۱۔پرانی کہاوت ہے۔ گھوڑا گھاس سے محبت کرے گا تو کھائے گا کیا؟ انسان ہوں یا جانور‘ بھوک کی شدت اور حدت برداشت نہیں ہوتی۔ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ سیاستدانوں کیلئے گھوڑے کا استعارہ کب سے مستعمل ہوا‘ لیکن اب یہ زبان زد خاص و عام ہو گیا ہے ہائیکورٹ کے ایک جج صاحب نے انہیں لوٹا کہا۔ لوٹا بھی وہ جس کا پیندا نہیں ہوتا۔ یہ ایک جگہ نہیں ٹکتا بلکہ ادھر ادھر لڑکتا رہتا ہے۔ باایں ہم گھوڑے نے اپنا رتبہ کم نہ ہونے دیا اور اب بھی وفاداریاں بدلنے والے یا بکنے والے سیاستدان کو گھوڑے سے ہی تشبیہ دی جاتی ہے۔ جہاں چراگاہیں زیادہ ہوں اور گھوڑے نسبتاً کم تعداد میں ہوں وہاں تو وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔
۲۔ہزاروں برس بیت گئے ہیں‘ لیکن گھوڑے کا مقام و مرتبہ کم نہیں ہوا۔ اس مشینی دور میں بھی جہازوں‘ گاڑیوں اور ریلوے انجنوں کی طاقت ماپنے کا پیمانہ گھوڑا ہی ہے۔ ’’ہارس پاور۔‘‘ ہم نے کافی عرصہ پہلے ایک کہاوت بیان کی تھی جو آج بھی قند مکرر کے طورپر دہرائی جاسکتی ہے۔ ایک بادشاہ نے اپنے وزیر کو کہا کہ وہ سلطنت کے بے وقوف آدمیوں کی فہرست مرتب کرے۔ دوسرے دن جب فہرست پیش ہوئی تو سرفہرست ظل سبحانی کا نام تھا۔ بادشاہ اس پر بڑا جزبز ہوا۔ تم نے میرا نام کیوں اور کیسے لکھا؟ وزیر بولا حضور جان کی امان پائوں تو کچھ عرض کروں۔ ان دنوں بھی جان کی امان طلب کرنا ضروری ہوتا تھا۔ وگرنہ ان کا حشر اس وزیر باتدبیر کی طرح ہوتا تھا جس کا ذکر تھیکرے نے اپنی ’’پیروڈی‘‘ سلطان اسٹورک میں کیا ہے۔ وہ وزیر کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے۔
Though almost all of his theeth had been Knocked out. yet wisdom and persuation hung on his lips... Though one of his EYE in the fit of royal indigation has been closed for ever, yet no other EYE in the entire Universe was as keen as his remaining ball''
خیر جب اسے اذن امان ملی تو بولا۔ حضور! کل ایک اجنبی ملک سے ایک اجنبی سوداگر آیا ہے۔ آپ نے اسے ہزار گھوڑوں کی رقم پیشگی دیدی ہے کہ اگلے سال وہ آپ کیلئے گھوڑے خرید لائے۔ نہ آپ اس ملک سے واقف ہیں‘ نہ گمنام سوگردار کے کردار سے آشنا ہیں۔ اس سے بڑی حماقت اور کیا ہو سکتی ہے! بالفرض وہ لے آیا تو؟ شاہ نے استفسار کیا۔ تو قبلہ عالم! میں آپ کا نام کاٹ اس کا لکھ دوں گا۔ اس سے ثابت ہوا کہ گھوڑوں کی تجارت قرون اولیٰ اور قرون وسطیٰ میں بھی ہوتی تھی۔ اگر فرق پڑا ہے تو صرف اتنا کہ سوداگر تو گئے ہیں‘ گھوڑوں نے اپنے بھائو تائو خود لگانے شروع کر دیئے ہیں۔
وطن عزیز میں وقتاً فوقتاً منڈیاں لگتی رہتی ہیں۔ کبھی سینٹ کے الیکشن‘ کبھی قومی اسمبلی کی ریزو سیٹیں‘ کبھی جنرل الیکشن میں بھائو تائو اپنے عروج پر پہنچ جاتے ہیں۔ وہی خریدار‘ وہی بکائو مال‘ اگر فرق پڑا ہے تو صرف اتنا ؎
جہاں بکنے کو ہر ایک سے ایک آگے ہو
ایسے میلے میں خریدار کو کیا بولنا ہے
عمران خان نے کہا ہے سینٹ کی سیٹ 50 سے ستر کروڑ روپے میں بکتی ہے ، ظاہر ہے کہ جو شخص اس قدر خطیر رقم خرچ کرے گا وہ اپنے TENURE کے دوران لامحالہ یہ رقم واپس لینے کی کوشش کرے گا۔ خان صاحب کے ارشاد کو درست بھی مان لیا جائے تو اس کی کیا گارنی ہے کہ جو شخص بغیر کچھ خرچ کئے سینیٹر یا ممبر اسمبلی بن جاتا ہے وہ مال نہیں بنائے گا۔ اصلی چیز یہ ہے کہ کس کو کتنے مواقع ملتے ہیں۔ شیکسپیئر نے کہا تھا۔ OPPORTUNITY THOU FLAT IS GREAT THE WAY TO HELL IS PAVED WITH GOOD INTENTIONS.
۴۔ خان صاحب ذاتی طور پر تو ایماندارہیں لیکن اردگرد لوگوں کی روش کی تو گارنٹی نہیں دی جا سکتی! اس سے پہلے تو بہت کچھ ہوا ہے۔ امیدوار ایک اعتبار سے DOUBLE GEOPARDY کا شکار ہوتا ہے۔ ایک تو ’’پارٹی فنڈ‘‘ کے نام سے ایک خطیر رقم بٹور لی جاتی ہے پھر بطور حفظِ ماتقدم وہ گھوڑوں کی بھی ’’ٹہل سیوا‘‘ کرتا ہے۔ بے یقینی کی اس فضا میں اکثر مرزا کا یہ شعراس کے وردِ زبان ہوتا ہے۔
دام ہرموج میں ہے حلقہِ صدکام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
منتخب ہو کراگر وہ پیسے نہیں بنائے گا تو اور کیاکرے گا؟
صنفِ نازک کو ٹکٹ دینے کا جو طریقہ کار یا معیار ہے اس پر بھی کئی سوالیہ نشانات کھڑے ہو سکتے ہیں۔
الفرض شفافیت نام کی کوئی چیز کہیں بھی نظر نہیں آئی۔
ہم لوگ کرپشن صرف پیسے لینے دینے کو کہتے ہیں۔ اقرباپروری یا دوست نوازی کس زمرے میں آئیں گے؟ یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے۔ NEPOTISM سے مراد آل اولاد یا عزیز رشتہ دار لئے جاتے ہیں۔ اس میں دوست احباب اور ATMS نہیں آتے۔ حالانکہ جس شخص سے کسی قسم کا بھی فائدہ پہنچتا ہو ، اصل ’’رشتہ دار‘‘ وہ ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ خون بحر خون ہے لیکن جب یہ ہوس و اقتدار کی تنگنائوں سے گزرتا ہے تو پھر خون نہیں رہتا۔ گدلا پانی بن جاتا ہے۔ عام مشاہدے میں آیا ہے کہ کسی بھی بڑے آدمی کے حریف اس کے رشتہ دار ہوتے ہیں، جنہیں کزنز کہا جاتا ہے۔ اس لئے یہ کہنا کہ فلاں سیاستدان یا حکمران رشتہ داروں کو گھاس نہیں ڈالتا صرف دوستوں کو نوازتا ہے ، کافی نہیں ہے۔
اب تھوڑی سی نگاہ ہونے والے سینٹ انتخابات پر ڈالتے ہیں۔ ممبران اسمبلی پر الزام لگایا جارہا ہے یا شک کیا جارہا ہے کہ وہ پارٹی کے نامزد کردہ امیدواروں کو ووٹ نہیں دیں گے بلکہ ان کی مدد کریں گے جو ان کی جیب گرم کرنے کا اہتمام کریں گے۔ حیرن کن بات یہ ہے کہ الزام وہ لوگ لگ ا رہے ہیں جو انہی لوگوں کی حمایت سے اقتدار میں آتے ہیں۔ اس الیکٹورل کالج کو تھوک کے حساب سے ذلیل کرنا مناسب نہیں ہے۔
ہماری جمہوریت اور روایات صرف ایک شخص کے اردگرد گھومتی ہیں جو پارٹی کا سربراہ ہوتا ہے۔ (ن) لیگ سے مراد نوازشریف ہے۔ (ق) لیگ سے گجرات کے چودھریوں کا چہرہ پردہ ذہن پر ابھرتا ہے۔ تحریک انصاف سے مراد عمران خان سے پیپلزپارٹی بھٹو خان کی تھی، ہے ، اور رہے گی۔ کیا یہ ضروری ہے کہ ان کا پرقول ، بول یا خواہش حرف آخر قرار دی جائے۔
لیڈران کو خیال کرنا چاہئے کہ اپنے ممبروں کو اس طرح ذلیل و رسوا کرنے سے پارٹی میں بغاوت ہوسکتی ہے۔ جس قسم کے لوگوں کو ٹکٹ دیئے گئے ہیں ان کی پارٹی کیلئے کوئی خدمات نہیں ہیں۔ ہوسکتا ہے صرف لیڈران کی خدمت خاطر کی ہو۔ وہ پارٹی ممبر جو پہلے زیرلب شکایت کرتے تھے اب کھل کر بولنے لگے ہیں۔ احتجاج کی لے کچھ تیز ہوتی جارہی ہے۔ اور یہی لمحہ فکریہ ہے!