شیر افضل جعفری کا جھنگ رنگ

ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے شیر افضل جعفری سے وابستہ یادوں کا تذکرہ کیا تو مجھے بھی جعفری صاحب سے وابستہ چند یادیں تازہ ہو گئیں۔ خواجہ صاحب کی جھنگ میں سکونت دس بارہ سال رہی۔ میرا جھنگ سے کوئی تعلق نہیں خالص ’’لہوریا‘‘ ہوں۔ البتہ شیر افضل جعفری سے لاہور میں ایک ملاقات ہوئی اور پھر ان سے میری خط کتابت شروع ہو گئی۔ 1976ء میں، میں نے ’’سانجھاں‘‘ رسالے کا اجرا کیا تو جعفری صاحب کا قلمی تعاون حاصل رہا۔ وہ رسالہ ملنے کے بعد تبصرہ نما خط ضرور لکھتے اور اپنا کلام ارسال کرتے، لہٰذا ان سے وابستہ میری یادیں مختلف ہیں۔ جعفری صاحب 1977ء میں دیس پنجاب محاذ کے صدر مشتاق بٹ ایڈووکیٹ کی دعوت پر لاہور تشریف لائے تو مقامی ہوٹل میں ان کے اعزاز میں تقریب منعقد کی گئی۔ محاذ کا جنرل سیکرٹری میں تھا، اس لیے تقریب کے اختتام پر جعفری صاحب سے طویل گفتگو کا موقع ملا۔ وہ اپنی اردو شاعری میں پنجابی زبان کا ’’تڑکا‘‘ لگاتے تھے۔ وہ شعوری طور پر ایسا کرتے تھے۔ ان کی گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ پنجابی زبان کی ترقی سے اردو کو نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ دونوں زبانوں کی پرورش ساتھ ساتھ ہونی چاہیئے۔ خیبر پختونخوا میں اردو، پشتو، ہندکو رائج ہیں۔ پنجابی زبان میں ابلاغ مکمل طور پر ہوتا ہے۔ البتہ اس زبان کو لغات کی اور اصطلاحات کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری زبانوں کے تراجم زیادہ سے زیادہ پنجابی میں ہونے چاہئیں۔ اس سلسلے میں سرائیکی میں کافی کام ہو رہا ہے۔ میری دونوں بہویں پنجابی ہیں البتہ ان کے بابے دادوں کا وطن یوپی ہے۔ اس لیے میرے گھر میں اردو اور پنجابی دونوں زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ صرف اردو بولنے والا ہی محب وطن ہوتا ہے۔ وطن کی محبت کی جنم بھومیاں دل اور ضمیر ہوتا ہے۔ اگر زبان کو دیس پیار کا معیار بنا لیا جائے تو گونگے کہاں جائیں گے۔ پاکستان کے دیہات میں لوگ اردو نہیں بولتے تو کیا وہ محب وطن نہیں۔ اگر بندے میں بندیائی ہو تو وہ کوئی بھی زبان بول کر اپنی دھرتی کا سچا اور مخلص بیٹا ہو سکتا ہے۔میری عمر اس وقت (1977ء میں) سترسال ہے۔ عمرکے اس حصے میں بھی اپنے ملک، قوم اور عوام کو رب، رسولؐ، قرآن اور توحید کی طرف موڑنا چاہتا ہوں۔ مولویوں کی طرح نہیں۔ قلندروں کی طرح مست مضمون اورمومن غزلیں لکھ کر۔ میرے خیال میں پنجابی، پوٹھواری، ہندا اور سرائیکی، پنجابی لہجے ہیں۔ انکے بولنے والوں میں لسانی اتحاد ہونا چاہیئے۔ پنجابی شاعروں، ادیبوں کو اردو کی مخالفت نہیں کرنا چاہیئے۔ پنجابی اخبار جاری ہوں۔ دین، قانون، فلسفہ، تاریخ ، جغرافیہ، سیاست، طب اور سائنس وغیرہ کی کتابوں اور اصطلاحات کے ترجمے پنجابی میں شائع کیے جائیں۔ عدالتوں میں وکلاء کو پنجابی میں بحث کی اجازت دی جائے۔ پنجاب ریڈیو اور ٹیلی وژن، پنجابی زبان کے پروگراموں کو اتنا وقت دیں جتنا سندھ میں سندھی زبان کے پروگراموں کو دیا جاتا ہے۔ پنجابی زبان کے شاعروں کو امید اور امنگ کا رنگ اپنانا چاہیئے۔ مایوسی گناہ ہے۔ دین اور دنیا دونوں کی چاشنی کے ساتھ صاف ستھری سیاست ہونی چاہیئے۔ قوم کو زندگی سے بیزار اور عوام کو وطن سے بیزار کرنے والی شاعری اور تحریریں مضر ثابت ہوتی ہیں۔ علامہ اقبال، غالب اور میر انیس کے کلام کا پنجابی ترجمہ وقت کی ضرورت ہے۔ شیر افضل جعفری کے یہ خیالات 1977ء میں ریکارڈ کیے گئے تھے۔ وہ یکم ستمبر 1909ء کو جھنگ میں پیدا ہوئے۔ وفات 22 جنوری 1989ء میں ہوئی۔ تدفین قبرستان شہیدین (جھنگ) میں ہوئی۔ جعفری صاحب ساری عمر تدریس و تعلیم سے وابستہ رہے۔ 1968ء میں ریٹائر ہوئے۔ شاعری میں اپنے ’’جھنگ رنگ‘‘ کی وجہ سے معروف ہوئے۔ ملازمت کے دوران تحریک پاکستان میں سرگرم رہے۔ ان کے شعری مجموعے شہر سدا رنگ، سانولے من بھانولے، چناب رنگ، موج موج کوثر شامل ہیں۔ انکے صاحبزادے عباس ھادی بھی شاعر ہیں۔ جعفری صاحب کی وفات کے بعد عباس ہادی کا قلمی تعاون بھی مجھے حاصل رہا۔ شیر افضل جعفری کے جو خطوط ’’سانجھاں‘‘ میں شائع ہوتے رہے۔ ان میں ایک خط کا اقتباس ’’عباس عادی دیاں نظماں‘‘ پڑھ کے میں جوان ہو گیا واں۔ میرے ابا میاں احمد بخش احمد اپنے زمانے دے بڑے رنگیلے انسان، حاذق حکیم تے پنجابی دے لاڑے شاعر سن۔ اوہناں دے بعد مینوں تُک بندی دی توفیق ہوئی۔ ہن بیٹا عباس عادی امید لوائی اے۔ خدا چاہیا تاں عباس دی بیٹی نازش بتول وی شاعرہ بنسی۔  شیر افضل جعفری کی غزل کے چند اشعار:۔؎ 

محشر تائیں جیندا رہسیں 
گل اچ عشق دی پھاہی پا چا 
جے ہیں مست ملنگ علیؓ دا 
دین توں دنیا گھول گھما چا 
لا اِلہ دا ڈھول وجا کے 
اِلاَ اللہ دی ٹھمری گا چا 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن