چوہدری شاہد اجمل
chohdary2005@gmail.com
پنجاب، خیبر پختونخوا میں انتخابات کے حوالے سے کئی نئے سوالات کھڑے ہو گئے ہیں ،فریقین فیصلے کی اپنی اپنی تشریحات کر رہے ہیں،پاکستان تحریک انصاف اسے آئین وقانون کی فتح قرار دے رہی ہے تو حکومت اسے اپنے حق میں سمجھ رہی ہے سینئر ججز کو چھوڑ کر 9 رکنی اور پھر 5 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا ، عدالت عظمی نے الیکشن کمیشن کو انتخابات کے لیے 90 روز کی مدت آگے بڑھانے کی اجازت دی ہے اور اختلافی نوٹس کی بنیاد پر اکثریتی فیصلہ مبہم ہے۔وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ ہمارے مطابق یہ پٹیشین 3 کے مقابلے میں 4کی اکثریت سے مسترد ہوگئی۔ اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ فیصلے پر نظر ثانی کی ضرورت نہیں، نہ ہی یہ تشریح طلب معاملہ ہے۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ فیصلہ بہت واضح ہے اور کوئی ابہام بھی نہیں ہے، یہ کوئی ہار جیت یا اہلیت اور نااہلی کا کیس نہیں تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ایک آئینی نکتے پر بحث ہوئی جس میں 2 جج صاحبان نے خود کو رضاکارانہ طور پر بینچ سے علیحدہ کرلیا۔ 7 جج صاحبان میں سے 2 جج صاحبان 23 تاریخ کو اپنا فیصلہ دے چکے تھے کہ ہم ان پٹیشنز کو خارج کرتے ہیں، یہ قابل سماعت نہیں ہیں۔اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ 2 جج صاحبان اس معاملے پر پہلے ہی فیصلہ دے چکے ہیں اس لیے اب ان کا اس معاملے پر بیٹھنا مناسب نہیں ہے، اس لیے دیگر 5 ججز نے اس کیس کی سماعت کی۔انہوں نے کہا کہ آج 5 رکنی بینچ کا فیصلہ آیا، 3 جج صاحبان نے کہا کہ یہ پٹیشنز قابل سماعت ہیں، گورنر اور الیکشن کمیشن مشاورت سے تاریخ دیں، 90 روز تو گزر جائیں گے لیکن مشاورت کے بعد جتنی جلدی ممکن ہو سکے انتخابات کروائے جائیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے، ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ حالات سازگار ہوں تو بھی آئین انتخابات کے انعقاد کا حق الیکشن کمیشن اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو دیتا ہے، اس بحث کو چھوڑ دیں۔وزیر قانون نے کہا کہ آج کے فیصلے میں 2 جج صاحبان نے 23 فروری کے اختلافی نوٹس سے اتفاق کیا، اس فیصلے کو پڑھنے کے بعد ہمارا یہ موقف ہے کہ یہ پٹیشنز 3-4 سے مسترد ہوگئی ہیں، اب یہ فیصلہ ہائی کورٹ میں زیر سماعت کارروائی میں ہوجانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اس فیصلے میں نظر ثانی والی بات نہیں، فیصلہ واضح ہو تو نظرثانی کی ضرورت نہیں ہوتی، اگر کسی کو اختلاف ہوا تو جاکر تشریح کروالیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ صدر مملکت نے ایک فیصلہ تھوپ کر واپس لیا، صدر کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ میرے موکل نے اختیارات سے تجاوز کیا، صدر مملکت نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے، فیصلہ کرلیں کہ صدر نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنی ہے یا پھر پارٹی ورکر بن کرفیصلے کرنے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پشاور اور لاہور ہائی کورٹس میں انتخابات کا معاملہ زیر التوا ہے، اس فیصلے کی تشریح ان دونوں ہائی کورٹس میں بھی ہوسکتی ہے۔
اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بڑی تیز رفتاری سے عدالتی کارروائی ہوئی، پرسوں صبح سے شام 6 تک سماعت چلی، کل بھی صبح 9 بجے سے شام6 بجے تک عدالتی کارروائی چلتی رہی۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اس کارروائی میں مکمل تعاون کیا، کوئی تاریخیں نہیں مانگیں، حقائق سب کے سامنے ہیں، معاملہ 9 رکنی بینچ سے شروع ہوا اور 5 رکنی بینچ تک آپہنچا، جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ نے 23 فروری کو ہی اپنے نوٹ میں ان دونوں پٹیشنز کو مسترد کردیا تھا۔اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہی کا کہنا تھا کہ 5 رکنی بینچ نے جو فیصلہ دیا ہے اس میں جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ اس کیس کے ریکارڈ میں 5 نہیں 7 ججز صاحبان کے فیصلے موجود ہیں۔انہوں نے کہا کہ جسٹس منصور کے نوٹ کا دوسرا پیراگراف اہمیت کا حامل ہے، اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ 2 ججز کے نوٹ سے اتفاق کرتے ہیں، اختلافی نوٹ کے فٹ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ جسٹس یحییٰ اور جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹ بھی کیس کے ریکارڈ کا حصہ ہیں، اس طرح 4 ججز نے اختلافی نوٹ لکھا ہے، یہ 7 میں سے 3 ججز کا فیصلہ ہے۔پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ ہمارا موقف پانچوں ججز نے تسلیم کیا ہے۔فواد چوہدری کا کہناہے کہ انتخابات 90 روز میں ہونے ہیں۔ آج ایک بار پھر آئین کی بالا دستی ہوئی ہے۔ ہمارا موقف پانچوں ججز نے تسلیم کیا ہے۔عوامی مسلم لیگ کے رہنما شیخ رشید نے کہا کہ آئین جیت گیا۔ قوم الیکشن کی تیاری کرے۔ پی ٹی کے پی اور پنجاب میں الیکشن جیتیں گے۔پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفرکا کہنا تھا کہ قوم کو مبارک ہوں ایک بار پھر آئین کی بالادستی ہوئی ہے۔ صدر پنجاب میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان کریں گے جبکہ خیبرپختونخوا کے الیکشن کی تاریخ گورنر دیں گے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛