ہارس ٹریڈنگ ، اشاروں اور فون کالزکاانتظار (1)

Mar 02, 2022

اس کالم کا آدھا حصہ میری اپنی سوچ کا نتیجہ ہے ، اور دوسرا حصہ میں نے یار لوگوں کے تبصروں اورتجزیوں کی بنیاد پر لکھا ہے، جن سے میں قطعی متفق نہیںہوں۔لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ نقل کفر،کفرنہ باشد۔اس لئے ان تجزیوں کا حوالہ دینا میری ایک مجبوری ہے ۔ اور یہ مجبوری کسی حد تک جائز بھی ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیںکہ پاکستان میں کبھی حقیقی جمہوریت جڑنہیں پکڑسکی۔ قیام پاکستان کے ابتدائی چند سال تو ہم نے گورنر جنرلزکے سائے میں گذارے۔ قائداعظمؒ کی وفات پراسرار حالات میں ہوئی اور وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے اسرار سے بھی آج تک پردہ نہیں اٹھ سکا۔ہماری ابتدائی حکومتیں چند برسوں یا چند مہینوں پر محیط رہی ہیں۔ جن کے بارے میں بھارتی وزیر اعظم پنڈت نہرونے یہ پھبتی کسی تھی کہ میں سال میں اتنے پاجامے نہیں بدلتا، جتنی پاکستان میں حکومتیں بدل جاتی ہیں۔ حکومتیں بدلنے کا طریقہ بھی انوکھا تھا۔رات کو سوتے تھے تو کوئی ایک پارٹی برسرِ اقتدار ہوتی تھی، صبح اٹھتے تو کسی دوسری پارٹی کے ہاتھ میں ہماری حکومتی لگام آجاتی۔ ہم نے یہ انوکھا تجربہ بھی کیاکہ ایوب خان کو آرمی چیف ہوتے ہوئے بھی وزیردفاع بنادیا۔پھر جب اس نے آرمی چیف کی ٹرم پوری کرلی تو اس کے تقاضے کے بغیر اسے توسیع بھی دیدی۔ یہ پہلی توسیع تھی جو ایک جمہوری حکومت نے دی تھی،اس کے بعد آرمی چیف اقتدار میں آتے رہے، اپنے آپ کو توسیع دیتے رہے۔اپنی حکومتوں کو دوام بخشتے رہے ۔ ہمارے سیاستدانوںنے کبھی مارشل لاء حکومت میں حصہ لینے سے انکار نہیں کیا۔ آج جو تین بڑی سیاسی پارٹیاں ہیں،و ہ انہی مارشل لائی آمروں کی پیداوار ہیں۔ بھٹو نے ایوب خان کی کابینہ میں سیاست سیکھی، نوازشریف نے جنرل جیلانی کی گود میں آنکھ کھولی،عمران خان نے جنرل مشرف کے ریفرنڈم میںسرگرم حصہ لیا،کچھ چھوٹی مذہبی پارٹیاں بھی ہیں جنہوں نے فوجی آمروں کے جھولے میں حکومتوں کے مزے لئے۔ ہماری بعض لسانی پارٹیاں بھی جنرل ضیاء کی پیداوار ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ آج یہ ساری پارٹیاں جمہوری لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں ،لیکن ان کی اٹھان اور پہچان مارشل لاء حکومتیں ہی بنیں۔بھٹو کو جمہوریت کا سب سے بڑاچیمپئن کہا جاتا ہے ، لیکن وہ اقتدار میں آئے تو سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرکے طورپر۔ بھٹو کی بیٹی محترمہ بینظیر حکومت میں آئیں تو انہوں نے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت عطا کیا۔ نوازشریف بہت جلد اپنے آقائوں سے بیزار ہوگئے ، ان کی آرمی چیف جنرل آصف نواز سے ٹھن گئی، ایک آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ سے ان کی ان بن ہوئی ، ایک آرمی چیف جنرل جہانگیرکرامت سے انہوں نے استعفیٰ لیا، ایک اور آرمی چیف جنرل مشرف کو انہوں نے معزول کرنے کی ناکام کوشش کی ۔ایک آرمی چیف جنرل راحیل شریف کیخلاف نیوزلیکس کا اسکینڈل کھڑا کیا ۔اور موجودہ آرمی چیف کو انہوں نے لندن سے وڈیوخطاب میں گوجرانوالہ جلسے میں للکاراکہ آپ کو حساب دینا ہوگا۔آصف علی زرداری نے بھی فوج کیخلاف اپنے جذبات کے اظہار میں تیزی دکھائی اور یہاں تک کہا کہ تم تین سال کیلئے آتے ہو، ہم ہمیشہ کیلئے لیڈر ہیں۔ آج اللہ کی شان ہے کہ تمام جمہوری لیڈر ایک ساتھ دسترخوانوں پر نظرآتے ہیں،مگر انہوں نے ایک دوسرے کیخلاف اس قدر بغض کا اظہار کیا ہے کہ اسکے ذکر سے قلم پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے ۔ نوازشریف نے محترمہ بینظیر اور زرداری کیخلاف سوئس اکائونٹ اور سرے محل کا پروپیگنڈا عام کیا۔ زرداری نے نوازشریف کی لوٹ مارکا حساب لینے کے اعلانات کئے ۔ شہبازشریف نے زرداری کو لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹنے کا اعلان کیا۔زرداری نے ق لیگ کو قاتل لیگ قرار دیا،عمران خان نے پرویز الہیٰ کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دیا۔ لیکن زمانے کے اتفاقات نے ان سیاستدانوں کو پہلے بھی اکٹھا کیا اور آج بھی ایک ساتھ اکٹھا کردیا ہے۔زرداری نے پرویز الٰہی کو ڈپٹی وزیراعظم بنایا ، عمران خان سے حالات کی مجبوری نے پرویزالہیٰ کو پنجاب اسمبلی کا اسپیکر بنوادیا۔بلاول اور مریم ایک دوسرے کیخلاف زہر اگلتے رہے ، لیکن آج ان کا ساتھ بہن بھائیوں جیسا ہے ۔ 
عمران خان کی کابینہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بھان متی کا کنبہ نظر آتی ہے ۔ عمران خان تو جنرل مشرف کا بہت بڑا نقاد ہے ،لیکن اس کی کابینہ جنرل مشرف کے ساتھیوں سے بھری ہوئی ہے ۔ یہ نرالے کام صرف پاکستان کے جمہوری سیاستدان ہی کرسکتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ۔ لیکن میرا خیال ہے کہ سیاست کا کوئی دماغ بھی نہیں ہوتا۔ سیاستدان اگلی پچھلی سب باتوں کو بھول بھی جاتے ہیں اور یاد بھی رکھتے ہیں کہ مخالف کو انتقام کے جبر کا نشانہ بنانے سے گریز نہیں کرتے ۔ تاہم آج لگتا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کا ایک طبقہ اپنے ماضی کو بھول گیا ہے اور وہ یکجان دکھائی دیتے ہیں۔ 
یہ راز تو خدا ہی جانتا ہے کہ وہ کس کیخلاف اکٹھے ہوئے ہیں؟بظاہر تو وہ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کیلئے تحریک عدم اعتماد لانے کی باتیں کرتے ہیں لیکن کچھ بعید نہیں کہ وہ سلیکٹڈ وزیراعظم کے سرپرستوں کو بھی نشانہ بناناچاہتے ہوں۔ بات بات پہ بلاول کہتا ہے کہ وزیراعظم تمہاری ڈوریں کوئی اور ہلارہا ہے ۔ بلاول نے اس موقف سے کبھی دستبرداری کا اعلان نہیں کیا،نوازشریف بھی علی الاعلان کہہ چکے ہیں کہ وہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض سے حساب مانگیں گے۔ہوسکتاہے کہ وہ تحریک ِ عدم اعتماد کے ذریعے یہ حساب چکانا چاہتے ہوں۔ اس وقت کوئی بات یقین سے نہیں کی جاسکتی کیونکہ اپوزیشن نے اپنے پتے سینے کیساتھ لگارکھے ہیں۔ لوگ بہرحال پوچھتے ہیں کہ اپوزیشن کن جمہوری اصولوں کی بنیاد پر ہارس ٹریڈنگ کا میلہ سجانا چاہتی ہے ۔ وہ ضمیروں کا سودا کیوں کرنا چاہتی ہے؟ارکان اسمبلی کی وفاداریاں تبدیل کروانے کیلئے ان سے کیا وعدے وعید کئے جارہے ہیں ۔ کیا یہ سب کچھ جمہوریت میں جائز تصورکیا جانے لگاہے ؟لوگ یہ بھی پوچھتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں اپوزیشن کا لائحہ عمل کیا ہے ؟ کیا وہ باقی ڈیڑھ سال کیلئے کسی کوحلالے کیلئے وزیراعظم بنائیں گے ؟یا فوری انتخابات کا بگل بجادینگے۔؟آج بچہ بچہ بھی جانتا ہے کہ فوری انتخابات میں پنجاب کی اکثریتی سیٹیں ن لیگ کے حصے میں آئیں گی ،تو سوال یہ ہے کہ کیا آصف علی زرداری اتنا بچہ ہے کہ وہ نوازشریف کا کھیل کھیل رہا ہے ، اور اگلی حکومت اس کے ہاتھ میں دلوانے کیلئے ہاتھ پائوں مار رہا ہے ؟ (جاری ہے )

مزیدخبریں