عطائیت قتل گاہیں ہیں!

دنیا میں بے غرض انسان دونوں کی کمی نہیں۔ شیخ زید ہسپتال کے اپریشن تھیٹر کے باہر وہاں کی ایک ہیلتھ ورکر مسرت پروین نے میرے ساتھ گئے گردے کے مریض کو دیکھ کر مجھ سے دو چار منٹ ہم کلامی کی اور بتایا کہ لوگوں کے گردے کیونکر فیل ہوجاتے ہیں۔ مسرت نے اپنا یوٹیوب چینل بنا رکھا ہے جس میں Dialysis کیلئے آنیوالے مریضوں کے دکھ ریکارڈ کرکے آن ایئر کرتی ہیں تاکہ لوگ نصیحت پکڑیں۔ مسرت نے بتایا کہ گردوں کے فیل ہونے کی بڑی وجہ شوگر اور بلڈپریشر نہیں بلکہ حکمائ‘ عطائیوں کے جعلی کیپسول اور Steroid سے بھری پڑیاں ہیں۔ نام نہاد کم علم‘جعلی‘ فقیر‘ حکیموں کے روپ میں اعلان کروا رہے کہ تین پڑیاں کھانے سے اور انکے ساتھ کچی لسی کے پانچ گلاس پینے سے Creatinine فوراً کم ہو جاتا ہے اور Dialysis کی نوبت نہیں آتی بلکہ سب کچھ الٹ ہوتا ہے اور Dialysis ناگزیر ہو جاتا ہے۔ مسرت نے التجا کی کہ لوگ ہوش کے ناخن لیں‘ مستند سپیشلسٹ ڈاکٹروں کے سوا کسی کی طرف دھکے نہ کھائیں۔ پڑیوں سے لوگ ٹھیک ہونا شروع ہوے تو بڑے بڑے حکمرانوں اور بادشاہوں کو امریکہ اور برطانیہ جا کر علاج کرانے کی کیا ضرورت ہے۔ کرونا کا علاج کون دم پھونکوں سے کر سکا؟ منہ سے کیلیں نکالنا شعبدہ بازی تھی۔ لوگوں کا ان پڑھ‘ ضعیف العقاد ہونا ہی ان پر مصیبتوں کے پہاڑ گراتا ہے۔ مسرت پروین کی اس بارے کوششیں قابل قدر ہیں۔ میں نے دیکھا کہ سارا شیخ زید ہسپتال اپنی اس انتھک خاتون کی عزت کرتا ہے۔ بڑے بڑے سرجن‘ ڈاکٹر انہیں تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ملک بھر میں عطائیت‘ جعلی پیر خانوں دم درود جھاڑ پھونک کے اڈوں کے خلاف کریک ڈائون اور کلین سویپ کی فوری ضرورت ہے۔ دیسی دوائیوں میں Steroid موت کا پیغام ہے۔ حکومت صحت کارڈ اسی لئے تو عام کررہی ہے کہ عوام ہسپتالوں کا رخ کریں۔ 
حکومت پنجاب نے گردوں کے علاج کیلئے جدید ہسپتال قائم کررکھا ہے۔ شیخ زید ہسپتال کے گردوں کے ٹاپ کے ڈاکٹرشکل سے ولی اللہ دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا نام ڈاکٹر رضوان الحق ڈوگر ہے۔ وہ خود وہیل چیئر پر ہوتے ہیں۔ انکی شخصیت ایک بڑے عمامہ شریف کے ساتھ پیرکامل کی دکھائی دیتی ہے۔ وہ مایوس علاج مریضوں کیلئے امید کا پیغام ہیں۔ انکی دعائیں اور دوائیں مریض کو Dialysis سے بچا کر زندگی کی طرف لوٹا دیتی ہیں۔ 
ڈسکہ الیکشن کا الجھائو‘ سیاسی تخلیاں‘ خیرپختونخوا میں این جی او کی گاڑی پر فائرنگ‘ ڈی جی آئی ایس پی آر کی بریفنگ‘ ضمنی انتخابات میں حکومت نے شکست تسلیم کرلی۔ ڈسکہ کے خونی انتخابات میں دھاندلی کس نے کی۔ الزامات کون لگا رہا ہے؟ پی بی۔ 20 پشین میں حکومتی غلط پالیسیاں تحریک انصاف کو لے ڈوبیں۔ الیکشن کمیشن پر عائد الزامات نے شفافیت پر سوالات اٹھا دیئے۔23 پولنگ سٹیشنوں کے پریذائیڈنگ افسروں کے لاپتہ ہونے اور دوسری بے قاعدگیوں کے بعد ڈسکہ میں سارا الیکشن ہی مشتبہ ہو گیا اس لئے پورے حلقے میں پولنگ دوبارہ کرانے کا حکم عدالت نے دیا ہے۔ الیکشن کے روز ڈسکہ میں جو لاقانونیت دیکھی گئی اور اسکی مکمل چھان بین انصاف کا تقاضا ہے۔ جیتنے والے بھی مخالفین پر ناجائز ہتھکنڈوں سے انکے ووٹ چرانے کی شکایت کرتے ہیں اور کوئی بہانہ ہاتھ نہ آئے تو اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا الزام گھڑ لیتے ہیں۔ وقت ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز جامع انتخابی اصلاحات پر متفق ہو جائیں۔ موجودہ سیاسی کشیدگی کسی بھی طرح ملک کیلئے بہتر نہیں۔ پانچ سال عمران خان کا حق ہے‘ ملک میں کپتان طاقتور ہو اور پنجاب اور کے پی کے میں کمزور تو مسلم لیگ جیسی جماعت کو پی ٹی آئی کے خلاف جانے کی کیا ضرورت ہے۔ آپریشن ردالفساد مکمل ہونے پر میجر جنرل بابر افتخار نے میڈیا بریفنگ دی۔ آپریشن کے چار سال مکمل ہونے پر بتایا گیا کہ معاشی بحالی بھی شروع ہو چکی ہے۔ پاکستان نے بغیر ویزا اور پاسپورٹ آمدورفت پر پابندی لگائی‘ سرحد پر مقامات طے کئے اور دیگر تمام راستے بند کر دیئے تاکہ شہریوں کی آڑ میں دہشت گرد آجانہ سکیں۔ پاکستان نے افغانستان اور ایران سے دہشت گردوں کی مداخلت روکنے کیلئے سرحدوں پر خاردار باڑ لگانے کا کام شروع کیا۔ 2017ء سے 2021ء تک ملک بھر میں دہشت گردی کے ساڑھے اٹھارہ سو واقعات ہوئے۔ گزشتہ چار برس میں آپریشن ردالفساد کے تحت ملک بھر میں تین لاکھ 75 ہزار سے زائد اپریشن ہو چکے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں این جی او کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔ آج ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن دیکھ کر اندرون اور بیرون ملک دشمن عناصر پھر سے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں۔ بے گناہ اور معصوم شہریوں پر ایسے بزدلانہ حملے انکی بوکھلاہٹ کا واضح ثبوت ہیں۔ حکمرانی کے حوالے سے بات کچھ بن نہیں رہی۔ کے پی کے اور پنجاب میں اپنے آپ کو وزرائے اعلیٰ مبوط اور مؤثر حکمران ثابت نہیں کر سکے۔ ہر اجلاس میں افسر یس سر یس سر کے سوا کچھ نہیں کرتے تاکہ وزیراعلیٰ کی خفگی سے بچ سکیں۔ نوشہرہ ضمنی الیکشن تو مذاق بن کے رہ گیا۔ سیٹ پی ٹی آئی کے ہاتھوں سے گئی۔ اپوزیشن پہلے سے زیادہ مضبوط اور حکومت پہلے سے زیادہ کمزور لگتی ہے۔ 

پروفیسر خالد محمود ہاشمی

ای پیپر دی نیشن