اعظم گِل۔اسلام آباد۔
سپریم کورٹ نے دو صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں عام انتخابات میں تاخیر کے خلاف لئے گئے از خود نوٹس کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا ہے 13 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ تین دو کے تناسب سے جاری کیا گیاہے تین فاضل ججز کا حکم پہلے 11 صفحات اور 16 پیراگراف پر مشتمل ہے جبکہ 2 ججز جسٹس منصور علی شاہ اورجسٹس جمال خان مندوخیل کا اختلافی فیصلہ 2 صفحات پر مشتمل ہے۔28 فروری 2023 کو محفوظ کیا گیا اکثریتی فیصلہ چیف جسٹس عمرعطا بندیال، جسٹس منیب اختراور جسٹس محمد علی مظہر نے تحریر کیا ہے یہ فیصلہ 1 ازخود نوٹس اور 2 درخواستوں جو کہ بالترتیب اسلام آباد ہائیکورٹ بار اور پنجاب اسمبلی کے سابق اسپیکر محمدسبطین خان کی جانب سے دائرکردہ درخواستوں پر سنایا گیا ہے۔عدالت نے لکھا ہے کہ یہ حکم دو تین کی اکثریت سے جاری کیا جا رہا ہے ۔ فیصلے کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔عدالت نے از خود نوٹس کا فیصلہ منگل کے روز محفوظ کیا تھا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے انتخابات از خود نوٹس میں 90روز میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کروانے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن میں تاخیر پرازخود نوٹس کے فیصلے میں کہا کہ پنجاب اور خیبرپختوانخوا میں 90 روز میں الیکشن کروائے جائیں۔گورنر کے حکم پر اسمبلی تحلیل ہوئی ہے تو گورنر الیکشن کی تاریخ دیں۔
عدالت نے صدر مملکت کو الیکشن کمیشن سے مشاورت کرکے پنجاب جبکہ کے پی میں گورنر کو الیکشن کمیشن سے مشاورت کرکے الیکشن کی تاریخ دینے کا حکم دیا۔سپریم کورٹ نے صدر کا 20 فروری کا حکم پنجاب کی حد تک درست جبکہ کے پی کے اسمبلی کے لیے کالعدم قرار دے دیا۔سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ الیکشن کمیشن گورنر اور صدر کے ساتھ مشاورتی کردار ادا کرنے کا پابند ہے۔ صدر نے 9 اپریل کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا۔ اس صورتحال میں الیکشن کمیشن نے اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ 9 اپریل کو انتخابات ممکن نہیں تو مشاورت کے بعد پنجاب میں تاریخ تبدیل کی جاسکتی ہے۔عدالت نے کہا کہ یہ وفاق کی ذمہ داری ہے کہ انتخابات کروانے میں اپنا کردار ادا کرے اور ایگزیکٹو اتھاریٹیز الیکشن کمیشن کی مدد کریں۔ گورنر کے پی فوری طور پر انتخابات کی تاریخ دیں اور تمام وفاقی اور صوبائی ادارے الیکشن کمیشن کو سیکورٹی سمیت ہر طرح کی امداد فراہم کریں۔
چیف جسٹس نے 22 فروری کو انتخابات میں تاخیر پر از خود نوٹس لیتے ہوئے 9 رکنی لاجر بینچ تشکیل دیا تھا۔ حکمران اتحاد نے بینچ میں شامل 2 ججز جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی پر اعتراض اٹھایا تھا۔جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ بھی بینچ سے الگ ہو گئے تھے ۔جس کے بعد چیف جسٹس نے دوبارہ 5 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔پنجاب اور کے پی انتخابات از خود نوٹس کی 4 سماعتیں ہوئیں۔ گزشتہ روز 7 گھنٹے کی طویل سماعت میں فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آئینی طور پر انتخابات نوے روز میں ہوں گے۔ کوئی آئینی ادارہ انتخابات کی مدت نہیں بڑھا سکتا ہے۔ انتخابات وقت پر نہیں ہوئے تو ملک میں استحکام نہیں آئے گا۔سپریم کورٹ نے از خود نوٹس کے فیصلے میں کہا ہے کہ ہر صوبائی حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے کہ صوبے کو آئین کے مطابق چلایا جائے۔عام انتخابات کا آئین کے مینڈیٹ کے مطابق اعلان بھی اس آئینی ذمہ داری میں شامل ہے۔فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 220 کے مطابق وفاق اور صوبوں کے ماتحت تمام اتھارٹیز کی ذمہ داری ہے کہ الیکشن کمیشن کی معاونت کریں۔ ہنگامی بنیادوں پر وفاقی حکومت الیکشن کمیشن کو افرادی قوت اور سیکورٹی سمیت تمام سہولیات فراہم کرے۔عمومی حالات میں پنجاب کے انتخابات 9 اپریل کو ہونے چاہییں تھے۔ ہمیں بتایا گیا ہے عام انتخابات 90 روز کے آئینی تقاضے کے مطابق نہیں ہو سکتے۔ الیکشن کمیشن انتخابات کے انعقاد کے 90 دن کی ڈیڈ لائن پر پورا اترنے کے لیے حتی الامکان کوشش کرے۔اگر 90 دن کی ڈیڈ لائن پر عمل ممکن نہیں تو اس کے قریب ترین کی کوئی تاریخ مقرر کی جائے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد صدر مملکت پنجاب میں اور گورنر خیبرپختونخواہ میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان کریں۔فیصلے میں چیف جسٹس نے کہا کہ خیبر پخونخوا کی اسمبلی کیونکہ گورنر کی منظوری پر تحلیل ہوئی اس لئے گورنر کے پی کے کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کرنا آئینی ذمہ داری کی خلاف ورزی ہے۔فیصلے کے مطابق آئین میں انتخابات کے لیے 60 اور 90 دن کا وقت دیا گیا ہے، جنرل انتخاب کا طریقہ کار مختلف ہے۔
عدالت عظمی کے فیصلے کے اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ ہائی کورٹ میں زیر التوا معاملے پر ازخود نوٹس نہیں لے سکتی۔جسٹس منصورعلی شاہ اورجسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ منظور الہی اور بے نظیر کیس کے مطابق ازخود نوٹس لینا نہیں بنتا، ہائی کورٹس میں اسی طرح کا کیس زیر سماعت ہے، 90 روز میں انتخابات کرانے کی درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں۔اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ازخودنوٹس لینے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی، ازخود نوٹس جلد بازی میں لیا گیا، ازخود نوٹس کا اختیار سپریم کورٹ کو استعمال نہیں کرنا چاہیے تھا، معاملہ ہائی کورٹس میں تھا تو سپریم کورٹ نوٹس نہیں لے سکتی تھی، لاہور ہائی کورٹ پہلے ہی مقدمے کا فیصلہ کرچکی ہے، آرٹیکل 184/3 کے تحت یہ کیس قابل سماعت نہیں، ہائی کورٹ میں معاملہ ازخود نوٹس کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوا، ہائی کورٹس زیر التوا مقدمات کا جلد فیصلہ کریںاز خود نوٹس کیس کا فیصلہ سنائے جانے سے قبل کمرہ عدالت میں وکلا اور سیاسی رہنما موجود تھے، اس موقع پر میڈیا نمائندگان کی بڑی تعداد بھی فیصلہ سننے کے لیے کورٹ میں موجود تھی جب کہ اس دوران بیرسٹر علی ظفر، فیصل چوہدری، شعیب شاہین، سابق وفاقی وزرا شیریں مزاری ،شیخ رشید، فواد چوہدری سمیت کئی سیاسی رہنما بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
۔ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والے عدالت عظمی کے 5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل تھے۔ابتدائی طور پر 22 فروری کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ میں معاملے کی سماعت کے لیے 9 رکنی لارجربینچ تشکیل دے دیا تھا تاہم 24 فروری کو 9 رکنی لارجربینچ سے 4 اراکین کے خود الگ ہونے کے بعد 5 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت مکمل کی۔گزشتہ روز پورے دن جاری رہنے والی سماعت کے بعد بینچ نے تقریبا 5 بج کر 15 منٹ پر مختصر حکم سنانے کا اعلان کیا، تاہم بعد ازاں فیصلہ بروز بدھ تک محفوظ کر لیاگیا۔وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے عدالت کے فیصلے پر کہا ہے کہ الیکشن از خود نوٹس چار، تین سے مسترد ہوگیا۔وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ازخودنوٹس کیس کے فیصلے پر نظر ثانی کی ضرورت نہیں اور نہ ہی یہ تشریح طلب معاملہ ہے۔انہوں نے کہا کہ آج کا فیصلہ واضح ہے۔ دو ججز نے کہا کہ جو فیصلہ پہلے دو ججز نے دیا ان کی بھی وہی رائے ہے۔ ہمارا موقف ہے یہ پیٹیشن چار، تین سے ریجیکٹ ہوگئی ہے۔ اس حوالے سے مزید کسی رائے کی ضرورت نہیں۔ یہ بنیادی طور پر سات رکنی بینچ تھا۔ دوججز نے رضا کارانہ طور پر خود کو الگ کرلیا تھا۔وزیرقانون کا مزید کہنا تھا کہ سب سے زیادہ قانون صدر نے توڑا ہے جنہوں نے فیصلہ کرکے تھوپ دیا اور پھر اسے واپس لے لیا۔ دونوں ہائیکورٹس میں معاملات ابھی زیرالتوا ہیں، وہیں پرتشریح ہوگی۔اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہم آن ریکارڈ کہہ رہے کہ کوئی الیکشن سے نہیں بھاگ رہا۔ ہمارے وکیل نے کہا ہے کہ 35 ارب روپے کی لاگت سے ڈیجیٹل مردم شماری ہورہی ہے۔ اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بڑی تیز رفتاری سے عدالتی کارروائی ہوئی، پرسوں صبح سے شام 6 تک سماعت چلی، کل بھی 9 سے 6 عدالت چلی۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اس کارروائی میں مکمل تعاون کیا، کوئی تاریخیں نہیں مانگیں، حقائق سب کے سامنے ہیں، معاملہ 9 رکنی بینچ سے شروع ہوا اور 5 رکنی بینچ تک آگیا، جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ نے 23 فروری کو ہی اپنے نوٹ میں ان دونوں پٹیشنز کو مسترد کردیا تھا۔اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہی کا کہنا تھا کہ 5 رکنی بینچ نے جو فیصلہ دیا ہے اس میں جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ اس کیس کے ریکارڈ میں 5 نہیں 7 ججز صاحبان کے فیصلے موجود ہیں۔ اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ 2 ججز کے نوٹ سے اتفاق کرتے ہیں، اختلافی نوٹ کے فٹ نوٹس میں کہا گیا ہے جسٹس یحییٰ اور جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹ بھی کیس کے ریکارڈ کا حصہ ہیں، اس طرح 4 ججز نے اختلافی نوٹ لکھا ہے، یہ 7 رکنی بینچ میں سے 3 ججز کا فیصلہ ہے۔