فروری 2020 میں ترک صدر رجب طیب اردگان نے پاکستان کا تاریخی دورہ کیا عموماً اس قسم کے سرکاری دوروں میں صدر کے ہمراہ وزارتِ خارجہ کے اہم حکام اور سرکاری افسران کے وفود ہوتے ہیں لیکن اس دورہ میں صدر کے ہمراہ ان کی اہلیہ اہم سیاسی اتحادی اور بااثر کاروباری شخصیات مہمانان میں شامل تھے۔ ان کا یہ غیر معمولی دورہ غیر متوقع نہیں تھا ۔ ترکی اور پاکستان کو بیک وقت ایک ہی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے جس میں دونوں ممالک باہمی تعاون سے اپنے لیے حالات سازگار بنا سکتے ہیں۔ اردگان کے دورے کا بنیادی محرک معاشی باہمی تعلقات کا احیا ء تھا۔ طویل سماجی اور خارجہ تعلقات کے باوجود پاکستان اور ترکی کے مابین تجارت کا حجم بمشکل 900ملین ڈالرز پر محیط ہے۔ جو صحیح طور پر مواصلاتی پلاننگ اور تجارتی مذاکرات سے کم از کم پانچ گنا بڑھایا جا سکتا ہے۔ ترکی کی آبادی 80ملین جبکہ پاکستان کی 212ملین کے لگ بھگ ہے۔دونوں ممالک مضبوط تجارتی تعلقات استوار کر کے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ترکی میں تیار کی جانے والی مصنوعات یورپی مصنوعات کی ہم پلہ اور ہم معیار ہیں۔ صحیح اور باہمی کی جانے والی کوششوں سے پاکستان اپنے در آمدی بوجھ کو امریکہ اور مغربی یورپ سے ترکی منتقل کر کے کم کر سکتا ہے جس سے کم خرچ میں اتنا ہی معیاری ساز و سامان مہیا ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف ترک ایک وسعت پذیر قوم ہے ، وہ معاشی آغاز کی راہ پر گامزن ہیں۔ جس کے لیے انہیں ہنر مند افرادی قوت اور خریداروں کی ضرورت ہے اس حوالہ سے پاکستان ایک مستحکم مارکیٹ ہے۔ پاکستان امید کر رہا ہے کہ ترکی پاکستان کو ٹیکسٹائل ایکسپورٹ پر رکھی جانے والی کسٹم ڈیوٹی میں 20فیصد چھوٹ دے گا جس کے نتیجے میں پاکستان میں ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کے شعبوں کو تقویت ملے گی۔ 60سے زائد ترک کمپنیاں توانائی، اسلحہ ، ٹرانسپورٹ اور ٹیلی مواصلات کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی خواہاں ہیں۔ خصوصی اقتصادی زون ترکی کے لیے مستقبل کی تجارت اور تجارتی امکانات کے حوالے سے خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس حوالے سے اس حقیقت سے بھی آشنا ہونا ضروری ہے کہ ترکی پہلے ہی برکس (BRICS)کے تشکیلی اقدام کا حصہ دار ہے جس کے اقتصادی خود مختاری کے پروگرام میں امریکہ اور مغربی ممالک کو شامل نہیں کیا گیا۔
اردگان نے اسلام آباد میں اعلیٰ سطحی اسٹریٹیجک کو آپریشن کونسل کے چھٹے اجلاس میں شرکت کی جو صدر کی زیرِ صدارت ایک مکمل کابینہ کی طرح ہے تاکہ تجارت اور اقتصادی شراکت کو بڑھانے کے لیے کثیر الجہتی اقدامات اٹھائے جائیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق قانونی طور پر ترکی میں صرف 2000پاکستانی جبکہ پاکستان میں محض 200ترک مقیم ہیں۔ اس حوالے سے وزارتِ خارجہ ، انسانی وسائل اور اوورسیز ہیومن ریسورس کی وزارت کو ذمہ داریاں سونپ دی گئیں ہیں کہ وہ انسانی اور ثقافتی تبادلے کے پروگراموں کو بڑھانے کے لیے ضروری اقدامات کریں۔ سیاحت کے شعبے میں بھی دونوں ممالک ایک دوسرے کے لیے بھرپور معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ پاکستان قدرتی حسن اور نباتات سے بھر پور ملک ہے لیکن سیاحتی ناقص پالیسیوں اور سہولیات کی عدم دستیابی کے ساتھ ساتھ سکیورٹی وجوہات کی بناء پر پاکستان اس شعبے سے قابلِ قدر زرِ مبادلہ حاصل کرنے میں ناکام ہے جبکہ اس کے بر عکس ترکی سیاحت کے شعبے سے سالانہ 31.5بلین ڈالرز حاصل کر رہا ہے اس حوالے سے سیاحت کے شعبے میں ہنگامی اقدامات کرنے کے لیے ترکی کے پالیسی ساز اداروں سے مدد اور رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔
سیاسی محاذ پر ترکی نے پاکستان کے بہت سے خاموش اتحادیوں کے بر عکس کشمیر کاز کے لیے واشگاف انداز میں آواز اٹھائی ہے۔ اگرچہ کشمیر پر ترکی کے سخت اور واضح مؤقف کی وجہ سے ترکی اور بھارت کے مابین تجارتی تعلقات متاثر ہوئے لیکن رجب طیب اردگان جیسے بلند قامت رہنما نے اس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے موجودہ دورے میں بھی پاکستان کے مؤقف کی بھرپور تائید کی ہے۔ دونوں ممالک نے اسلاموفوبیا کے خلاف مشترکہ جدوجہد اور دونوں ممالک کی افواج نے انسدادِ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ روابط مضبوط کرنے کا اعادہ کیا ہے۔ ترکی کو شام کے ساتھ اپنی غیر محفوظ سرحدوں اور مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اپنے مؤقف کی بناء پر امریکی محاذ آرائی کا سامنا ہے بالکل اسی طرح جس طرح پاکستان کو افغانستان اور بھارت کے ساتھ اپنے غیر محفوظ سرحدوں اور دراندازی جیسے مسائل کا سامنا ہے یہی نہیں ترکی اور پاکستان کے مابین عوامی سطح پر محبت و اپنائیت کے جذبات ہر طرح کی قدرِ مشترک سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہیں۔ اسلام آباد میں صدر اردگان کے آخری الفاظ صحیح معنوں میں مبنی بر حقیقت تھے کہ ـ’’ہماری دوستی مفادات نہیں بلکہ محبت پر مبنی ہے‘‘۔
(مضمون نگار جناح رفیع فائونڈیشن کے چیئر مین ہیں)