saira
سائرہ اسلم
آج ہم زندگی کے جس موڑ پر کھڑے ہیں وہاں ہم صرف ایک دوسرے کو اپنی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں ہم کہتے ہیں کہ ہمارا ملک ترقی نہیں کر رہا ہماریملک کا نظامِ قانون درست نہیں رشوت, چوری, جھوٹ ,دغابازی ,فریب,دھوکااور مکاری عام ہے اور اس سب کا ذمہ دار معاشرہ ہے جو ہم پر وارد کیا گیا ہے.لیکن یہ خیال نہیں کرتے کہ معاشریکی خرابی کا ذمہ دار کون ہے؟پھر ہم کہتے ہیں کہ معاشرہ تو پہلے ہی سے خراب تھا. یعنی معاشرتی خرابی میں ہمارا کوئی ہاتھ نہیں
یہ سچ ہے کہ معاشرہ ہماریوجود سے پہلے ہی خراب تھا اور ہم نے اس کی خرابی میں کوئی حصہ نہیں ڈالا مگر ہم نے اس کی درستگی کے لئے بھی کوئی کام سر انجام نہیں دیا بلکہ ہمارے وجود اور نفسانی خواہشات نے اسے مزید خراب کیا ہے.
اب بات کرتے ہیں معاشرتی بگاڑ کی اصل وجہ کی جس کی ابتدا ایک بچے کی پیدائش سے شروع ہوتی ہے.بچے کی پیدائش سے ہی والدین اپنے بچے کے لئے بڑے حساس ہوتے ہیں, اسے ذندگی کی تمام آسائشیں فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اچھی تعلیم کے فروغ کے لئے اچھے سے اچھے اور بہتر سے بہتر سکول و کالج میں داخلہ دلوانے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ ان کی آنے والی نسل اور بہتر ہو سکے اور انہیں ان حالات کو برداشت نہ کرنا پڑیجواس کے والدین نے برداشت کئے. مگر اس عمل کے دوران وہ ایک غلطی کرتے ہیں بلکہ یہ گناہ کے زمرے میں آتا ہے کہ آنے والی نسل اپنے مقصد زندگی سے ہی ناواقف ہو وہ یہ خیال تک نہیں کرتے کہ آنے والی نسل کو بہترین تعلیم وتربیت کے لئے اچھے سکول یا نصاب کی نہیں اچھی تربیت کی ضرورت ہے اور وہ اس بگڑے ہوئے معاشرے میں کیسے ممکن ہے ؟
"اس کا جواب اتنا ہی آسان ہے جتنا کہ انسان کا وجود "یعنی اگر ہم معاشرے کے وجود کی بات کریں کہ کیسے بنا تو یہی جواب ہو گا کہ "ایک فرد واحد کے دوسرے سے ملاپ کے بعد وجود میں آنے والی نسل سے معاشرہ وجود میں آیا " .اب اگر اس ہی بات کو لیا جائے تو معاشرے کا سدھار بھی اس ہی طریقے سے ممکن ہے. یعنی ایک فرد واحد کی بہتر تربیت اور اصلاح کی جائے. اگر ہر شخص ایک فردِواحد کی اصلاح کرے گا تو یقیناً ایک پورا معاشرہ اصلاح کے زمرے میں ہو گا. ہاں یہ سچ ہے کہ یہ ایک بہت طویل دورانیہ ہے مگر شروعات تو کی جا سکتی ہے نہ ابھی فوری طور پر نہ سہی ایک عرصے کے بعد سہی, ہمارے لئے نہ سہی آنے والی نسلوں کے لئے ہی سہی معاشرہ بہتر تو ہو گا برائیاں کم تو ہوں گی ملک ترقی تو کر ے گا.
یہ سچ ہے کہ ان باتوں کو محض کتابی باتیں کہا جائے گا, ان کو وقت کا ضیاع سمجھ کر بھلایا جائے گامگر سچ تو یہ بھی ہے کہ ان ہی والدین کی طرح پچاس (50)سال پہلے والدین تھے جنہیں اپنی اولاد کے لئے ان ہی والدین کی طرح آسائشوں اور خواہشات کو پورا کرنے کا شوق تھا اور تربیت کی فکر نہ تھی. آج جن حکمرانوں کو برا کہتے ہیں, گالیاں دیتے ہیں, عوام کا خون چوسنے والی جونک کہتے ہیں ,یہ ان ہی والدین کی نازوں پلی اولادیں ہیں. آج اگر یہ والدین اپنی نسلوں کی اصلاح نہیں کریں گے تو آنے والے دور میں یہ ملک کے حکمران ہوں گے اور ملک کبھی بھی ترقی نہ کرے گا اور ملکی ترقی میں رکاوٹ اور بگاڑ کے ذمہ دار یہی افراد ہوں گیاور ان ہی کی نسلیں اس سے بھی زیادہ اذیت برداشت کریں گی جو یہ کر رہے ہیں………
سائرہ اسلم