پل شیخانی  پر ایک افسوسناک واقعہ

ڈیرہ غازیخان کے تھانہ شاہ صدردین کے علاقہ پُل شیخانی پر ایک حملہ آور نے بھرے بازار میں اندھا دھند فائرنگ کر کے 7افراد کی جانیں لے لیں اور 8سے زائد افراد اس کی گولیوں کا نشانہ بن کر زخمی ہو گئے تھے چنانچہ اس اندوہناک سانحہ پر قلم اُٹھاتے ہوئے دل غم کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ہوا ہے دل صدمے سے دوچار ہے قلم متذبذب ہے الفاظ افسردہ ہیں کہ ہم کس معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں پر انسانی جانوں کی کوئی وقت نہیں کیا یہ وہی ضلع ڈیرہ غازیخان ہے کہ یہاں کے باشندے مہمان نوازی ،محبت و خلوص ،رواداری میں اپنی مثال آپ تھے ۔ہر طرف امن وامان تھا یہاں کے باشندے پرُر سکون زندگی گزار رہے تھے مگر کچھعرصہ میں اس ضلع کو کس کی نظر لگی کہ قتل و غارت گری ،ڈکیتی ،رہزنی ،جیسی سنگین وارداتوں سے نہ صرف شہری غیر محفوظ ہو کر رہ گئے بلکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اُن گینگ کی آئے روز کی وارداتوں سے بادالنظر میں بے بسی کی تصویر نظر آنے لگے ۔ڈیرہ غازیخان کے تھانہ شاہ صدر دین کے علاقہ شیخانی پُل جو کہ ایک کاروباری مرکز ہے نزدیک و دور سے دیہاتی لوگ پُل شیخانی کے بازار سے ہزاروں کی تعداد میں روزانہ کی بنیاد پر خرید و فروخت کے لیے آتے ہیںچند روز قبل پُل شیخانی کے بازار میں تقریباً دن گیارہ بجے کے قریب جب وہاں کے باشندے خرید و فروخت اور ہوٹلوں پر بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے اُن کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ان پر قیامت ٹوٹنے والی ہے کہ موٹر سائیکل پر غلام فرید لاشاری نے اپنے چہرے ڈھانپے ہوئے تھے آتے ہی جو کہ آتشیں اسلحہ سے لیس تھا فائرنگ شروع کر دی جس سے گولیاں وہاں پر بیٹھے نہتے شہریوں کو لگیں پھر وہ شخص وحشی درندہ بن کر نعرہ تکبیر اللہ اکبر کے نعرے لگاتا ہوا جو بھی اس کے سامنے آیا انہیں گولیاں مارنا شروع کر دیں ۔شہری و دوکاندار اپنی دوکانوں کو چھوڑ کر جان بچانے کے لیے بھاگنے لگے افرا تفری مچ گئی اور وہ درندہ صفت شخص بلند آواز سے کہتا رہا کہ یہ لوگ نماز نہیں پڑھتے انہیں مارنا جائز ہے ہر طرف چیخ و پکار برپا تھی گولیاں لگنے سے شہری زخمی ہو کر گرتے رہے اور روڈ پر انسانی خون ہی خون بکھرا ہوا تھا اس دوران کسی شہری نے کمال جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس پر فائر کیا جو کہ اس کو لگا اور وہیں پر گر پڑا اور غم و غصہ سے بھرے شہریوں نے اس درندہ صفت شخص کو اینٹوں سے بھی مارادرندہ صفت شخص کی فائرنگ سے 7افراد ہلاک اور 8سے زائدافراد جن میں دو خواتین شامل ہیں زخمی ہوئے ہلاک ہونیوالوں میں موسیٰ خان،غلام صدیق ،منظور حسین،حبیب اللہ لاشاری ، غلام سرور سابق کونسلر، حاجی لال ،محمد زبیر  و دیگر افراد شامل تھے اور مبینہ حملہ آور کی شناخت غلام فرید کے نام سے ہوئی جو کہ شاہ صدردین کے نواحی علاقہ پتی سلطان لاشاری کا رہائشی ہے اس دوران قاتل ایسا لگتا تھا کہ وہ پاگل ہو گیا ہے اور جو بھی سامنے آیا اسے مارتا گیا اور پولیس تھانہ شاہصدردین کے اہلکار بروقت موقع پرپہنچنے کی بجائے روائتی سستی کا مظاہر ہ کیا اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قاتل کی دو تین وڈیوں وائرل ہوئی ہیں جس میں وہ کہہ رہا ہے کہ میں جنکو مارنے جا رہا ہوں وہ جنتی نہیں جہنمی ہیں مولویوں کا مذاق بیایا جارہا ہے باپ کے جنازے میں بیٹوں اور پوتوں کو نماز جنازہ نہیں آتی کیا پھر یہ جنتی ہیں چنانچہ وائرل ہونے والی وڈیوز سے اس کے انتہا پسند انہ رجحانات اور مخصوص سوچ کی نشاندہی اور پر تشدد خیالات رکھنے کا پتہ چلتا ہے جبکہ قاتل بیرون ملک بھی رہ چکا ہے سانحہ پُل شیخانی کو سامنے رکھ کر سوچا جائے تو ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے سب کو نیند سے جگانے کے لیے سب کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے سا نحہ پُل شیخا نی پر ہو نے وا لی بر بریت کا جا ئزہ لیا جا ئے تو د کھا ئی دیتا ہے کہ علا قہ کے مکین معا شی طو ر پر خو شحا ل ہیں مگر انہیں وہ سہو لیا ت جن کا تعلق انسا نی شعور کو بلند کر نا جن میں تعلیم کا حصو ل جیسے اقدا ما ت کا نہ ہو نا ہے جس کی بدو لت کلا شنکو ف کلچر کی حو صلہ شکنی کی بجا ئے یہا ں کے سر دار، جا گیر دا ر جو کہ نسل در نسل 70 سا لو ں سے ملک کے اہم عہدو ں جن میں وز یر اعلٰی ، گو ر نر، ایم این ایز،ایم پی ایز پر فا ئز رہے مگر یہا ں کے با شندو ں کو تعلیم کی سہو لیا ت کی فرا ہمی اور زیور سے آ را ستہ کر نے کی بجا ئے انہیں پسما ندہ رکھنا ان کی سیا سی بقا اور اپنی اجا رہ داری قا ئم رکھنے میں ہی ان کی بقاہے لہذا اتنے بڑ ے سا نحہ پر وز یر اعلٰی پنجا ب سر دار عثما ن خا ن بز دار کے اپنے آ با ئی ضلع میں وقو ع پذیر ہوا نہ آ نا اور شہید ہو نے وا لے افرا د کے لوا حقین سے اظہا ر نہ کر نا بھی ایک سوا لیہ نشا ن ہے۔
 جبکہ ہزا رہ کمیو نٹی کے افرا د کی شہا دت پر پو ری حکو متی مشینری و انتظا میہ وہا ں پر مو جو د تھی اتنے بڑ ے سا نحہ کے رو نما ہو نے پر ڈیرہ غا زی خا ن کے با شندو ں کو پو لیس کے رحم و کر م پر چھو ڑ نے کی بجا ئے رینجرز کے ذریعے اپر یشن کیا جا ئے تا کہ کلا شنکو ف کلچر کے سا تھ سا تھ جرا ئم پیشہ افرا د کا قلع قمع ہو سکے ا ور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہیے کہ علاقہ میں بڑھتی ہوئی لا قانونیت اور اس کے سد باب کے لیے یکسوئی سے کام کریں تاکہ شہری اپنے آپکو محفوظ تصور کر یں ۔

ای پیپر دی نیشن