اردو جو نہیں تو کچھ بھی نہیں

سیّد روح الامین

    کالم سے پہلے اپنے بہت ہی پیار ے بھائی جناب ذیشان تبسم صاحب کو دلی مبارک باد جنہوں نے ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا کی علمی و ادبی خدمات پر ڈاکٹر روبینہ رفیق صاحبہ کی زیرنگرانی مقالہ لکھ کر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ اُردو سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔
............................
    قیامِ پاکستان کی بنیاد صرف چند جذباتی نعروں یا ہندو دشمنی پر نہیں رکھی گئی تھی۔ اصل میں پاکستان ایک نصب العین کا نام ہے۔ مسلمانوں کی جداگانہ تہذیب و ثقافت کی حفاظت اور بقا کا نام ہے۔ اگر پاکستان کے پس منظر کا غائر جائزہ لیا جائے تو پاکستان کی بنیاد ”اسلامی نظریہ “ قرار پاتا ہے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اس حقیقت کی ترجمانی ان الفاظ میں کی ۔ ”ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کےلئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔“    
    مسلمانانِ برصغیر مذہب، روایات، عقائد، ثقافت، رسوم و رواج اور زبان کے لحاظ سے ہندوﺅں سے جداگانہ وجود اور شناخت رکھتے تھے اور قیام پاکستان کا بنیادی مقصد بھی مسلمانوں کے مذہب اور تہذیب و ثقافت کی حفاظت تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے قیام پاکستان کے د رجہ بالا بنیادی مقاصد کے حصول میں کس حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔ تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ سبب یہ ہے کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں آزادی، جاگیرداری کے چونچلوں میں پلی اور جمہوریت آمریت کی گود میں پھلی اور پھولی ۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک ہمارے ہاں قیادت کاملہ کا کوئی تصور پروان نہیں چڑھ سکا لہٰذا ایسی ایک منظم اور محب وطن قیادت جو بانی پاکستان کے افکار کی حقیقی معنوں میں ترجمان ہو یا جس کے پیش نظر قیام پاکستان کے مقاصد کا حصول ہو ایک خواب ہی رہا، ایسا خواب جس کی تعبیر حاصل ہونا ابھی تک باقی ہے۔ اس کے برعکس تقریباً ہر پاکستانی قیادت انگیز سرکار کی آشیر باد حاصل کرنے کے لیے ان بنیادی مقاصد کی نفی کی مرتکب ہوتی رہی جن کے لیے زمین کا یہ ٹکڑا حاصل کیا گیا۔
    اس کا ایک واضح ثبوت یہ ہے کہ انگریزوں کو خوش کرنے کے لیے پاکستانی بچوں کے لیے غیر ملکی انگریزی زبان کو لازمی قرار دے دیا گیا۔ اگر آپ اقوامِ عالم کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ دنیا بھر میں کسی بھی ملک کے ماہرین تعلیم پرائمری سطح پر کسی غیر ملکی زبان کو پڑھنے کی سفارش نہیں کرتے۔ روسو، پستالوزی سے لے کر جان ڈیوی تک اور بعد میں جو ماہرین نصابات ہو کر گزرے ہیں کسی نے بھی پرائمری سطح پر غیر ملکی زبان کی تدریس کو لازمی کرنے کا نہیں سوچا۔ کیوں یہ سوچ ہی سراسر غیر تعلیمی، غیر منطقی اور غیر تعمیری ہے کیونکہ اس طرح نہ تو کسی قوم کی نظریاتی بنیادقائم رہ سکتی ہے اور نہ اس کا اپنے تہذیبی اور ثقافتی ورثے سے تعلق قائم رہ سکتا ہے۔
    دنیا بھر کے تما م ممالک میں تعلیم ان کی اپنی قومی زبانوں میں دی جاتی ہے۔ اگر کوئی انگریزی یا دوسری کوئی زبان سیکھنا چاہے تو ا س کے لیے آزاد ملکوں میں تدریسی ادارے اور اکیڈمیاں ہیں جہاں ثانوی یا یونیورسٹی کی تعلیم کے بعد طالب علم انگریزی وغیرہ سیکھ لیتے ہیں۔ جب ساری دنیا میں غیر ملکی زبانیں پڑھانے کا یہ طریقہ رائج ہے تو ہم کیوں انگریزی اپنے سارے بچوں پر اور وہ بھی پہلی جماعت سے مسلط کر رہے ہیں۔ اس کے پس پشت ہمارے حکمران طبقے کے کیا مخصوص مقاصد ہوسکتے ہیں؟ یہ ایک سوالیہ نشان اور لمحہ فکریہ ہے۔ 
    پرائمری سے ہی بچے کو انگریزی کی طرف راغب کرنے سے بچے نہ صرف اپنی قومی زبان سے دور ہو جائیں گے بلکہ عربی، فارسی سے ہمارا جو رہا سہا تعلق ہے وہ بھی کمزور ہو جائے گا اور آہستہ آہستہ ٹوٹ جائے گا جس کے اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔
اور یہ اہلِ کلیسیا کا نظام تعلیم
اک بغاوت ہے فقط دین و مروت کے خلاف
    اگرہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہم نے یہ آواز کہ انگریزی پرائمری سے لازمی ہو مارچ 1835ءمیں لارڈ میکالے کی زبان سے سنی تھی۔ آج 171سال بعد اس کا اعادہ کسی نئی بین الاقوامی سازش کا حصہ تو نہیں؟ اب ذرا بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا وہ فرمان بھی ملاحظہ فرمائیے جو انھوں نے 21مارچ 1948کو ڈھاکہ میں عوامی اجتماع سے خطا ب کرتے ہوئے قومی زبان اردو کے متعلق صادر فرمایا تھا۔ ”میں آپ کو صاف طور پر بتا دوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی اور کوئی دوسری نہیں۔ جو کوئی آپ کو غلط راستے پر ڈالے وہ درحقیقت پاکستان کا دشمن ہے۔ ایک سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم نہ تو مضبوط بنیادوں پر متحد و یکجا رہ سکتی ہے اور نہ ہی (بحیثیت قوم) اپنا کردار اد ا کرسکتی ہے۔ دوسرے ملکوں کی تاریخ اس امر کی شاہد ہے۔ پس جہاں تک سرکاری زبان کاتعلق ہے پاکستان کی زبان اردو ہوگی“۔ یہی نہیں بلکہ روح پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اپنے چودہ نکات میں مسلمانوں کے مذہب، تہذیب و ثقافت اور تعلیم کے ساتھ ساتھ بطور خاص زبان کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔ قائداعظم کے چودہ نکات میں سے بارھواں یہ تھا۔      ”مسلمانوں کی ثقافت اور تعلیم، زبان، مذہب ، مسلم قانون اور خیراتی اداروں کی ترقی اور حفاظت کے لیے تحفظات کا اہتمام کیا جائے۔“ زبان سے قائداعظم کی مراد یقینا اردو تھی جس کا واضح ثبوت ان کے یہ الفاظ ہیں جو انھوں نے 24مارچ 1948کو قیامِ پاکستان کے بعدڈھاکہ یونیورسٹی میں طلبا سے خطاب کرتے ہوئے کہے تھے۔ ”اگر پاکستان کے مختلف حصوں کو باہم متحد ہو کر ترقی کی شاہراہ پر گامرن ہونا ہے تو اس کی سرکاری زبان ایک ہی ہو سکتی ہے اور وہ میری ذاتی رائے میں اردو اور صرف اردو ہے۔“
    قائداعظم کے زبان کے بارے میں انھی فرمودات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے آئین میں باقاعدہ اس کے نفاذ کی تاریخ کا بھی تعین کیا گیا۔ آئین پاکستان 1973ءآرٹیکل(251)، 1میں واضح طور پر درج ہے۔
    251 (1) The national language of Pakistan is Urdu and arrangements shall officially be made for its being used for fifteen years and other purposes within from the commencing day.
    یعنی آئین پاکستان 1973ءکے آرٹیکل 251کے مطابق 14اگست 1988ءتک انگریزی کی جگہ اردو کو سرکاری زبان بن جانا چاہیے تھا لیکن مقررہ تاریخ کے بعد 30 سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود یہ آئینی تقاضا پورا نہیں کیا گیا، الٹا اس آرٹیکل کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اردو کی حریف غیر ملکی زبان انگریزی کو پہلی جماعت سے پانچویں جماعت تک لازمی کر دیا گیا جو کہ بچوں کے لیے زہر قاتل ہے۔ زبان کے بارے میں قائداعظم کے فرمودات طاق پر رکھ دیے گئے ہیں اور جس طرح آئین کی خلاف ورزی کی جارہی ہے یہ پاکستانی قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اگر نفاذ ِ اردو آرڈی ننس فوری طور پر جاری نہ کیا گیا اور قومی زبان کی حق تلفی کا ازالہ نہ کیا گیا تو یقین جانیے اسلام کے نام پر حاصل کردہ یہ ملک بتدریج سیکولر ریاست بن جائے گا اور ہم ہمیشہ کے لیے اپنی تہذیب و ثقافت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے ۔ اس طرح ہمارے دشمنوں کے عزائم پورے ہو جائیں گے اور تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ 
    پاکستان اور اردو لازم و ملزوم ہیں۔ بقول جناب ماہر القادری 
 اس ملک میں چاہے ہُن برسے
 اُردو جو نہیں تو کچھ بھی نہیں
uuu

ای پیپر دی نیشن