وفاقی جامعہ اُردو،پروفیسر فتح محمد ملک اور ان کی خودنوشت 

Mar 02, 2023

ڈاکٹر محمد وسیم انجم

waseem26 cmp agn 26
rz25-3
نگارشاتِ انجم…ڈاکٹر محمد وسیم انجم

 پروفیسر فتح محمد ملک کی خودنوشت ’’آشیانہ غربت سے آشیاں در آشیاں‘‘ کی اولین تقریب پذیرائی پر انہیں مبارک باد پیش کرتے ہیں۔  صدارت ہماری مادر علمی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر ساحر درویش صفت ہیں او ران کا روحانی سلسلہ گولڑہ شریف سے وابستہ ہے جس کی وجہ سے میرے پیربھائی بھی ہیں۔ میری کتاب ’’نگارشاتِ انجم‘‘ کا پس ورق بھی انہوں نے بڑی محبت سے تحریر کیا تھا۔ ان کی طویل علمی و ادبی خدمات پر میری نگرانی میں ایک طالبہ سعدیہ افتخار نے ایم فل کا مقالہ بھی ضبطِ تحریر کیا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر عابد سیال نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد میں شعبہ پاکستانی زبانوں کے صدر نشین ہیں۔ وفاقی جامعہ اردو کے شعبہ اردو میں مہمان پروفیسر کی حیثیت سے پڑھاتے رہے ہیں۔ اس شعبہ کے ایم فل، پی ایچ ڈی کے بیشتر مقالات کے ممتحن بھی رہے۔ ان کے ساتھ دوسرے مہمان اعزاز انچارج کیمپس ڈاکٹر حافظ محمد اسحاق اپنی گوناں گوں مصروفیات کے باوجود اس تقریب میں شریک ہوئے۔ ایڈیشنل رجسٹرار ڈاکٹر عمران شہزاد، ڈاکٹر حافظ عبدالرشید صدر شعبہ علوم اسلامیہ اور اساتذہ کرام و فاضلین کا بہت بہت شکریہ کہ وہ اس تقریب میں تشریف فرما ہیں۔
 صدر شعبہ اردو پروفیسر ڈاکٹر فہمیدہ تبسم اور سمینارز و کانفرنسز کمیٹی کی انچارج ڈاکٹر سعدیہ طاہر کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے خصوصی طور پر یہ تقریب منعقد کرائی۔ مہمان خصوصی پروفیسر فتح محمد ملک وفاقی جامعہ اردو اسلام آباد کے نئے کیمپس میں پہلی بار تشریف لائے ہیں۔ ان کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ پروفیسر فتح محمد ملک ۱۸ جون ۱۹۳۶ء کو تلہ گنگ کے قریب ’’ٹہی‘‘ گائوں میں پیدا ہوئے۔ آپ قطب شاہی اعوان قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد گرامی گل محمد ۱۹۳۶ء میں پیر قطبی شاہ سہروردی ملتانی کی بدولت سہروردی سلسلے سے وابستہ ہوئے تو ان میں عاجزی و انکساری آ گئی۔ انہوں نے اپنی حویلی کے دروازے پر ’’آشیانہ غربت گل محمد سہروردی‘‘ کا بورڈ لگا دیا۔ پروفیسر فتح محمد ملک نے اپنی خودنوشت کا عنوان ’’آشیانہ غربت سے آشیاں در آشیاں‘‘ رکھا۔ یہ پہلے اپنی آپ بیتی کا نام ’’درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری ہے‘‘ رکھنے کے متمنی تھے جس کا اظہار ڈاکٹر عظمیٰ نور نے مقالے میں تحریر کیا ہے۔ 
 آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد گل محمد کی سرپرستی میں حاصل کی اور گورنمنٹ ہائی سکول تلہ گنگ میں استاد عبدالرشید ان کے اولین اساتذہ میں شامل تھے۔ میٹرک کے بعد کیمبل پور کالج میں داخلہ لیا جہاں غلام جیلانی برق اور پروفیسر عثمان سے سیکھنے کا موقع ملا۔ اٹک کالج سے بی اے کے بعد روزنامہ تعمیر راولپنڈی سے وابستہ ہو گئے۔ گارڈن کالج سے ایم اے اردو میں پنجاب یونیورسٹی کے اولین گولڈ میڈلسٹ ہیں۔پنجاب یونیورسٹی میں اردو نظم کا ارتقاء کے موضوع پر خاکہ ڈاکٹر وحید قریشی کو دکھایا تو انہوں نے جزوی تبدیلی کا مشورہ دیا تو آپ نے ارادہ ہی ترک کر دیا اور بیرون ملک چلے گئے۔
 ایم اے کے بعد گورنمنٹ کالج اصغر مال میں ڈیڑھ سال پڑھانے کے بعد کولمبیا یونیورسٹی چلے گئے۔ وہاں سے واپس آئے تو قائداعظم یونیورسٹی میں شعبہ مطالعہ پاکستان کے صدر مقرر ہوئے۔ یہاں دو سال کے بعد علامہ اقبال چیئر پر ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں وقفے وقفے سے دو مرتبہ تعینات رہے۔
 حکومت پنجاب میں ڈپٹی ڈائریکٹر لسانیات، پریس سیکرٹری، وزیراعلیٰ پنجاب، ڈائریکٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ مطالعہ پاکستان قائداعظم یونیورسٹی کے ساتھ ملک و بیرون ملک مختلف جامعات میں درس و تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ مقتدرہ قومی زبان اور اکادمی ادبیات پاکستان میں صدر نشین رہے۔ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے ریکٹر اور اب علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں اقبال چیئر کے صدر نشین ہیں۔ میں انہیں زمانہ طالب علمی سے جانتا ہوں جب ان کے مضامین سرسیدین اور نیرنگِ خیال میں پڑھتا تھا۔ یہ رسائل پروفیسر مشتاق قمر کے گھر آیا کرتے تھے جو ان دنوں سرسید کالج راولپنڈی میں پڑھا رہے تھے۔ مشتاق قمر میری والدہ کے پھوپھی زاد بھائی تھے اور ہم ان کے پڑوس مغل آباد کینٹ میں رہائش پذیر تھے۔ ان کے گھر میں ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر رشید امجد، پروفیسر جمیل آذر، ڈاکٹر رشید نثار اور سلطان رشک سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ نوے کی دہائی میں نیرنگِ خیال پر ایم فِل کا موضوع مل گیا تو اکثر نیرنگِ خیال کے شماروں میں پرورفیسر فتح محمد ملک کے ساتھ میرے مضامین بھی شائع ہونے لگے تو ہم بھی ادب کی شاہراہ پر گامزن ہو گئے۔
 ۱۳ نومبر ۲۰۰۲ء کو وفاقی جامعہ اردو معرض وجود میں آئی تو اس کے اسلام آباد کیمپس میں اردو لیکچرار کی اسامیاں مشتہرہوئیں۔ ۲۰۰۳ء میں پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد مختلف جگہوں پر درخواستیں بھیجیں۔ بالآخر ۲۰۰۶ء میں جامعہ اردو میں انٹرویو کے لیے بلایا گیا۔ اسلام آباد کیمپس کی لائبریری میں تمام امیدواروں کو جمع کر دیا گیا۔ باری باری ہر شعبہ کے امیدواروں کو اوپر بلا لیا جاتا۔ اﷲ اﷲ کر کے اردو کے امیدواروں کا نمبر بھی آیا تو ہمیں بھی اوپر چوتھے فلور پر شیخ الجامعہ کے معاون عبدالرشید بنگش کے کمرے میں بٹھا دیا گیا۔ اردو کے بارہ امیدواروں میں ڈاکٹر ناہید قمر اور میں ہی پی ایچ ڈی تھے باقی امیدوار ایم فِل تھے اور بعض کے پی ایچ ڈی مقالات جمع تھے۔ انٹرویو کا سلسلہ شروع ہوا تو ڈاکٹر ناہید قمر کو بلایا گیا ان کے بعد میرا نمبر آیا تو کانفرنس روم کے دروازے پر رو ک دیا گیا۔ سامنے نگاہ پڑی تو پروفیسر فتح محمد ملک میری درخواست کو بڑے غور سے پڑھ رہے تھے۔ دس منٹ کے وقفے کے بعد دوبارہ حاضر ہونے کے لیے کہا گیا۔ میرے ایک ہاتھ میں اسناد کی فائیل اور دوسرے میں بھاری بھر کم بیگ میں میری کتب کے ساتھ اخبارات و رسائل جن میں میرے مضامین شائع ہوئے تھے ۔ میز کی دوسری جاب بیٹھ گیا۔ میرے سامنے فتح محمد ملک کے ساتھ شیخ الجامعہ ڈاکٹر سید کمال الدین اور انچارج کیمپس اے جے ہمدانی کے ساتھ اور دائیں بائیں مختلف شخصیات بڑے غور سے دیکھ رہی تھیں۔ پروفیسر فتح محمد ملک سے مقتدرہ قومی زبان، علامہ اقبال اوپن یونیوسٹی اور اکادمی ادبیات کے مختلف پروگراموں میں ملاقاتیں ہو چکی تھیں بلکہ اپنی ہر نئی  شائع ہونے والی کتاب پر ان اداروں، جامعات اور ادباء و شعراء کو پیش کرتا رہا اور سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ انٹرویو میں سوالات کا سلسلہ شروع ہوا تو علامہ اقبال کی تصویر سے بات شروع ہو کر تحقیقی مقالے تک پہنچی۔ انٹرویو کے بعد ملک صاحب سے اس لیے ملنے نہیں گیا کہ یہ نہ سمجھیں کہ سفارش کے لیے آیا ہوں۔ ۵ اکتوبر ۲۰۰۶ء کو جامعہ سے فون آیا کہ آپ کا لیٹر آیا ہوا ہے، آپ یونیورسٹی آ جائیں۔ اگلے دن یونیورسٹی پہنچ کر میڈیکل کرایا اور رجوع بکار ہو گیا۔ پھر پروفیسر فتح محمد ملک سے ملاقاتوں کا ایک لامتناعی سلسلہ شروع ہوا تو رجوع بکاری سے پہلے نہ ملنے کا بتایاتو ہنس کر کہنے لگے اس بورڈ میں آپ دو ہی ڈاکٹر تھے جن کو میرٹ پر سلیکٹ کر لیا گیا۔ 
 پروفیسر فتح محمد ملک نے اپنی خودنوشت میں صحافت سے تدریس کا ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ کالج میں پہلی کلاس میں گئے تو طالب علموں کا شور کلاس روم سے باہر تک جا رہا تھا۔ آپ کلاس کے بعد کنٹین چلے گئے جہاں ایک استاد نے کہا میں اس کلاس کو پڑھا لوں گا آپ میری کلاس پڑھائیں جو اعلیٰ سطح کی تھی۔ اس طرح کا ایک واقعہ میری پہلی کلاس میں پیش آیا۔ میں ایم بی اے کی کلاس میں گیا تو طالب علم کہنے لگے ہمیں پہلے والے استاد ہی پڑھائیں۔ دراصل مجھ سے پہلے دو کلاسز سعید احمد نے لی تھیں جو ان دنوں نمل سے پی ایچ ڈی کر رہے تھے اور ڈاکٹر ناہید قمر کے ہم جماعت بھی تھے۔ شاید انہوں نے طالب علموں کو اتنا اچھا پڑھایا کہ وہ انہیں سے پڑھنا چاہ رہے تھے۔ طالب علموں کے ردعمل کے بعد شعبہ نظمیات کے صدر ڈاکٹر زاہد اور ڈاکٹر حافظ محمد اسحاق نے انچارج کیمپس کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ اب اردو کے دو ریگولر اساتذہ کرام ہی پڑھائیں گے۔ پھر شعبہ نظمیات میں ڈاکٹر ناہید قمر نے اور میں نے شعبہ کمپیوٹر سائنس میں پڑھانا شر وع کر دیا۔
 پروفیسر فتح محمد ملک سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ذرا بے تکلف ہوئے تو ان کے گھر چاندنی چوک اور اسلام آباد ای الیون میں جانا شروع کر دیا۔ میرے ساتھ اکثر و بیشتر ڈاکٹر حافظ عبدالرشید بھی جایا کرتے تھے۔ پروفیسر صاحب بہت مہمان نواز اور عمدہ شخصیت کے مالک ہیں۔ ایک بار ملنے کے بعد ہر کوئی ان کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ جامعہ اُرد و میں سینیٹر اور ڈپٹی چیئر بھی رہے۔ اسلام آباد کیمپس کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی کاوشیں لائق تحسین ہیں۔ شعبہ اردو کی بنیاد انہوں نے رکھی جس کا ذکر اپنی خودنوشت میں کر چکے ہیں۔ ۲۰۰۷ء میں شعبہ اُردو میں چار ایم اے اور چار ایم فِل لیڈنگ ٹو پی ایچ ڈی کے طالب علموں کی ایک مشترکہ کلاس کا آغاز ہوا۔ اساتذہ کرام کی کمی کو پورا کرنے کے لیے انگریزی کی استاد محترمہ مہناز زینب کو تنقید کی کلاس دے دی گئی۔ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ اور ڈاکٹر رشید امجد کی مہمان پروفیسر کی حیثیت سے خدمات حاصل کی گئیں۔ ڈاکٹر رشید امجد نے ایک کلاس کے بعد معذرت کر لی اور دوسری کلاس کے لیے اپنی شاگرد ڈاکٹر روبینہ شہناز کو بھیج دیا تو انہوں نے بھی دو کلاسز کے بعد معذرت کر لی۔ اسی اثناء میں ڈاکٹر منور ہاشمی سعودیہ سے واپسی کے بعد بار بار چکر لگا رہے تھے تو انہیں کلاسز دے دی گئیں۔ پروفیسر فتح محمد ملک نے پاکستانی زبانوں کا کورس پڑھانا شروع کر دیا۔ ایک دن مقتدرہ قومی زبان میں بل پر دستخط کرانے گیا تو انہوں نے کہا یہ یونیورسٹی کے اکائونٹ میں جمع کرا دیں، میں معاوضہ نہیں لوں گا۔ اس طرح پروفیسر فتح محمد ملک ایک سمسٹر جامعہ میں اور ایک سمسٹر مقتدرہ قومی زبان میں طالب علموں کو اعزازی طور پر پڑھاتے رہے۔ اس کا ذکر ملک صاحب نے اپنی خودنوشت میں بھی کیا ہے۔ ۱۳ نومبر ۲۰۰۶ء کو یوم تاسیس کے پروگرام میں ملک صاحب صدارت کر رہے تھے۔ اس پروگرام کی نظامت پروفیسر محمد آصف کر رہے تھے جو بعد میں رجسٹرار بھی رہے۔ میں نے اپنی تقریر میں جامعہ اردو کی صد سالہ تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے مولوی عبدالحق کی جامعہ اردو کے لیے کوششوں کو بیان کیا تو ملک صاحب نے تصحیح فرماتے ہوئے کہا کہ برصغیر میں جامعہ اردو کی پہلی آواز بلند کرنے والے جمال الدین افغانی تھے۔ اس یوم تاسیس کی مکمل روداد نگارشات انجم اور وفاقی جامعہ اردو کی کتب میں موجود ہے۔
 صدر پرویز مشرف نے ۱۳ نومبر ۲۰۰۲ء میں اردو کالج اور اردو سائنس کالج کو وفاقی اردو یونیورسٹی کا درجہ دے کر بابائے اردو کے خواب کو تعبیر بخشی اور اس کا مین کیمپس اسلام آباد میں قائم ہو گیا۔ اس جدوجہد میں جن شخصیات نے نمایاں کردار ادا کیا اس میں اختر حسین، قدرت اﷲ شہاب، پیر علی محمد راشدی، نور الحسن جعفری، آفتاب احمد خان، جمیل الدین عالی، ڈاکٹر اے جے ہمدانی، ڈاکٹر کمال الدین اور پروفیسر فتح محمد ملک کے نمایاں ہیں۔
 اسلام آباد کیمپس میں شعبہ اردو کا قیام از بس ضروری تھا تاکہ یہاں سے ایسے نوجوان تیار ہو کر ملک و ملت کی خدمت کر سکیں جن کا تعلق پسماندہ اور متوسط طبقے کے ساتھ ہے۔ ان کے ساتھ اونچے طبقے کے وہ افراد جو انگریزی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں انہیں بھی اردو زبان و ادب سے روشناس کرایا جا سکے۔ انہی مقاصد کے پیش نظر پروفیسر فتح محمد ملک نے شعبہ اردو کی بنیاد رکھی۔
 ڈاکٹر ناہید قمر اور میری آزائشی مدت پوری ہونے پر ہمیں ایڈہاک اسسٹنٹ پروفیسر بنا دیا گیا۔ دوسرے سلیکشن بورڈ میں ڈاکٹر ناہید قمر ٹی ٹی ایس پر چلی گئی اور میں ریگولر ہو گیا۔ ہمارے شعبہ کے سلیکشن بورڈز میں پروفیسر فتح محمد ملک، ڈاکٹر رشید امجد، دو سلیکشن بورڈ میں ڈاکٹر انعام الحق جاوید جبکہ آخری سلیکشن بورڈ میں ڈاکٹر آصف اعوان تشریف لائے تھے۔ ان بورڈز میں ڈاکٹر فہمیدہ تبسم، ڈاکٹر سید عون ساجد نقوی، ڈاکٹر منور ہاشمی، ڈاکٹر سعدیہ طاہر اور ڈاکٹر زینت افشاں بتدریج شعبہ اردو کا حصہ بنیں۔ ان کے ساتھ نامور پروفیسر صاحبان بھی مہمان پروفیسر کی حیثیت سے اس شعبہ میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ ان میں ڈاکٹر گوہر نوشاہی، ڈاکٹر نوازش  علی، احمد جاوید ، ڈاکٹر روشن آرا رائو، ڈاکٹر سعید احمد، ڈاکٹر ذوالفقار احسن، ڈاکٹر راشد حمید، پروفیسر شکیل انجم اور ہمارے بہت سے فاضلین کے نام قابل ذکر ہیں۔
 پروفیسر فتح محمد ملک شعبہ اردو کے مختلف سیمینارز اور کانفرنسوں میں شرکت کرتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نصاب کمیٹی میں بھی رہے  بلکہ ایک دفعہ وائس چانسلر کے طور پر سلیکشن بھی ہو گئی تھی اور انہیں گورنر ہائوس کراچی میں انٹرویو کے لیے بھی بلایا گیا تو خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی کہ اب اسلام آباد کیمپس کو مرکزی حیثیت حاصل ہو جائے گی اور جامعہ برق رفتاری سے ترقی کرے گی لیکن شومئی قسمت ان کی جگہ کسی اور کی سلیکشن ہو گئی اور جامعہ تب سے سنبھل ہی نہیں سکی۔
 پروفیسر فتح محمد ملک کے دورانیے میں یونیورسٹی ترقی کی منازل طے کر رہی تھی اور تدریسی و غیر تدریسی اعمال بڑی محنت اور لگن سے اپنی خدمات سرانجام دے رہے تھے۔
 ملک صاحب نے شعبہ اردو کا جو پودا لگایا تھا اب یہ تناور درخت بن چکا ہے۔  الحمد اﷲ اب تک ۶۰ پی ایچ ڈی، ۱۲۰ ایم فِل اور ان گنت ایم اے کے فاضلین فارغ التحصیل ہو کر اندرون و بیرون ممالک اپنی خدمات پر معمور ہیں۔
 ملک صاحب کی خدمات کے اعتراف میں اپنی کتاب ’’تابندہ لوگ‘‘ میں ایک خاکہ تحریر کیا تھا بلکہ میری نگرانی میں ڈاکٹر عظمیٰ نور نے ان کی لسانی اور ادبی خدمات پر پی ایچ ڈی کا مقالہ ضبط تحریر کیا ہے ان پر ایم اے اور ایم فل کے جامعاتی مقالات کا حساب ہی نہیں ہے۔
 ملک صاحب کی خودنوشت کے چند صفحات جمیل الدین عالی کے باب میں جامعہ اُردو کے حوالے سے شامل ہیں۔ ان کی تشریحات پر توضیحات کی گئی ہے۔ پوری کتاب کا احاطہ ایک نشست میں ممکن نہیں۔ ملک صاحب نے اتنی جامعیت سے کتاب کے ابواب باندھے ہیں کہ ہر باب کی تشریحات کے لیے پورے مقالے کی ضرورت ہے جو انہوں نے محققین پر چھوڑ دیئے ہیں اور اب ناقدین اور محققین ہی اس خود نوشت کی گتھیاں سلجھاتے رہیں گے۔ میں صدر شعبہ اردو ڈاکٹر فہمیدہ تبسم سے درخواست کروں گا کہ اس خودنوشت پر تحقیقی کام بھی کرا دیں۔ اﷲ تعالیٰ ملک صاحب کو صحت و سلامتی کے ساتھ اسی طرح رواں دواں رکھے۔آمین۔ 

مزیدخبریں