Ameer Muhammad Khan1
امیر محمد خان
سب سے بڑی جمہوریت کا راگ الاپنے والے ملک بھارت جہاں صرف ہندو ہی اول درجے کے شہری ہیں ، وہاں موجود مسلمان جو بھارت کی محبت کا راگ الاپتے ہیں انکا شما ردوسرے نمبر کے شہریوں میںہوتا ہے چاہے وہ کسی بڑے نام سے بھی شناخت رکھتے ہیں اسی طرح کے ایک دوسرے نمبر کے شہری شاعر جاوید اختر کو فیض احمد فیض کی یاد میں ایک تقریب میں پاکستان دعوت دی گئی اور ہر دوسرے نمبر کا شہری کی طرح جو بھارت میں پاکستان کے خلاف ہرزاء سرائی کرکے اپنی محبت بھارت سے اور اسکی جمہوریت سے دکھانا چاہتا ہے ہے یہ بھارتی شہریوں کی مجبوری ہے اور یہ خاص طور پر دو نمبر کے شہریوں کی مجبوری ہے ۔ گزشتہ دنوں مختلف جگہوں پر جاوید اختر نے پاکستان کو نیچا دکھانے اور بھارت کا ’’دل ‘‘بڑا بتانے کی ناکام کوششیں کیں ، جاوید اختر کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی قابل مذمت ہیں جو نہ جانے کیوں سمجھتے ہیں کہ ثقافت دو ملکوں کی تہذیب کو قریب ، دو ملکوں کے عوام کو قریب لا سکتی ہے ۔شائد ایساہوتا ہو مگر یہ اسوقت خام خیالی ہے جب کوئی شخص پاکستان آکر ہمارے خلاف او ل فول بک کرجائے اور ہم اسے ایک دانشور ، شاعر کا خیال کہہ دیں ۔
کیا جاوید اختر کو پاکستان میں ایک اچھے ماحول کی محفل میں ممبئی حملے کا الزام پاکستان پر لگانا چاہیے تھا؟ دونوں ملکوں میں امن پیار اور بھائی چارے کو فروغ دینے کی محفل میں انہوں نے ایسی بحث کیوں چھیڑی جس کے نتیجے میں بہتر ماحول کی فضا مزید خراب ہونے کی طرف چل پڑی اب دونوں طرف سے ایک مرتبہ پھر پرانے گڑے مردے اکھاڑے جا رہے ہیں ایک مرتبہ پھر ایک دوسرے پر الزام تراشی کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے بجائے نفرت کو کم کرنے کے نفرت کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔ ممبئی حملوںکا الزام انہوں نے نہائت ڈھٹائی سے پاکستان کے سر تھوپ دیا ، جبکہ بھارت کی بعد کی تحقیق نے ثابت کیا کہ یہ سب بھارتیوں کا اپنا مرتب کردہ پروگرام تھا ، انکا کہنا تھا کہ بمبئی حملوں کے دہشت گرد پاکستان سے آئے تھے اگر وہ یہ بھی کہہ دیتے کہ دنیا اسوقت دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور کلبھوشن یادو ، ابھی نند تو بھارتی حکومت کی ذاتی دہشت گردی تھی ، کشمیر میں ظلم و ستم جسے دنیا جانتی ہے کہ وہ دہشت گردی بھارت منظم طور پر کررہا ہے ، بھارت میں موجود انسانی حقوق کی تنظیمیں یہ بات بارہا کہہ چکی ہیں ۔ چونکہ کلبھوشن یادیو اور ابھی نندن بھی بھارت سے ہی آئے تھے جس میں سے ایک پاکستانی مہمان نوازی اور بھارتی دوستی کے خواہش مند ہمارے سیاست دانوںنے اس کھلی دہشت گردی کے باوجود ابھی نند کوواپس کردیا کلبھوشن کو پاکستان دہشت گردی کیلئے بھیجنے والے آج بھی ہندوستان میں آزاد گھوم پھر رہے ہیں اگر ان کے حوالے سے پاکستانیوں کی جانب سے شکوہ کیا جاتا ہے تو پھر جاوید اختر اور ان کے بھارتی ہم و طنوں کو برا نہیں منانا چاہیے۔یہ بات خو ش آئند ہے کے پاکستان کے چند کے علاوہ فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے مختلف مشہور اداکاروں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ جاوید اختر کب گجرات اور کشمیر کے بارے میں لب کشائی کریں گے؟پاکستانی فنکار جب بھارت بلائے جاتے ہیں تو وہاں انکے سننے والے اور ہمارے فنکاروں سے بھاری رقم کمانے والے ہی مستعفید ہوتے ہیں ، یہ ہمارے فنکاروںکا کمال ہے ، بھارت کے انتہا ء پسند تو پاکستان کے فنکار تو ایک طرف اپنے ہی ملک کے اپنے مسلمان فنکاروں کو چاہے وہ سلمان خان ہوں یا شاہ رخ خان انکے ساتھ بھی بھارت دو نمبر شہریوں جیسا سلوک کرتا ہے ، اور انہیں بھی دھمکیوںسے نواز کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس صورتحال میں جاوید اختر کا خوف انہیں پاکستان پر تنقید کرنے پر مجبور کرتا ہے مذکورہ محفل میں جب تک جاوید اختر نصرت فتح علی خان اور مہدی حسن کے بارے میں گفتگو کی اور لتا منگیشکر کا ذکر کیا جس پر کافی تالیاں بھی بجیں تب تک بات ٹھیک تھی اور حقائق کے مطابق تھی لیکن اس کے بعد جاوید اختر پٹری سے اتر گئے۔ یہ ہمارے منتظمین کی نااہلی ہی ہے کہ موقع پر کسی نے ان کو جواب نہیں دیا کیونکہ وہ مہمان تھے یہ بات واضح ہے کہ پاکستان میں اس طرح کی زبان بندی نہیں ہے جس طرح بھارت میں ہوتی ہے پاکستان میں بات کرنے کی اجازت ہے اسی لیے جاوید اختر کتنی باتیں کر گئے۔کیا جاوید اختر بھارت میں کھڑے ہوکر کشمیر اور گجرات کے بارے میں بات کر سکتے ہیں۔کیا وہ بھول گئے کہ ان کی اپنی اہلیہ شبانہ عظمی بیوی پر کہہ چکی ہیں کہ صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے انہیں ممبئی میں فلیٹ خریدنے کی اجازت نہیں ہے۔جب جاوید اختر اور شبانہ اعظمی جیسے نامور لوگ ممبئی میں فلیٹ خریدنے کے حقدار نہیں ہیں سیف علی خان کو وہاں پر پراپرٹی خریدنے کی اجازت نہیں ہے تو وہ کون سے سیکولر انڈیا کی بات کر سکتے ہیں؟کیا سب سے بڑی جمہوریت کا دعویدار یہ برداشت کرے گا کہ ہمارا کوئی شہری یا فنکار بھارت جاکر بھارت کو کشمیر ، گجرات یاد دلائے ؟؟ اپنی عزت اپنے ہی ہاتھ ہوتی ہے جاوید اختر نے ریمارکس دیے کہ ان کے بیانات اتنے بڑھ گئے ہیں کہ وہ ان کے لیے شرمناک بن گئے ہیں ان کا مزید کہنا تھا کہ شہریوں اور میڈیا کی جانب سے اتنے ردعمل سامنے آئے ہیں کہ انہوں نے کالز کا جواب دینا ہی چھوڑ دیا ہے پاکستان وزارت خارجہ نہ جانے کیوں ثقافتی یلغار کو کیوںنہیں روکتی اور نتھو خیرے کو ویزہ فراہم کردیتی ہے کہ وہ جو چاہے بگ بگ کرے اور چلا جائے ۔ ۔نغمہ نگار شاعر نے مزید کہا کہ پاکستان بھارتی فنکاروں کو اس طرح قبول نہیں کرتا جس طرح بھارت کرتا ہے۔جاوید اختر اپکی فلم انڈسٹری تو پاکستان کے مشہور گانے ’’ریمکس ‘‘کے نام بھارتی گانے ہونے کا دعوی کرتی ہے ، کہا جاتا ہے جاوید اختر اپنی بات کہتے ہوئے نہیں گھبراتا تو کشمیر ، گجرات پر بات کرنے یا پاکستان فنکاروں کے ساتھ بے ایمان پروموٹرز پر بات سے کیوں نہیں روکتی؟کانفرنس میں جب ان سے سوال کیا گیا کہ بھارت ہر پاکستانی کو دہشت گرد تصور کرتا ہے تو سچ بات کہنے کے دعویدار جاوید اختر فرماتے ہیں کہ 26/11 ممبئی دہشت گردانہ حملوں کے مجرم پاکستان میں آزاد گھوم رہے ہیں۔ اس کے بعد سے وہ تنازعات کے مرکز میں ہیں - پاکستانی مشہور شخصیات نے ان پر تنقید کی ہے جبکہ ہندوستانی مشہور شخصیات کے ساتھ ساتھ سیاست دان بھی اس بیان پر ان کی تعریف کر رہے ہیں۔انکے اس بیان پر جاوید اختر کی خواہش پوری ہوگئی اور بھارت لیڈر شپ اور میڈیا نے جاوید اختر کی واہ واہ کی ۔ ا نہیں اس بات کا ادراک ہوچلا ہے کہ اب وہ پاکستان کبھی نہ آسکیں ۔