انتخابات کی تاریخ اسلام سے بھی ایک ہزار سال قبل اور کئی سو سال قبل مسیح کی ہے۔ الیکشن کا آغاز قدیم یونان کی چھوٹی چھوٹی شہری ریاستوں سے ہوا۔ شروع میں تو عمالِ شہر کے انتخاب کے لیے شہر کے تمام لوگ کسی اونچے ٹیلے یا بڑے میدان میں جمع ہوکر انتخاب میں شرکت کرتے۔ نزع اور لڑائی سے بچنے کے لیے زیادہ قیاس یہی ہے کہ کسی ایسے طریقہ¿ انتخاب پر اتفاق ہوا ہوگا جس کے بارے میں اختلاف کی گنجائش نہ ہو، جیسا کہ پرچیوں پر نام لکھ کر قرعہ نکال لیا جائے۔ اس کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ انتخابات کے طریقہ کار میں تبدیلیاں رونما ہوتی چلی گئیں۔ قدیم روم میں ایجاد ہوئے اس طریقہ کار کو خود رومیوں نے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ دھونس اور طاقت کے بل بوتے پر نہ صرف رومیوں بلکہ پوری دنیا کو مغلوب کیا اور ایک عظیم رومن سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ پانچویں صدی عیسوی میں موجودہ برطانیہ سے رومی سلطنت کا بوری بستر لپیٹ دیا گیا۔ برطانیہ میں اینگلوسیکسن دور حکمرانی کا آغاز ہوا اور انتخابات کو برطانوی حکمرانوں نے مقامی سطح پر دیہی اور شہری حلقوں میں کچھ نمائندہ افراد کو منتخب کرنے کے لیے استعمال کیا لیکن مرکزی سطح پر بادشاہت کا نظام ہی کام کرتا رہا۔ پھر تقریباً ایک ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ لگا جب انتخابات کے ذریعے حکومت کرنے کا اختیار عام آدمی تک پہنچا۔ گزشتہ صدی میں دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکا میں برابر سماجی و معاشرتی آزادیوں کی تحریک تک ہر ایک کو برابر حق رائے دہی حاصل نہیں تھا، خصوصاً ہر رنگ و نسل کے لوگ ایک جیسا حق رائے دہی نہیں رکھتے تھے۔ حق بالغ رائے دہی، یعنی ہر اٹھارہ سال کے مردو عورت کو ووٹ کا حق ملنے تک کئی ہزار سال کا سفر طے کرنا پڑا۔
اب آتے ہیں انتخابات کے مغربی فلسفے کی طرف کہ یہ کیوں ہونے چاہئیں۔ مغربی جمہوری سیاسی نظام کی ساری عمارت اس انتخابات نامی بنیاد پر کھڑی ہے۔ قدیم یونانی مفکر ارسطو سے لے کر برطانوی مفکر جان لاک تک سب نے حق حکمرانی پر بحث کی۔ برطانوی مفکر اس نتیجہ پر پہنچے کہ حکمران منتخب کرنے کا اختیار عوام کے پاس ہے۔مغرب میں عام آدمی کو ووٹ کی منتقلی کا مطلب حکمرانوں کو آسمانی یا خدائی اختیار سے نکال کر عوامی اقتدارِ اعلیٰ کے ماتحت کرنے کا نام ہے۔ اسے عام تار یخی حوالے سے مذہب اور ریاست کی علیحدگی سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ مذہب کی ریاست سے نہیں بلکہ سیاست سے علیحدگی کا آغاز تھا۔ گویا مغربی جمہوریت میں مذہب کو سیاست سے جدا کردیا گیا۔ مغربی سیاسی نظام میں عوام کی رائے یعنی انتخابات کے ذریعے پرامن انتقال اقتدار کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور مغرب کا سیاسی، معاشی، اور معاشرتی نظام اس ایک اصول کے گرد گھومتا ہے کہ طاقت اور تبدیلی کا ذریعہ عوام ہیں۔
یہ طے کرنے کے بعد کہ انتخابات ایک مغربی تصور ہے اور اس کا آغاز ہزار سال قبل از اسلام ہوچکا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جزیرہ نما عرب سے ظہور پذیر اس نئے سماجی انقلاب یعنی اسلام نے حق حکمرانی اور اس کی طرز کے بارے میں کوئی بات کی یا نہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ انسانی تاریخ کے اس عظیم ترین انقلابی نظام نے اس اہم مسئلے پر خاموشی اختیار کی ہو۔ اسلام کا پیش کردہ سیاسی نظام نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اسلام ایک آفاقی طرز فکر کا نام ہے۔ یہ کسی ایک فرد، گروہ یا مخصوص شہر یا خطے سے تعلق نہیں رکھتا، اسلام میں مغربی طرز کے انتخابات کا کوئی تصور موجود نہیں۔ اسلام میں مشاورت کا حکم ہے مگر مشاورت کے لیے شرائط یعنی اہلیت کا ذکر بھی ہے۔ سورہ آل عمران میں نبی پاک ﷺ سے کہا گیا کہ ’اور کاموں میں ان سے مشورہ لیتے رہو‘۔ ایک اور جگہ اہل ایمان کی کئی صفات بیان کرتے ہوئے ایک یہ صفت بھی بیان کی کہ ’ان کا کام ان کے آپس کے مشورے سے ہے‘۔ اسی طرح متعدد احادیث مبارکہ ہیں جن سے یہ بات عیاں ہے کہ آپس میں مشاورت کو کتنی اہمیت و فضیلت حاصل ہے۔ ان آیات اور احادیث کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ معاشرتی معاملات میں رائے لینے اور باہم مشورہ کرنے سے اجتماعی سوچ اور ذہن کی عکاسی ہوتی ہے اور دستیاب عقلی وسائل سے بہتر سے بہتر نتیجہ کی توقع کی جاسکتی ہے۔
اسلام کے بیان کردہ عمومی رائے کو جاننے کے لیے طریقہ کار کو نہ صرف صراحت سے بیان کیا گیا ہے بلکہ ان پر عمل بھی کیا گیا جس کی بہترین اور ابتدائی عمدہ مثال نبی پاک ﷺ کی رحلت کے بعد سقیفہ بنی ساعدہ کے مقام پر دیکھنے میں آئی۔ اسلامی تاریخ کے ایک نہایت اہم موڑ پر اور ایک نہایت اہم کام کے لیے کہ آپ کے جانشین کا انتخاب ہونا تھا۔ اسلامی امارات کے امیر کا چناو¿ کرنے کے لیے خاص الخاص افراد کا اکٹھ ہوا۔ اسی طرح خلافت راشدہ کے چار خلفاءکا انتخاب چار مختلف طریقوں کے ذریعے عمل میں لایا گیا۔ مجلس خاص، جانشینی،محدود کونسل، اور عمومی عوامی رائے کے ذریعے خلفائے راشدہ کا انتخاب عمل میں آیا۔ چاروں طریقہ ہائے انتخاب میں رائے اور مشورہ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اسلام میں دیے گئے اقتدار کی منتقلی کے لیے طریقہ انتخاب اور مغربی جمہوری طریقہ انتخاب میں کیا فرق ہے؟
1۔ سب سے پہلا فرق یہ ہے کہ اسلام میں بیعت کا تصور مغربی نظام میں دیے گئے ووٹ کے تصور سے مختلف ہے۔ مغربی طرز حکومت میں ہر شہری کو برابر ووٹ کا حق دیا گیا ہے اور ووٹ دینے کے لیے شرائط بھی محدود اور منفرد ہیں جبکہ بیعت دو اقسام کی ہے، بیعت خاص اور بیعت عام ۔ ان دونوں کے لیے اہلیت بھی فرق ہے، بیعت خاص کے لیے خاص اہلیت اور کڑی شرائط ہیں جن کا تعلق افراد کے علم اور اخلاق و کردار سے ہے جبکہ بیعت عام کے لیے شرائط کم اور نرم ہیں، یعنی صادق اور امین ہونے کی شرط صرف منتخب ہونے والوں کے لیے نہیں بلکہ ان کے لیے بھی ہے جو منتخب کرنے والے ہوں۔
2۔ اسلام کے سیاسی نظام میں مغربی طرز کی جمہوریت کا تصور موجود نہیں۔اسلامی طرز حکومت میں بیعت خاص کی نوبت پہلے آتی ہے اور بیعت عام کی بعد میں، مغربی طرز حکومت میں اس کے برعکس ہے، یعنی عام ووٹ کے ذریعے کسی مخصوص ادارے کا چناو¿ کیا جاتا ہے اور پھر وہ ادارہ خاص لوگوں کے ووٹ کے ذریعے باقی اہم فیصلہ سازی کرتا ہے۔ مغربی جمہوریت میں پہلے عام لوگ اور پھر مخصوص افراد منتقلی اقتدار میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں جبکہ اسلام میں اقتدار کی منتقلی کے لیے پہلے خاص اور اہل افراد کی رائے لی جاتی ہے، عام لوگوں سے قبولیت کا لمحہ بعد میں آتا ہے۔
3۔ جدید مغربی نظام منتقلی اقتدار کے لیے ایک ہی طرز عمل کی بات کرتا ہے جبکہ اسلامی انتخابی نظام کسی ایک طریقہ پر بضد نہیں۔
4۔ ووٹ کے ذریعے شہری محدود مدت کے لیے حکمران کا انتخاب کرتے ہیں، بیعت کے لیے مدت کا تعین نہیں، عموماً تاحیات ہے۔ گویا ووٹ کے ذریعے دی گئی طاقت یا اختیار ووٹ کے ذریعے واپس بھی لیا جاسکتا ہے مگر دی گئی بیعت واپس نہیں لی جاسکتی۔
5۔ اسلام میں انسانوں یا شہریوں کی برابری اور مساوات کا تصور نہیں۔ قرآن پاک کے طے کردہ اصول کے مطابق جاننے والے اور نہ جاننے والا برابر نہیں ہوسکتے، ارشادِ ربانی ہے: ’کہہ دو کہ کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں؟‘ جبکہ مغربی طرز انتخاب میں تمام شہری یعنی ووٹرز برابر تصور ہوتے ہیں، خواہ وہ باعلم ہوں یا بے علم۔