کبھی ہم نے یہ سوچا ہے کہ جن باتوں پر جھگڑا کرتے لوگ منوں مٹی تلے جا سوتے ہیں انہی باتوں پر ہلکی سی مٹی ڈال کر دنیا میں پرسکون زندگی گزاری جا سکتی ہے ۔ کیونکہ ٹھیک وقت پر پیئے کڑوے گھونٹ انسان کی زندگی کو میٹھا کر دیتے ہیں ۔ حالانکہ کبھی کبھی آنکھو ں میں کوئی ایسی دھول جھونک جاتا ہے کہ انسان پہلے سے زیادہ بہتر دیکھنے لگتا ہے ۔ آپ نے کبھی غور فرمایا ہے کہ لوگ جب پوچھتے ہیں کہ آپ کیا کام کرتے ہیں ؟ اصل میں وہ حساب لگا رہے ہوتے ہیں کہ آپکوکتنی عزت دینی ہے ۔ مگر وہ بھول رہے ہوتے ہیں کہ انسان کے غرور کی اوقات بس اتنی سی ہے کہ یہ پہلی بار خود نہا سکتا ہے نہ آخری بار۔ جب دنیا میں آتا ہے تو لوگ اس کے ننگے جسم کو ڈھانپتے ہیں اور جب جاتا ہے تو بھی لوگ ہی اسے کفن پہناتے ہیں۔کمزور پیدا ہوتا ہے مگر طاقتور ہوتے ہی اپنے آپ کو خدا سمجھنے لگتا ہے۔ مٹی کا کھلونا جیتے جی بہت شور کرتا ہے مگر جب مرتا ہے تو مر ہی جاتا ہے۔ لوگوں کے اکڑے ہوئے وجود اور انا کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہی مرنے کے بعد کتنے چپ چاپ ہو جاتے ہیں ۔
آج خداداد اسلامی مملکت پاکستان میں عجیب کھیل کھیلا جا رہا ہے ۔ جب اس ملک پر حکمرانی کرنے والے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ ہمارے معتبر اداروں جو اللہ کے بعد دفاعِ وطن کے ضامن ہیں ان پر لشکر کشی کرنے کی دھمکیاں دیتے وقت اپنی اوقات بھول جاتے ہیں اور بقول شاعر:
رات دِنیں اَسی کوشش کیتی بخت جِدے سوارن لئی
بُکل وِ چ لُکائی پھردا پتھر سانوںمارن لئی
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے بہترین بات کی ہے ۔ انھوں نے کہا ہے کہ پاکستان پاکستانیوں کیلئے قبرستان ہے ۔ پیوٹن کا کہنا ہے کہ جب کوئی پاکستانی امیر ہو جاتا ہے تو وہ اپنا بینک اکائونٹ سوئزرلینڈ میں رکھتا ہے۔ علاج معالجے کیلئے امریکہ اور برطانیہ جاتا ہے وہ شاپنگ دبئی اور یورپ میں کرتا ہے وہ چائنہ کی چیزیں خریدتا ہے ۔ وہ عبادت مکہ مکرمہ میں کرتا ہے ۔ اس کی اولاد تعلیم یورپ میں حاصل کرتی ہے وہ سیر کرنے کیلئے برطانیہ کینیڈاکا سفر کرتا ہے اور جب مرجاتا ہے تو وہ اپنے آبائی وطن پاکستان دفن ہوتا ہے۔ پاکستان پاکستانیوں کیلئے صرف قبرستان ہے اور قبرستان ترقی کیسے کر سکتا ہے ۔ میں شاید کہنے میں حق بجانب ہوں کہ کچھ لوگ اقتدار کیلئے پاکستان سے محبت کے دعویدار بنتے ہیں وگرنہ سازشیں اور دنیا کی ہر بیماری کے سرٹیفیکیٹ ان کی جیبوں میں موجود ہوتے ہیں ۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ پاکستانی قوم بھی کیا زبردست قوم ہے جن کی زبان اُردو ہے مگر قومی ترانہ فارسی زبان میں ہے۔ قانون انگریزی ، ڈرامے ترکی اور خواہشات یورپی اور کرپٹ قیادتو ں پر بے باکی سے پھول نچھاور کرتے ہیں اور لیڈرانِ کرام وکٹری کا نشان بناتے بالکل شرم محسوس نہیں کرتے۔ کبھی کبھی جاہلانہ عادات اور درندہ صفت حرکات کر کے بہادری جتاتے ہیں ۔
مگر اب انتہا ہو گئی ہے اب قوم کو ہر صورت پاکستان کیلئے سوچنا پڑے گا کیونکہ عالمی سازشیں بالکل ہمارے گریبان تک پہنچ گئی ہیں ۔ کبھی غور فرمائیں کہ افغانی چاند جیسے خوبصورت بچے گندگی کے ڈھیروں سے روٹی کے ٹکڑے چن رہے ہوتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو خود بم بناتے ہیں اور موت سے نہیں ڈرتے مگر وقت نے انھیں کس مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔ آج پاکستان کو مقروض کر کے اغیار کے پاس گروی رکھنے والے اپنے جرم تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں جبکہ اگریہ اپنی دولت پاکستان لیکر آئیں تو پاکستان اپنی منزل پا سکتا ہے ۔ مگر افسوس نہ ان کے بچے پاکستان میں محفوظ ہیں نہ ان کا مال و دولت۔ یہ پاکستانی قوم کو اپنے جادو میں جکڑ کر آوے ای آوے اور جاوے ای جاوے کے نعرے لگوانے کے ایکسپرٹ ہیں اور جب تک ان کے اشارے پر ناچنے والے جاہل لوگ موجود ہیں ان کا کاروبار چلتا رہے گا۔ مگر اب انتہا ہو گئی ہے اب مزید یہ سب کچھ نہیں چل سکتا یہ قدرت کا قانون ہے ۔
یہ پاکستان ہے اس کی حفاظت اللہ کریم فرمائیں گے انشاء اللہ ۔ دنیا دیکھے گی پاکستان کو نقصان پہنچانے والے اپنے انجام کو پہنچیں گے اور یہ نشانِ عبرت بنیں گے اور ان کی لمبی زبانیں خاموش ہو جائیں گی۔ کیونکہ پاکستانی قوم ان کو پہچان چکی ہے۔ یہ بھٹکے ہوئے لوگ ہیں :
دن میں بھٹک رہے ہیں جو منزل راہ سے
یہ لوگ کیا کریں گے اگر رات ہو گئی
اب لوگوں نے گلی محلوں میں ان کی ملک دشمنی کو Discussکرنا شروع کردیا ہے ۔ کیونکہ اب یہ بے نقاب ہو چکے ہیں اور لوگ کہتے ہیں کہ :
اب دشمنوں کی کرتے ہو مجھ سے شکایتیں
جب دشمنوںکی مجھ سے ملاقات ہو گئی
پاکستانیو! سیاسی سٹیجوں پر چمکنے والے چہرے نہ دیکھیں بلکہ سوچیں کہ حضرت علی ؓ کیا فرما رہے ہیں "انسان کے جسم کا سب سے خوبصورت حصہ دل ہے اگر یہی صاف نہ ہوتو چمکتا چہرہ کسی کام کا نہیں "
میں سب سے گزارش کرتا ہوں کہ زندگی برف کی طرح ہے اسے نیک کاموں میں گزارو ورنہ پگھل تو رہی ہے ختم بھی ہو جائے گی۔ یاد رکھو جتنا سوچو گے اتنی زیادہ اذیت میں رہو گے ۔ لہٰذا "یا تو اپنے آپ کو مضبوط کر لو یا مصروف کر لو"
بحیثیت سیاسی کارکن اپنی زندگی انہی جادو گروں کو دی ہے انھیں پہچاننے میں دیر ہوئی افسوس بھی ہے اور تسلیم بھی کرتا ہوں کہ خوشامد جسے چمچہ گیری بھی کہتے ہیں اس میں میںنے بھی انتہا کی ہے ۔ میں سیاست میں رہ کر بھی غیر سیاسی رہا ہوں اور اپنی سابقہ جماعت کے ساتھ پاکستان کی محبت میں حدیں کراس کی ہیں ۔ مگر اب جب پاکستان کے بہت سے کردار بے نقاب ہو ئے ہیں تو مجھے خوشی ہے کہ پھر بھی ٹائم سے پہلے میں نے پاکستان کی محبت میں ان سے کنارہ کشی کرلی۔
سیاست بہت بے رحم کھیل ہے ہمارے ایک سابقہ لیڈر کہا کرتے تھے کہ جو آٹھ اور آٹھ سولہ گنتا ہے سیاست اس کا کام نہیں ہے بلکہ جو آٹھ اور آٹھ کو کم از کم سترہ گنتا ہے یہ اس کا کام ہے ۔
میں ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ بطور MPAاور بطور وزیر پنجاب حکومت میں زندگی کا مشکل ترین وقت تھا آج میں اللہ کے فضل کے سائے میں ہوں ۔ میں ٹیڑھی راہوں کا سیدھا مسافر تھا بہت سوچتا ہوں کہ دنیا کے حکمرانوں کی خوشامد کی بجائے سوہنے رب کو راضی کرنے کیلئے عمرِ رواں بسر کرتا تو کیا ہی بہتر ہوتا مگر وقت گزر گیا ہے ۔ اب صرف یہ کہہ سکتا ہوں ۔
گُلوں کے رنگ و بوُ نے اس قدر دھوکے دیئے مجھ کو
کہ شوقِ گُل بوسی میں ، میں نے کانٹوں پر زبان رکھ دی
گُلوں کے رنگ و بوُ نے ۔۔۔۔
Mar 02, 2021