محترمہ مریم نواز صاحبہ نے ایک ٹویٹ میں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کا شکریہ ادا کیا ہے کہ انہوں نے پٹرول کی قیمت میں 5 روپے کی کمی کر دی ہے۔
مریم صاحبہ نے ٹویٹ کرنے میں جلدی کر دی۔ اصل میں تو ڈار صاحب نے صارفین سے ہلکا پھلکا مذاق کیا ہے۔ پٹرول پہلے 272 روپے کا لٹر تھا، اب 267 کا ہو گیا۔ کتنا فرق پڑا؟۔ کچھ بھی نہیں۔ البتہ اگر ڈار صاحب کم سے کم سو ڈیڑھ سو کی کمی کرتے تو یہ ٹویٹ حق بجانب ہوتا لیکن ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کا ڈنڈا سر پر ہے، اس سے بھاگنے کا کوئی راستہ ان لوگوں نے چھوڑا ہی نہیں جو آج کل پے درپے ضمانتیں وصول کررہے ہیں اور فاتحانہ آ رہے ہیں فاتحانہ جا رہے ہیں۔
_________
کئی شہروں سے لوگوں کے جان لیوا مہنگائی کے خلاف دلچسپ قسم کے احتجاج کی خبریں آ رہی ہیں۔ ایک شہر میں دولہا صاحب بارات چھوڑ کر سڑک پر آ گئے اور احتجاج کرنے لگے۔ احتجاج کے بعض طریقے دل شکن ہیں۔ لوگ بچوں کو مار کر خودکشی کر رہے ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ کوءاحتجاج کرے یا خودکشی، مہنگائی کم نہیں ہو گی، الٹا بڑھے گی اور بہت زیادہ بڑھے گی۔
ذمہ دار کون ہے، اب کوئی کیا بتائے۔ جو ذمہ دار ہے اس کا نام لیا تو گالیاں کھانے کو ملیں گی۔ ابھی کل ہی ذمہ داروں کے ایک بڑے جتھے نے محض اس خدشے کے پیشِ نظر کہ کہیں ضمانت منسوخ نہ ہو جائے، عدل و انصاف فراہم کرنے والے کمپلیکس پر حملہ کر دیا۔ اس کے گیٹ توڑ دئیے، کیمرے باش پاش کررہے، پولیس والوں کی دھلائی کر دی، اندر گھس کر نعرے لگائے، ڈنڈے لہرائے، بعض تو اتنے پرجوش تھے کہ ساتھ کلاشنکوف بھی لائے ۔ حالانکہ ضمانت منسوخ ہونے یا ضمانت نہ ملنے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔
چنانچہ ایسے ناموروں کا نام لینے میں سود کچھ نہیں، زیاں ہی زیاں ہے۔
_________
کچھ مہنگائی ایسی بھی ہے جس کے ذمہ دار یہ بڑے ناموں والے نامور نہیں اور آئی ایم ایف بھی نہیں۔ مثلاً چکن اڑھائی گنا مہنگا ہو گیا ہے، ساڑھے چھ اور سات سو روپے کے درمیان بک رہا ہے اور سنا ہے کہ رمضان المبارک میں ہزار روپے کا بھی نہیں ملے گا۔ چکن مہنگا کرنے کا حکم آئی ایم ایف نے نہیں دیا۔ یہ ایک وزیر باتدبیر کا کارنامہ ہے۔ ان وزیر موصوف کی پولٹری والوں سے کسی بات پر تلخ کلامی ہوئی، بدلہ اس کا انہوں نے یوں لیا کہ فیڈ لے کر آنے والے جہاز ہی روک لئے۔ نتیجہ پھر ”حسب منشا“ ہی نکلا۔
لاکھوں نہیں، کروڑوں محنت کش سگریٹ پئے بغیر کام کر ہی نہیں سکتے۔ ذلتوں کی ماری یہ مخلوق سستے سگریٹ پی کر اپنے روزگار کی مشین چلاتے تھے، ڈار صاحب نے سگریٹ تین گنا مہنگے کر دئیے۔ ان سب کی طرف سے دی جانے والی ”دعائیں“ ڈار صاحب کا وہ سرمایہ ہے جو انہوں نے کمایا ہے۔
اسی طرح اور بھی کئی قسم کی مہنگائی ہے جو ڈار صاحب کی عنایت ہے، کسی اور کی نہیں۔
_________
منی بجٹ میں خاص طور پر اور وفاقی بجٹ میں بھی حکومت نے جملہ مراعات اور رعایات کا پرنالہ اشراف کی حویلی ہی میں گرایا۔ عوام کو اس نظر عنایت سے محروم رکھا گیا۔
لیکن یہ وہی اسحاق ڈار صاحب ہیں جو نواز شرف کی وزارت عظمیٰ کے دور میں کچھ نہ کچھ ریلیف عوام کو بھی دیا کرتے تھے۔ ڈار صاحب میں یہ کایا کلپ کیسے ہوئی؟
بظاہر کہا جا سکتا ہے کہ اصل شے وزیر اعظم کا سایہ ہے اور ڈار صاحب سائے کے اثر تلے ہی فیصلے کرتے ہیں۔ نواز شریف عوام کا خیال رکھتے تھے اس لئے کہ وہ سیاسی آدمی تھے۔ ہر سیاستدان ”بائی ڈیفالٹ“ عوام کا خیال رکھنے پر مجبور ہوتا ہے۔ شہباز شریف غیر سیاسی آدمی ہیں، عوام کو ”اضافی“ شے سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں اصل چیز طاقت کے ”کِلّے“ ہیں جو مضبوطی سے گڑے ہوئے ہیں، ان سے جڑے رہنے ہی میں فائدہ ہے۔ کِلّے اور قلعے میں فرق واضح ہے، لیکن اثرات و فضائل میں ”مترادف“ ہی سمجھئے۔ ڈار صاحب تب نواز شریف کے سائے میں تھے، اب شہباز کے سائے میں ہیں۔
_________
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ میں سے تین ججوں نے پنجاب اور کے پی کے میں 90 روز کے اندر الیکشن کرانے کا حکم دے دیا ہے۔ حکومت نے اس اہم کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس مطالبے کو ایوان انصاف کے اندر سے بھی کچھ حمایت ملی البتہ سماعت کے آخری روز حکومت نے یہ مطالبہ واپس لے لیا اور کہا کہ پانچ رکنی بنچ ہی سماعت کرے۔ اب یہ فیصلہ آ گیا ہے تو حکومت کے پاس بظاہر کوئی راستہ نہیں رہا۔ جو راستہ تھا، وہ خود اس نے بند کیا۔ حیرت انگیز طور پر آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن کی جماعتوں نے بھی راستہ بند کرنے کے اس فیصلے کی حمایت کی۔
اب الیکشن ہو گا یا بحران آئے گا۔ ہمارے ہاں الیکشن کم ہوتے ہیں، بحران زیادہ آتے ہیں۔ بحرانوں کا پہلے ہی ہجوم ہے، ہجوم میں ایک کا اضافہ اور سہی۔ ایسے مواقع پر کہا جاتا ہے کہ بحران نہ آنے یا اس کے ٹل جانے کی دعا کی جائے لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ ایسی دعائیں شرف قبولیت سے محروم ہی رہتی ہیں۔
بحران میں اضافہ، مطلب بے یقینی اور ہلچل میں اضافہ ، مطلب معاشی مشکلات میں اضافہ اور مزید مطلب معاشی مشکلات میں اضافہ اور مزید مطلب کہ مہنگائی میں اضافہ۔ یعنی سوکھی روٹی جو پہلے ہی اکثر کیلئے ان میں ایک وقت کی رہ گئی ہے، اب غریب کی پہنچ سے اور بھی اور ہو جائے گی۔
_________
عدالتی کارروائی میں یہ بات بھی تسلیم کی گئی کہ صدر نے کسی معاملے میں آئین سے تجاوز کیا۔ آئین سے تجاوز کرنا صدر کا شوق ہے، وہ پہلے بھی ایک دڈربار پر شوق فرما چکے ہیں۔ اسمبلی توڑنے کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے میں بھی یہی بات سامنے آئی تھی۔
آئین سے تجاوز کرنے کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے لیکن صدر صاحب کی خوش قسمتی ہے کہ ان کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے اور جس کا تعلق پی ٹی آئی سے ہو، اس کے خلاف کسی قسم کی چارہ جوئی بھی نہیں کی جا سکتی، چنانچہ اس معاملے پر بھی خموشی ہی واحد آپشن ہے۔
________