واشنگٹن+کابل +تہران( شنہوا+نوائے وقت رپورٹ) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغان ہم منصب اشرف غنی کو ٹیلی فون کیا۔ اشرف غنی نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے امن عمل میں ہفتہ کے روز ہونے والی اہم پیشرفت پر مبارکباد دی ہے۔ امریکی صدر نے افغان حکومتی قیادت پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔ امریکی صدر نے اگلے اقدامات کیلئے افغان قیادت کی صلاحیت کو بھی قابل بھروسہ قرار دیا۔ اس سے قبل افغان صدر محمد اشرف غنی نے 10 روز کے اندر 5 ہزار قیدیوں کی رہائی کا طالبان تنظیم کا مطالبہ مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ بین الافغان مذاکرات کیلئے کوئی پیشگی شرط قابل قبول نہیں ہے۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر کے شہر دوحہ میں ہفتہ کو ہونے والے امن معاہدہ کے ایک روز بعد صدارتی محل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اشرف غنی نے کہا کہ 5 ہزار قیدیوں کی رہائی کا کوئی وعدہ نہیں کیا گیا۔ اس معاملے کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ایجنڈا میں شامل کیا جاسکتا ہے اور اسی صورت میں جب رہا ہونے والے کسی بھی قیدی نے افغان عوام کیخلاف ہتھیار نہ اٹھائے ہوں گے۔ صدر اشرف غنی نے کہا کہ طالبان قیدیوں کو رہا کرنا امریکہ کی بجائے افغان حکومت کا اختیار ہے۔ افغان صدر نے کہا کہ ان کی حکومت افغانستان میں پائیدار امن کی بحالی کو یقینی بنانے اور گزشتہ 19 سالوں میں خواتین کے حقوق سمیت حاصل کردہ تمام کامیابیوں اور اقدار کے تحفظ کیلئے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھے گی۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان تقریباً 18 ماہ تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد فریقین نے ہفتہ کو دوحہ میں ایک معاہدے پر دستخط کئے ہیں جس کے تحت امریکہ معاہدے کے بعد 135 دنوں کے اندر افغانستان میں اپنی فورسز کی موجودہ تعداد 13 ہزار کو کم کرکے 8 ہزار 600 تک لے آئے گا۔ افغان صدر نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ تشدد میں نام نہاد کمی کو پورے ملک میں جنگ بندی میں تبدیل کیا جائے گا تاکہ افغانستان میں قابل عمل امن کی واپسی کی راہ ہموار ہوسکے۔ افغان صدر اشرف غنی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کے 5 ہزار قیدیوں کی رہائی کا کوئی وعدہ نہیں کیا۔ طالبان کے قیدیوں کا معاملہ افغانستان کے عوام کا حق خود ارادیت ہے۔ انٹر ا افغان مذاکرات کے لیے اگلے 9 دن میں مذاکراتی ٹیم تشکیل دے دی جائے گی۔ افغان صدر نے کہا کہ امریکہ قیدیوں کی رہائی میں مدد فراہم کر رہا ہے جب کہ قیدیوں کی رہائی پر فیصلے کا اختیار افغان حکومت کا ہے۔ اشرف غنی نے کہا کہ افغانستان میں 7 روز کی جزوی جنگ بندی جاری رہے گی، جزوی جنگ بندی مکمل جنگ بندی کے مقصد کے حصول تک جاری رہے گی۔ایران نے گزشتہ روز امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے اسے افغانستان میں اپنی غیر قانونی موجودگی کا جواز قرار دیدیا۔ ایرانی میڈیا کے مطابق وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں امن کا قیام صرف طالبان اور افغانیوں کے درمیان امن مذاکرات سے ہی ہوگا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکا کے اس معاہدے کا مقصد افغانستان میں اپنی غیر قانونی موجودگی کا جواز فراہم کرنا ہے۔ ایران افغانستان کی خود مختاری اور پائیدار امن سے متعلق ہر معاہدے کا خیر مقدم کرے گا۔ ایرانی وزارت خارجہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ امریکہ کے پاس امن معاہدے اور افغانستان کے مستقبل کا تعین کرنے کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ امریکہ افغانستان کے مستقبل کے تعین کا حق نہیں رکھتا۔ امریکہ امن معاہدہ کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتا۔ افغانستان میں امن و استحکام اندرونی مذاکرات، پڑوسی ممالک کے مفادات کا خیال رکھنے سے ہی ممکن ہے۔ معاہدہ سے امریکہ نے افغانستان میں اپنی افواج کی موجودگی کو قانونی جواز فراہم کر دیا ہے۔ افغانستان میں امن کیلئے کی گئی کوششوں کا خیرمقدم کرتے ہیں۔اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ انہوں نے دوحہ قطر میں امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو پر واضح کر دیا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کو خراب کرنے والوں پر نظر رکھنا ہوگی۔ ماحول خراب کرنے والوں کے خلاف میکنزم رکھنا ہوگا۔ معاہدہ کے بعد جو پیشرفت ہوئی ہے، جو تحرک بنا ہے اسے جاری رکھنا ہوگا۔ قیدیوں کی رھائی کو جلد ممکن بنانا ہوگا تاکہ اعتماد بڑھے۔ معاہدے کے اگلے مرحلے پر بروقت عمل ہونا چاہئے۔ افغانستان کی داخلی سیاست کو رکاوٹ نہیں بننا چاہئے۔ امریکہ کے وزیرخارجہ پر زور دیا کہ سارے عمل میں اپنا کردار جاری رکھے۔ انہوں نے قطر سے واپسی پر گزشتہ روز پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔ سیکرٹری خارجہ اور ترجمان دفتر خارجہ بھی اس موقع پر موجود تھے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ دوحہ میں ایک تاریخی معاھدے پر دستخط ہوئے ہیں۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ مستقل امن کی طرف پہلا قدم تھا۔ پچاس سے زائد ممالک کے نمائندوں نے دستخطوں کی تقریب میں شرکت کی۔ پاکستان کی طرف سے امریکی حکام اور طالبان کو اس معاہدے پر مبارکباد دیتا ہوں۔ پاکستان کی رائے میں اہم قدم ہے جس سے انٹرا افغان مذاکرات کا ماحول پیدا ہوگا۔ ناروے کی وزیرخارجہ سے دوطرفہ ملاقات میں آئندہ کے لائحہ عمل پر بات ہوئی۔ ناروے انٹرا افغان مذاکرات کے لئے تیار ہے۔ افغانوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ امن کے ماحول کے لئے کیا کردار ادا کرتے ہیں۔ افغانوں نے طویل بدامنی دیکھی ہے امن سے وہ سکھ کا سانس لیں گے۔ انٹرا افغان مذاکرات کے لئے معاون ماحول پیدا کرنا ہوگا۔ ہم دعاگو کہ افغان اس پر اتفاق کریں کہ وہ کیسا افغانستان دیکھنا چاہتے ہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ افغان قیادت کتنی لچک دکھاتی ہے۔ دوحہ میں جو ماحول تھا وہاں پاکستان کے کردار کو سراھا گیا۔ وزیرخارجہ پومپیو سے ملاقات کی اور تین چار نکات رکھے۔ پہلا نکتہ یہ رکھا کہ اس معاھدے کو خراب کرنے والوں پر نظر رکھنا ہوگی جو افغانستان کے اندر اور باھر سے ہیں۔ ماحول خراب ہونے والوں کے خلاف میکنزم رکھنا ہوگا۔ معاھدہ کے بعد جو مومینٹم بنا ھے اسے جاری رکھنا ہوگا۔ قیدیوں کی رھائی کو جلد ممکن بنانا ہوگا تاکہ اعتماد بڑھے۔ معاھدے کے اگلے مرحلے پر بروقت عمل ہونا چاہئے۔ افغانستان کی داخلی سیاست کو رکاوٹ نہیں بننا چاہئے۔ امریکہ کے وزیرخارجہ پر زور دیا کہ سارے عمل میں اپنا کردار جاری رکھے۔ افغانستان میں ری کنسٹرکشن اور مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے بین الاقوامی برادری کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ تاجک، ازبک اور ترکمان ہم منصبوں سے بھی دوحہ میں ملاقات کی۔ افغانستان میں امن کی صورت میں اس کے فوائد سے پاکستان اور سنٹرل ایشیائی ممالک کو استفادہ کرنا ہوگا۔ افغان امن سے علاقائی روابط کے امکانات پر تبادلہ خیال کے لئے سنٹرل ایشیائی ممالک کا دورہ کروں گا۔ ترک ھم منصب سے بھی تفصیلی بات ہوئی، شام میں ترک فوجیوں کی شہادت پر دکھ کا اظہار کیا۔ امن کے عمل میں اپنا کردار ادا کیا اور کرتے رہیں گے۔ انٹرا افغان گفتگو کے دوران ضرورت پڑنے پر سہولت کار کا کردار جاری رکھیں گے۔ قیدیوں کے معاملہ پر امید رکھتا ہوں دونوں اطراف اپنا کردار ادا کریں گے۔ صدر اشرف غنی کی فہم و فراست سے امید ہے قیدیوں کی رھائی بروقت ممکن ہوگی۔ امید ہے کہ افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔ امید ہے بھارت سمیت کوئی پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال نہیں کرے گا۔ ھم افغان امن و استحکام اور خوشحالی کے لئے اچھا کردار ادا کریں گے۔ افغانستان میں امن کا ہمین فائدہ پہنچے گا۔ افغانستان میں امن سے ہمیں وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ بہتر رابطہ ملے گا۔ پاکستان کا واضح موقف رھا کہ افغان مسلہ کا کوئی عسکری حل نہیں، امریکہ افغان معاھدے نے اس کو ثابت کر دیا۔ پاکستان سوات سمیت قبائلی بیلٹ کو دھشت گردوں سے پاک کیا۔ آپریشن ردالفساد نے امن قائم کرنے میں اھم کردار ادا کیا۔ قبائلی علاقہ جات کو کے پی کا حصہ بنایا گیا، وہاں امن ترقی اور خوشحالی آ رہی ہے۔ افغانستان کے ساتھ خاردار باڑ لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان نے جو کرنا تھا وہ کیا ہے، امریکہ کا کوئی ڈومور کا مطالبہ نہیں۔ ھم نے تمام اقدامات اپنے مفاد میں اٹھائے ہیں۔ کشمیر میں تو لاک ڈاوان کیا گیا عالمی میڈیا کو روکا گیا۔ کیا دلی میں بھی لاک ڈاون ہوگا کیا وہاں عالمی میڈیا کوریج رکے گی۔ باالکل بھارت ایسا نہیں کر پاِئے گا۔ بھارت کو امتیازی قانون پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ فتح حق کی ہوگی۔ بی جے پی کی حکومت کشمیر میں پانچ اگست کے بعد کے اقدامات کو ہضم نہیں کر سکے گی۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان تاریخی دوحہ امن معاہدہ افغانستان میں امن و استحکام کی طرف پہلا قدم ہے، افغانوں نے اپنے ملک کے مستقبل بارے فیصلے خود کرنا ہیں۔ افغانستان میں دیرپا امن اور استحکام کے لئے افغان عوام کی کوششوں کی حمایت کی پالیسی جاری رکھیں گے۔ چاہتے ہیں افغان پناہ گزین پرامن طریقے سے واپس لوٹیں۔
اشراف غنی کو فون: امن معاہدہ، اقدامات کیلئے افغان قیادت قابل بروسہ: ٹرمپ
Mar 02, 2020