بھارت کا مرکزی دارالحکومت نئی دہلی فروری کے دنوں میں فرقہ ورانہ ہندو نسل پرستی کی بدترین آگ کے شعلوں میں لپٹا دنیا بھر کی تشویش ناک توجہ اپنی جانب مبذول کرائے ماضی کی اپنی کئی بار کی بربادیوں کی سیاہ تاریخ کودہرارہا ہے، دہلی کے حکمران چاہے ریاستی حکمران ہوں یا مرکزی اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے حکمران،ان میں سے کسی جانب سے بھی ان خونریزدنگوں کے بے لگام اور جنونی فسادیوں کو روکنے کی کوئی ذرا سی کوشش نہیں کی گئی، جس کے انتہائی افسوس ناک اور المناک نتیجے سامنے آئے دنیا نے دیکھا کہ دہلی کے مشرقی علاقوں کے مسلمانوں کے گھروں کو جلایا جارہا ہے اْن کے مال واسباب کو لوٹا جارہا ہے مسلمانوں کی ٹرانسپورٹس نذر آتش کی جارہی ہیں آرایس ایس کے مسلح جتھوں کی غنڈہ گردی کو دلی پولیس کی مکمل آشیر باد حاصل نظرآرہی ہے یہ نہیں کہ نئی دہلی میں مرکزی حکومت کی سرپرستی میں یہ فرقہ ورانہ فسادات اچانک ابھرے بلکہ بھارت بھر کے مختلف شہروں میں یہ پْرتشدد ہنگامے اْس وقت ابھرے جب سے لوک سبھا میں شہریت کے متنازعہ ترمیمی بل کے فتنہ نے سراْٹھایا، جس متنازعہ شہریت کے بل کے فوری منفی اثرات نے آسام کے کم وبیش انیس لاکھ بھارتی باشندوں کی شہریت کے بنیادی حق کو سلب کرلیا گیا،ایک ارب چالیس کروڑ انسانوں کے دیش بھارت میں پل بھر میں بے چینی پھیل گئی تھرتھلی سی مچ گئی، انسانوں کے اتنے بڑے کثیرالہجوم ملک میں دیکھتے دیکھتے اْس ملک کے رہنے والوں کے درمیان بداعتمادی کی چنگاریاں باہم سلگ اْٹھیں بات آسام تک ہی نہیں رہی بی جے پی کے سنگھ پریوارکے سیاسی کارسیوکوں کی مرکزی حکومت کے متشدد خیال اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے ’’مودی کے چیلوں‘‘ نے صدیوں سے نسل درنسل بھارت میں آباد مسلمانوں پرعرصہ ِحیات تنگ کرنا شروع کیا تو پھرباقی پیچھے کیا بچا؟ دنیا کل تک بھارتی جمہوریت کی’نام نہاد عظمتوں‘کے گن گاتی تھکتی نہیں تھی آج انگشت بدنداں دنیا نئی دہلی کو تک رہی ہے جہاں کی جمہوریت میں سے ’’نام نہاد عظمت‘‘کاہی نہیں بلکہ دھکاوے کے ’’سیکولرازم‘‘کا لاحقہ بھی کب کا کہیں مرکھپ چکا ہے، بھارتی جمہوریت اب خالص ’’ہندوتوا‘‘کے ’’بھگوا‘‘میں لپٹ چکی ہے جسے یوں سمجھا جائے کہ بھارت میں صرف ’’براہمن وادی جاتی‘‘کے پیروکار وں کو ہی زندہ رہنے کا حق ہیں بھارت کی زمین پر مسلمانوں، عیسائیوں،بدھسٹوں، سکھوں اوردیگر اقلیتوں کے رہنے بسنے پر پابندی ہوگی راقم یہاں اپنے قارئین
کی توجہ بھارت میں نافذ ہونے والے اس شہریت کے متنازعہ ترمیمی بل کی اْس ایک شق پر مختصرا ًاپنی رائے دینا چاہے گا کہ نئی دہلی صرف اپنی بات کرئے نئی دہلی کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ پاکستان میں رہنے والی ہندوبرادری کا نام لے اور اْنہیں یہ جتلائے کہ اب وہ پاکستان کی شہریت چھوڑ کر بھارت آسکتے ہیں ؟ دنیا بخوبی آگاہ ہے کہ پاکستان میں اقلیتیں مکمل طور پر آزاد ہیں اْنہیں پاکستان میں برابر کا شہری تصور کیا جاتا ہے، پاکستان کے ہر حصہ میں قائم اقلیتوں کی عبادت گاہیں مقدس تصور کی جاتی ہیں پاکستان کے اہم سرکاری عہدوں پر پاکستانی ہندووں کے علاوہ دیگر اقلیتی برادری کے ممتاز افراد ماضی میں بھی متمکن رہے آج بھی کئی اعلیٰ شہرت یافتہ افراد اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں’’ لہذا بھارت اپنی نیبیڑے‘‘ پاکستان کی وفادار ہندوبرادریوں کو شہریت دینے کی دہائیاں دینا بند کرئے، یہ مکاریاں وہ اپنے آپس رکھے، پاکستان کا آئین بین المذاہب ہم آھنگی کے نکات کو اولیت دیتا ہے پاکستان میں عوامی مقبولیت کی حامل جمہوری معاشرہ قائم ہے پاکستانی عوام بلاتفریق مذہب اوررنگ ونسل اپنے جمہوری معاشرے میں رہتے ہوئے بہتر سے بہتر زندگی گزارتے ہیں اور پاکستانی عوام اور سیاسی زعما بارہا اس جانب توجہ دلاتے رہتے ہیں کہ پاکستانی لوگ اپنی سماجی وثقافتی زندگیوں ان ہی کسوٹی کے مطابق اپنی آزادی کو ایک ترتیب میں ایک نظم میں استواررکھیں جن کی معروف حدیں اْن کے دین نے واضح کررکھی ہیں مسلمانوں کے رسول ختمی المرتبت حضورﷺ نے اپنی ایک متفقہ حدیث میں ارشاد فرمایا ہے کہ’’ تمام لوگ کنگھی کے دندانوں کی طرح یکساں ہیں اسلام رنگ ونسل،عمر ،قومیت یا جسمانی خوبیوں کی بناء پرانسانوں میں تمیز نہیں کرتا‘‘ ایک اور موقع پر ہمارے نبی حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ’’ تم سب آدم کی اولاد ہواورآدم مٹی سے بنے تھے اے اللہ کے بندو، آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ ،وہ لوگ جو پہلے پیدا ہوئے یا جن کے پاس زیادہ دولت ہے یا جو لوگ کسی خاص خاندان یا لسانی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں دوسروں پر حکمرانی کا وہ وراثتی حق نہیں رکھتے‘‘ ہے کوئی جو انصاف سے بتائے کہ بی جے پی کے انتہا پسند جنونیوں نے آج اپنے ہی ملک کو کس نچلے مقام پر پہنچادیا ہے انیس سوچوراسی میں سکھوں کے قتل عام کے بعد آج بھارت کے بڑے شہروں میں بھارت کی سب سے واضح اقلیت مسلمانوں کو عملا ً’’مسلمان‘‘ہونے کی سزا دی جارہی ہے اْن پر دباو ڈالا جارہا ہے کہ وہ ’’اپنا مذہب چھوڑیں یا بھارت کی سرزمین چھوڑیں‘‘ بدترین فسطائیت کے اس مودی فتنے‘‘کے نتائج پر کسی نے غور کیا ہے؟ جبکہ دنیائے اسلام کی واحد ایٹمی ریاست پاکستان نے انسانی برداشت اور تحمل مزاجی کی مثال قائم کرتے ہوئے اقوام عالم کو بارہا یہ باورکرایا کہ ’’طاقت‘‘ پر ہی بھروسہ رکھنے کی پالیسیاں کبھی کامیاب نہیں ہوتیں کیونکہ سمجھنا ہوگا کہ ’’طاقت‘‘ہمیشہ ’’حق‘‘میں پوشیدہ ہوتی ہے جس سے یہ اصول رد ہوجاتا
ہے کہ ’’حق کا دارومدار’’طاقت‘‘پر ہوتا ہے لہذا یہاں ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ ’’طاقت‘‘ اور’’حق کے دارومدار‘‘ کے اصولوں کو جب بھی کہیں مانپا گیا تولا گیا تو ’’انصاف اور قانون کی حکمرانی‘‘ کی بنیاد پر مانپا گیا اور اْس کا توازن قائم کیا جاتا رہا ہے ‘‘کتنی ندامت اور شرمناکی بھارتی اعلیٰ عدلیہ کو اْس وقت اْٹھانی پڑی ہوگئی، جب نئی دہلی کے حالیہ فسادات کے متاثرین نے بھارتی اعلیٰ عدلیہ کے دروازے کھٹکھٹائے تو راتوں رات اْن کی فریادیں سننے والے ایک مقتدر فاضل جج کو فارغ کردیا گیا یہی نہیں بلکہ اس سے قبل متنازعہ شہریت کے ترمیمی بل کے حق میں یکطرفہ فیصلہ سنایا گیا اور تازہ ترین اورمصدقہ اطلاعات یہ ہیں کہ بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے پر آرایس ایس کے حمائتی ایک جج کو بٹھادیا گیا ہے اور بھارت میں آرایس ایس ’’نسل کشی‘‘جیسے جرائم پر اتر آئی ہے ،بھارت میں مشاورت پر مبنی نظام اپنی موت مرچکا ہے ،وہاں اب نہ عقیدے محفوظ نہ ذاتی آزادیا محفوظ بیرونی دخل اندازیوں کا ہر کسی کو وہاں ہمہ خطرہ لاحق ایک مثال مقبوضہ وادی دنیا کے سامنے جبکہ ’’سی اے اے‘‘کے عملاً نفاذ کے بعد بنیادی انسانی حقوق بھی ختم کردئیے گئے ہیں بھارت جتنی بھی اطلاعات دنیا تک پہنچ رہی ہیں اْن کا واحد ذریعہ مغربی ذرائع ابلاغ اور بھارتی آزاد سوشل میڈیا سے آرہی ہیں لہذا ملکی پرائیویٹ ذرائع ابلاغ اور پاکستانی سوشل میڈیا کے سبھی میڈیمزکا یہ انسانی فریضہ ہے کہ اب وہ مظلوم بھارتی مسلمانوں کی آوازبن جائیں پاکستان بھر کے ہر اْس علاقہ تک اپنی رسائی ممکن بنائیں جہاں پاکستانی اقلیتیں بستی ہیں خاص طور پر پاکستانی نژاد ہندوؤں سے بات کریں جو پاکستان میں مکمل آزادی کے ساتھ رہتے بستے اور اپنا اپنا کاروبارزندگی پْرامن طور پر بسرکررہے ہیں، اِس بارے میں تازہ ترین دستاویزی کلپس بنائی جاسکتی ہیں، لہذا ہنگامی طور پر ہمیں بھارت کی اختیار کی ہوئی انسان دشمن پالیسیوں کے خلاف دنیا میں اس کا بھیانک اور سیاہ چہرہ دکھانے کے لئے اپنی کمریں کس لینی چاہئیں۔
شہریت ترمیمی بل ،نسلی تعصبات میں سلگتا بھارت
Mar 02, 2020