘‘  اور  ’’این ڈی ایس‘‘ کاا تحاد پارہ پارہ ہو کر رہ گیا، اب بھارت آسانی سے پاکستان کیخلاف دہشت گردی کی سازشیں پروان نہیں چڑھا سکتا اور وہ جو پاکستان کو مغربی سرحد سے خطرات درپیش تھے، ان کا آن واحد میں خاتمہ ہو گیا۔
 آج کے دن پاکستان کی قابل ِفخر’’ آئی ایس ا ٓئی‘‘ کو  بھی سلام پیش کرنا ہمارا فرض ہے، جس نے دنیا کی ساری انٹیلی جنس ایجنسیوں کی سازشیں خاک سیاہ کر دیں اور انہیں راکھ کے ڈھیر میں بدل دیا۔ ’’آئی ایس آئی‘‘ کی دھاک دنیا پر پہلے ہی کم نہ تھی مگر کابل میں انقلاب کی گھن گرج نے اس ادارے کا سر بلند کر دیا ہے۔ اور اس کا مان بڑھا دیا ہے۔
 اور عمران خان کو جو لوگ’ طالبان خاں ‘کا نام دیتے تھے اور ڈرون حملوں کے خلاف اسکے جلوسوں کا جو تمسخر اڑاتے تھے، آج ان کی گردنیں شرم کے مارے جھک جانی چاہئیں، عمران خان صرف ایک کرکٹر تھا مگر آج وہ دنیا کے مدبر لیڈروں اور جنگی حکمت کاروں میں سر اُٹھا کر کھڑا نظر آتا ہے۔
 اور میرا قلم خاک  اور خون سے اٹے مجاہدوں کی قدم بوسی کیلئے بے تاب ہے جنہوںنے  پہلے ایک سپرپاور کو شکست وریخت سے دوچار کیاا ور آج دنیا کی باقی ساری قوتیں خاک چاٹتی نظر آتی ہیں۔
یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
 سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
نائن الیون کے سانحے کے پانچ منٹ بعد امریکی صدر بش نے  بڑھک لگائی تھی کہ اب  نئی صلیبی جنگ لڑی جائے گی۔تاریخ نے یہ معجزہ دیکھا کہ پہلی صلیبی جنگوں کی طرح اس صلیبی جنگ میں بھی خون آشام طاقتوں کو شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا۔ افغانوںنے  ایک بار نہیں ،دو بار بدر اور مکہ کی فتوحات کی یاد تازہ کر دی۔ اور پاکستان کی دفاعی، سفارتی حکمت عملی اور دانش کی دھاک سے دنیا صدیوں تک لرزتی رہے گی۔ 

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن