روبرو لقمان شیخ
حالیہ ہونے والے انتخابات کے بعد ایک سینئر بیورو کریٹ کی بعد یاد آگئی. اس افسر کے گھر بیٹھ کر گپ شپ لگ رہی تھی. سیاسی صورتحال پر بات چیت ہو رہی تھی. تب ابھی اس بات پر یقین نہیں تھا کہ انتخابات وقت پر ہونگے یا نہیں. لیکن اس افسر نے یہ بات بڑے وثوق سے کہی تھی کہ اگر 8 فروری کو انتخابات ہوئے تو قیدی نمبر 804 اور اسکی جماعت کے خلاف اتنی دھاندلی ہو گی کہ لوگ 1977 میں ہونے والے انتخابات کی دھاندلی بھول جائیں گے. اور بالکل ویسا ہی ہوا.8 فروری کو جب عوام نے اپنے حق رائے کا استعمال کیا تو ابتدائی رزلٹ قاسم کے ابو کی جماعت کو لوگوں کے حق میں آ رہا تھا. الیکشن والے دن موبائل سروس کو مکمل طور پر بند رکھا گیا. میں اور میری ٹیم سنو ٹی وی میں بیٹھ کر پروگرام کرنے کے ساتھ ساتھ رزلٹ ریکھ رہے تھے. اینکر شجعیہ نیازی اور کانٹینٹ پروڈیوسر عبدالرحمن خان اور پروڈیوسر محمود شیرازی یہی اندازہ لگا رہے تھے کہ شیر ڈھیڑ ہو گیا اور پیالہ، چمٹا، چراغ بازی لے جا رہا ہے. چونکہ موبائل بند تھے تو رزلٹ آنا لیٹ ہو گئے. رزلٹ سست روی کا شکار ہو گئے. آر اوز نے میڈیا کو رزلٹ فراہم کرنے سے منع کر دیا. اس دوران میں نے ایک ریڑنگ آفیسر کے آفس میں چکر بھی لگایا. وہاں کا ماحول دیکھ کر سمجھ آگئی کہ دھاندلی والی جو بات میرے ایک بیوروکریٹ دوست نے بتائی تھی وہ سچ ہونے والی ہے. میں واپس آیا تو اپنے آفس کے دوستوں کو بتایا کہ جو آپ لوگوں کو ابھی نظر آ رہا ہے یہ سب کچھ صبح تک تبدیل ہو جائے گا. اور ایسا ہی ہوا. پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا چینل جیو نیوز نے اس پر آواز بھی اٹھائی اور الیکشن کمیشن کو سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا. مگر شاید مقتدرہ کے دباو¿ کی وجہ سے انھوں نے بھی اس ٹیکنیکل اور لیٹ رزلٹ والی دھاندلی پر چپ سادھ لی.
بحرحال جب صبح اٹھے تو وہی ہوا جس کا خدشہ تھا. جو امیدوار رات گئے تک جیت رہے تھے وہ صبح ہار گئے اور جو ہار رہے تھے وہ جیت گئے.ایسا نہیں ہے کہ مسلم لیگ ن کو ووٹ نہیں پڑا یا ان کے امیدوار درست طریقے سے جیتے نہیں. ن لیگ کا اپنا ایک ووٹ ہے اسکی اپنی پہچان ہے. میاں نواز شریف اور شہباز شریف نے بڑے بڑے جلسے کیے ہیں انکے ووٹرز نکلے بھی ہیں لیکن انھیں الیکشن ڈے پر عوام سے جو امید تھی شاید سولہ ماہ کی حکومت اور کوئی جاندار بیانیہ نہ ہونے کے باعث، میاں نواز شریف کی چوتھی بار وزیراعظم بننے کی امید دم توڑ گئی. میاں نواز شریف 8 فروری کی رات کو وکڑی سپیچ کرنے جارہے تھے مگر رات کے رزلٹ دیکھنے پر انھوں نے اپنی تقریر منسوخ کر دی. اور اگلے دن جب رزلٹ تبدیل ہوئے تو میاں نواز شریف اور شہباز شریف نے مخلوط حکومت کا عندیہ ہی دیا. حیران کن بات تو یہ کہ قومی لیڈر میاں نواز شریف اپنے داماد کے حلقے سے ہی ہار گئے. دوسری طرف تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد اراکین تمام تر مشکلات اور دباو¿ کے باوجود جیتنے میں کامیاب ہوگئے. بڑے بڑے برج الٹ گئے. خواجہ سعد رفیق، رانا ثنا اللہ، خرم دستگیر اور میاں جاوید لطیف جیسے مضبوط امیدوار الیکشن ہار گئے. شاید اسکی وجہ وہ ظلم اور بربریت ہے جو بانی پی ٹی آئی اور انکی جماعت کے لوگوں کے خلاف ڈھائے گئے. یا لوگوں نے سسٹم چلانے والوں کے خلاف ووٹ دیا ہے. اگر پیپلز پارٹی کی بات کی جائے تو آصف علی زرداری زرداری کے چارمنگ پرنس بلاول بھٹو زرداری نے بہت اچھی الیکشن کیمپین چلائی ہے. انھوں نے پارٹی کا جو منشور پیش کیا اور محنت الیکشن مہم میں کی اسکے نتیجے میں سندھ اور بلوچستان تو انکے ہاتھ آیا ہی، جنوبی پنجاب سے بھی کچھ سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوگئے. یہ پیپلز پارٹی کے لئے بہت بڑی کامیابی ہے. البتہ بلاول بھٹو زرداری خود اپنی سیٹ مسلم لیگ ن کے ایسے امیدوار سے ہارے ہیں جو لاہور کا رہائشی بھی نہیں اور اسکی اپنی کوئی سیاسی شناخت نہیں لیکن شاید لیگی حلقہ ہونے کی وجہ سے یہ امیدوار جیت گیا.
تمام تر خدشات کے باوجود 8 فروری کے انتخابات تکمل ہوئے. یہ انتخابات کتنے شفاف تھے اور دھاندلی زدہ تھے مقتدرہ کا ان انتخابات میں کیا کردار رہا. تاریخ لکھنے والے اس پر لازمی لکھیں گے. میں نے 1977 کے انتخابات نہیں دیکھے لیکن تاریخ بتاتی ہے وہ دھاندلی زدہ تھے. اسی طرح 2024کے انتخابات کے بارے میں بھی لکھا جائے گا.
پنجاب اسمبلی تشکیل پا گءہے.
مریم نواز پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلی ہیں. انکی تقریر جاندار ہوتی ہے. وہ پنجاب کو کیسے چلاتی ہیں یہ ابھی دیکھنا ہو گا. انکا سائبان کا منصوبہ اچھا ہے اگر احسن طریقے سے سر انجام ہو پائے. سندھ اسمبلی اور خیبر پختون خواہ اسمبلیاں بھی تشکیل پا گئی ہیں.
قومی اسمبلی کے اراکین نے بھی حلف اٹھا لیا ہے. جمہوریت کا پہیہ چل پڑا ہے. قومی اسمبلی میں ساٹھ فیصد تجربہ کار لوگ ہیں. اگر انھیں جمہوریت کو اور قومی اسمبلی کو چلانا ہے تو قیدی نمبر 804 سے مذاکرات کرنے پڑیں گے. وگرنہ وہ نہ حکومت چلنے دے گا نہ اسمبلی. یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ عوام نے عمران خان کو ووٹ دیے ہیں اور عوام اسکے ساتھ ہے.لہذا دانشمندی یہی ہے کہ اگر اسمبلی چلانی ہے تو عمران خان کو ساتھ لے کر چلیں.