30 اکتوبر 1937ء کے ایک اور خط میں وہ اس دور کے معروض اور اس کے مقتضیات کا احاطہ یوں کرتے ہیں: ’’امید ہے آل انڈیا کانگریس کمیٹی کی قرارداد آپ کے ملاحظہ سے گزری ہو گی۔ آپ کی بروقت تدبیر کارگر ثابت ہوئی۔ ہمیں مسلمانوں کی تنظیم کیلئے اپنی تمام قوتیں ہمیشہ سے زیادہ گرم جوشی کے ساتھ وقف کر دینی چاہئیں اور اس وقت تک دم نہ لینا چاہیے جب تک پانچ صوبوں میں مسلمانوں کی حکومت قائم نہیں ہو جاتی اور بلوچستان کو اصلاحات نہیں ملتیں۔‘‘ (ایضاً ص 28)
قائداعظمؒ کے نام علامہ اقبال کے یہ خطوط ’’بصیغہ راز‘‘ ارسال کیے جاتے رہے۔ واضح رہے کہ یہ مکاتیب قائداعظمؒ کی قدم بہ قدم اور لمحہ بہ لمحہ رہنمائی کرتے رہے۔ قائداعظمؒ ان خطوط کو اپنے لیے ایک عظیم سرمایہ تصور کرتے تھے۔ وہ اس پر نازاں رہے کہ ’’یہ خطوط مجھے اسلام کے دانا فلسفی اور قومی شاعر ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ نے تحریر کیے۔ ان کے اور میرے خیالات میں کامل ہم آہنگی تھی‘‘ علامہ اقبالؒکی فکری رہنمائی، تحریک پاکستان، قائداعظمؒ اور دیگر مسلم لیگی قائدین کی سیاسی جدوجہد کو آگے بڑھانے میں مشعل راہ کا سحر خیز فریضہ ادا کرتی رہی۔
علامہ اقبالؒ مروجہ مغربی، سیاسی نظریات و رجحانات کے کبھی سو فیصد حامی نہیں رہے۔ انہوں نے مغربی قومیت کے تصور کا مضبوط دلائل اور مربوط براہین کے ساتھ رد کیا۔ 1930ء کے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ الٰہ آباد کے خطبہ صدارت میں انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ 'اسلام عیسائیت کی طرح ایک محدود مذہب نہیں ہے کہ اسے صرف اور صرف فرد کا نجی معاملہ قرار دے دیا جائے'۔ وہ اسلام کی ہمہ گیریت اور آفاقیت کے قائل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس خطبہ میں ان کی توجہ کا مطاف و کعبہ اسی امر کی وضاحت رہا۔ فرماتے ہیں: ’’اسلام کے پیش نظر ایک ایسا عالمگیر نظام سیاست ہے، جس کی اساس وحی اور تنظیم پر ہے ‘‘
(خطبہ صدارت آل انڈیا مسلم لیگ، الٰہ آباد، دسمبر 1930ء ، ص 30)
علامہ اسلام کی عالمگیریت کے احیاء کیلئے کوشاں تھے۔ انہیں یقین تھا:
’’عالم اسلامی کا ظہور ہو گا تو آزاد اور خود مختار وحدتوں کی ایک ایسی کثرت میں جن کی نسلی رقابتوں کو ایک مشترک روحانی نصب العین نے توافق و تطابق سے بدل دیا ہو۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ شاید ہم مسلمانوں کو بتدریج سمجھا رہی ہے کہ اسلام نہ تو وطنیت ہے، نہ شہنشاہیت بلکہ ایک انجمن اقوام ہے جس نے ہمارے خود پیدا کردہ حدود اور نسلی امتیازات کو تسلیم کیا ہے تو محض سہولت تعارف کیلئے، اس لیے نہیں کہ اس کے ارکان اپنا اجتماعی مطمح نظر محدود کرلیں۔
(پانچواں خطبہ تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ: صفحہ 246)
20ویں صدی کے چوتھے عشرے میں وہ ہندوستان میں کانگریسی پروپیگنڈے کے مضر اثرات کا بنظر غائر جائزہ لے رہے تھے۔ وہ مسلمانوں کو مختلف پیرایوں میں یہ سمجھا رہے تھے:
’’اس زمانے میں مسلمانوں اور اسلام کا سب سے بڑا دشمن نسلی امتیاز اور ملکی قومیت کا خیال ہے‘‘
(انوارِ اقبال، ص 176)
اقبالؒ کا یہ قولِ بلیغ’’ لسانیت، علاقائیت اور صوبائیت کے نعرے ایجاد کرنیوالے لبرل اور سیکولر مائنڈڈ سیاستدانوں اور حکمرانوں کے طرز فکر کی کھلی تردید کرتا ہے۔ پاکستانیت کسی قومیت، زمانیت اور مکانیت کے ساتھ مشروط نہیں۔ پاکستان اسلامیت کا دوسرا نام ہے۔ قائداعظمؒ کسی سیکولر جماعت یا لبرل پارٹی کے رہنما نہیں تھے، وہ دینی تشخص اور شناخت کے فروغ کیلئے کوشاں جماعت مسلم لیگ کے قائد تھے۔ وہ ایک راست گواور راست فکر انسان تھے۔ اگر وہ اسلام کو ایک زندہ مذہب تسلیم نہ کرتے تو ان کیلئے یہ زیادہ آسان تھا کہ وہ برصغیر میں کمیونسٹ، سوشلسٹ یا مارکسسٹ خطوط پر سیاسی عمل کو آگے بڑھاتے۔ ان کے نزدیک پاکستان ایک ایسی سرزمین موعود تھا جسے وہ قرآنی قوانین کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ صرف 8 ماہ تک روبہ صحت رہے۔ بعدازاں وہ صاحب فراش ہو گئے۔ اگر ان کی صحت ان کا ساتھ دیتی اور زندگی وفا کرتی تو برصغیر کا یہ سیاسی مجدد اپنا وعدہ ایفاء کرتا۔ یہ اقدام خواہ نام نہاد ماڈرن، ماڈریٹ، لبرل اور پروگریسو مخلوق کوکتنا ہی برا کیوں نہ لگتا۔ (ختم شد)