اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ)وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے انتخابات کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس کے فیصلے پر نظر ثانی کی ضرورت نہیں، نہ ہی یہ تشریح طلب معاملہ ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ فیصلے پر نظر ثانی کی ضرورت نہیں، ہمارے مطابق یہ پٹیشن تین کے مقابلے میں چار سے مسترد ہوگئی ہے، فاضل جج صاحبان نے فیصلہ دیا ہے کہ ہائی کورٹس فیصلہ کریں۔ اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ دو ججز نے واضح کہا کہ جسٹس یحییٰ اور جسٹس اطہرمن اللہ سے اتفاق کرتے ہیں، دو ججز نے کہا کہ یہ درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں، یہ درخواستیں چار تین کے تناسب سے مسترد ہوگئی ہیں، دو ججز نے خود کیس سننے سے معذرت کی۔ وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے 2 ججز کے نوٹ کو فیصلہ جان کر ان کو بینچ میں شامل نہیں کیا، 5 رکنی بینچ کے 3 ججز نے زمینی حقائق دیکھ کر 9 اپریل سے آگے لے جانے پر مشاورت کا کہا، دونوں ہائی کورٹس میں درخواستیں ابھی تک زیرسماعت ہیں، فیصلے کی تشریح وہاں بھی ہوسکتی ہے، جو آئینی اور قانونی بات ہے وہی ہونی چاہیے، اس فیصلے میں نظر ثانی والی بات نہیں، فیصلہ واضح ہو تو نظرثانی والی بات نہیں ہوتی، اگر کسی کو اختلاف ہوا تو جا کر تشریح کرا لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ صدر مملکت نے ایک فیصلہ تھوپ کر واپس لیا، صدر کے وکیل نے کہا کہ صدر نے اختیارات سے تجاوز کیا، پشاور اور لاہور ہائی کورٹ میں انتخابا ت کا معاملہ زیر التوا ہے، صدر مملکت نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے، صدر نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنی ہے یا پھر پارٹی ورکر بن کر فیصلے کرنے ہیں۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل شہزاد عطا الٰہی کا کہنا تھا کہ بڑی تیز رفتاری سے عدالتی کارروائی ہوئی، پرسوں صبح سے شام 6 تک سماعت چلی، کل بھی 9 سے 6 عدالت چلی، جسٹس منصور کے نوٹ کا دوسرا پیراگراف اہمیت کا حامل ہے۔ اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ دو ججز کے نوٹ سے اتفاق کرتے ہیں، اختلافی نوٹ کے فٹ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ جسٹس یحییٰ اور جسٹس اطہرمن اللہ کے نوٹ بھی کیس کے ریکارڈ کا حصہ ہیں، اس طرح 4 ججز نے اختلافی نوٹ لکھا ہے، یہ 7 میں سے 3 ججز کا فیصلہ ہے۔